Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Mulk Aisay Nahi Chalay Ga

Mulk Aisay Nahi Chalay Ga

سیاست ٹاک شوز اور ملک تقریروں پر چل رہا ہے لیکن جس ڈھب سے چل رہا ہے عوام اس سے حد درجہ پریشان ہیں۔ خلق خدا میں مایوسی، سروے کیا کہہ رہے ہیں۔ 66 فیصد عوام حکومتی کارکردگی سے مایوس، 34 فیصد حالات سے پریشان لیکن اچھے دنوں کے منتظر، امید و یاس کے اس دوراہے پر گورنر اسٹیٹ بینک رضا باقر نے یہ کہہ کر خطرے کی گھنٹی بجا دی کہ پاکستان کی برآمدات انتہائی کم، ہم افغانسان، یمن، سوڈان اور ایتھوپیا کے ساتھ کھڑے ہیں۔ ملک ایسے نہیں چلتے، ہمیں اپنی پیداوار بڑھانے اور جدت لانے پر توجہ دینا ہوگی، مایوسی بڑھ گئی لوگ پوچھنے لگے ہیں ملک تقریروں سے چلتے ہیں؟ روزانہ کی بنیاد پر اجلاسوں سے چلتے ہیں؟ بے شمار و بے قