یہ ایک بڑا اہم اور نازک موضوع ہے۔ اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہر آدمی خود کو عقل ِکُل اور دوسروں کو بیوقوف سمجھتاہے۔ یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ سب سے بڑا بیوقوف وہی ہوتاہے جو دوسروں کو بیوقوف سمجھتاہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اللہ جس پر فضل کرتاہے اُسے سمجھ عطا کردیتاہے کیونکہ سمجھ سے بڑا خزانہ کوئی ہونہیں سکتا۔ کیوں؟ اِس لئے کہ سمجھ کی بنیاد علم ہے۔ وہ عطا کردہ علم جو پوری شخصیت پر محیط ہو۔ جو قول وقرار اور اخلاق وکردار کے تمام پہلوئوں پر مکمل طور پر حاوی ہو۔ اِس طرح حاوی ہوکہ بظاہر کسی کے آگے زانوئے تلمذ باندھے بغیر بدترین دشمن بھی اُس کے صادق وامین ہونے کا قائل ہو۔ جو اِس گہری بات کو اپنے ایک جملے میں اِسطرح سمودے کہ "سمجھ " پوری طرح سمجھ میں آجائے یعنی "دانائی کی بنیاد خوف خدا ہے" اس کے علاوہ سمجھ کو سمجھنے کا کوئی اورمعیار ہو ہی نہیں سکتا۔ کسی اور کسوٹی کی نشاندہی کی ہی نہیں جاسکتی۔ پھر سمجھ کا قصور کیا ہے؟ کونسی سمجھ اور کس کی سمجھ؟ قصور تو سارا اُن لوگوں کی سمجھ کا ہے جو اپنی معمولی اور بے مایہ سمجھ کو حقیقی سمجھ گردانتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی کے ہر موڑ پر باربار پریشان ہوجاتے ہیں، خوف زدہ رہتے ہیں، مایوسیوں کا شکار ہوتے ہیں عمر بھر جسمانی سے زیادہ ذہنی بیمار رہتے ہیں۔ ایک دوسرے سے نالاں اور بیزار رہتے ہیں۔ اُن سے بھی بعض اوقات جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں جن کے لئے جان دینے پر تیار رہتے ہیں۔ یہ گھنائونا تضاد اِسی سمجھ کا نیتجہ ہے جس پر مسلسل اتراتے رہتے ہیں۔
ایسا کیوں ہوتاہے؟ ایساصرف اِس لئے ہو تاہے کہ اُن کی سمجھ خالص نہیں ہوتی۔ جس چیز میں بھی ملاوٹ آجائے وہ خالص نہیں رہتی۔ مرچ مصالحوں سے لے کر طور طریقوں عادات واطوار رسوم و رواج غرضیکہ سیاست ومعاشرت کا کو ئی ایک پہلوبھی ایسا نہیں جس کے اندر ملاوٹ نہ ہو۔ ملاوٹ چیزوں کی کیفیتوں او رجذبوں کی حقیقتوں کو بدل دیتی ہے۔ انھیں پراگندہ کردیتی ہے۔ انھیں خالص نہیں رہنے دیتی۔ اور جب کوئی چیز خالص ہی نہ رہے۔ چاہے دودھ ہو کہ، دوا دشمنی ہو کہ دوستی، اپنا اثر چھوڑ دیتی ہے۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہم ایسی ہی سمجھ کے مارے ہوئے لوگ ہیں۔
۲۔ سمجھ میں ملاوٹ کیسے ہوتی ہے؟ سمجھ میں ملاوٹ محبت اور نفرت سے ہوتی ہے۔ محبت اور نفرت کا تعلق نہ غربت اور ناہی امارت سے ہے۔ نا بزدلی اور نابہادری سے، نامنا فقت اور نامخلصی سے، نا آزادی اورنا غلامی سے، ناعورت سے نا مرد سے ناہی کسی بدمعاش یا شریف سے ہوتا ہے۔ محبت اور نفرت کا تعلق آدمی کی سرشت سے ہوتا ہے۔ نفرت اور محبت آدمی کے اندر ودیعت کردگئی ہے۔ آدمی دشمن سے نفرت اور دوست سے محبت کرتاہے۔ اللہ نے بھی محبت اورنفرت کے پیمانوں کو ہی توحید اورشرک کی بنیاد بنایا ہے۔ اللہ نے اِس طرح اپنی نفرت اور محبت کا کھلے بندوں صاف صاف اعلان کیا ہے کہ اِس بات کا اجتماعی اظہار ہر مسلمان پر حج کے دوران فرض کردیا گیا ہے۔ اللہ سے محبت کا اظہار حمدوثنا اور تلمیح کے ذریعے اور شیطان سے نفر ت کا اظہار کنکریاں مارنے کے ذیعے فرض کیا گیا ہے۔ اللہ نے صاف صاف مسلمان کو بتادیا ہے کہ "اگر وہ اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہیں تو اے رسول تمہاری اطاعت کریں اللہ اُن سے محبت کرے گا" جس کو یہ بات سمجھ میں آجائے اُسے یہ بات بھی سمجھ میں آجائے گی کہ شیطان سے نفرت کے بغیر اللہ سے محبت کا دعویٰ بے معنی ہوجاتاہے۔
ہماری سمجھ چونکہ ملاوٹ زدہ ہوتی ہے۔ اس لئے اُس کا ناقص ہونا لازمی ہوجاتاہے۔ ہماری سمجھ حکام الہیٰ کی بجائے ہمارے رسوم ورواج، تہذیب وثقافت اور لسانی اورجغرافیائی عوامل اور ضروریات کے تابع ہوتی ہے۔ ہماری غیرت ہمارے دین پر حاوی ہے کیونکہ دین بالغ لڑکے اور لڑکی کو اپنی مرضی سے شادی کا حق دیتا ہے جبکہ ہماری غیرت ایسے جوڑے کو قتل کئے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ دین بہن کو جائیداد میں اس کا حصہ دیتا ہے جبکہ ہمارے رواج احکام خداوندی پر حاوی رہتے ہیں۔ دین صلئہ رحمی کا تقاضہ کرتاہے جبکہ ہماری ترقی وخوشحالی کی بنیاد ہی قطع رحمی پر استوار ہوتی ہے۔ ہم زندگی بھر اپنی اِسی سمجھ کے باعث لوگوں کو کم اور خود کو زیادہ دھوکہ دیتے رہتے ہیں۔ چوتھے خلیفہ فرماتے ہیں "جب تم کسی کو دھوکہ دینے میں کامیاب ہوجائو تو اِس بات پر اترائو مت بلکہ یہ دیکھو کہ اُسے تم پر کتنا اعتماد تھا " کئی برس پہلے ضلع اٹک کے کسی گائوں میں ایک بھائی نے اپنی بہن کو جلا دیا تھا۔ اخباری خبر کے مطابق جلنے والی خاتون کے نزعی بیان حلفی کے وقت اُس کی ماں بھی موجود تھی جو جل کے مرتی ہوئی بیٹی کو بار بار کہہ رہی تھی کہ " بیٹی بھائی کا نام مت لو اُسے پھانسی ہوجائے گی" یہ تھی بیٹے کی محبت جو بیٹے ہی کے ہاتھوں بیٹی کی موت پر حاوی تھی یہی محبت اُس ظالم ماں کی سمجھ کے مطابق تھی جو خدا وررسول ؐ کی احکام اور ہر طرح کے اخلاق وقانون پر حاوی تھی۔
۳۔ سمجھ صرف بیٹے کی محبت کے تابع تھی۔ اوربس۔ یہی حال نفرتوں کے تابع ہونے کا بھی ہوتاہے۔
رنگ گورا کرنے کے احساس کمتری کے خبط میں مبتلا زوال پذیر معاشرے میں شاعری کی اِس طرح کی سمجھ کا اس سے بدتر حال نہیں ہوسکتا۔ ہماری اِسی قماش کی سمجھ نے ڈاکٹر کو قصائی، اُستاد کو ڈاکو، منصف کو قاتل، عابد وزاہد کو مکار، رہبر کو رہزن بنادیا ہے۔ ہم اپنی بدترین نفرتوں بے جا محبتوں اور جاہلانہ عقیدتوں کے سائے تلے رہ کر چیزوں کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ پھر شور مچاتے ہیں کہ چیزیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ اتنی ڈگریوں، اتنی پگڑیوں، عماموں، چغوں۔
۴۔ برینڈڈ سوٹوں شان وشوکت اور کروفر اور بڑی بڑی کرسیوں پر بیٹھ کر بھی چیزیں سمجھ میں نہیں آتیں۔ پھر قصور کس کا ہے؟ ظاہر ہے قصور ہماری اسی طرح کی سمجھ کا ہے۔ اب ہم اپنی اس سمجھ کا کیا کریں؟ خدا ہمارا حامی و ناصر ہو۔ آمین۔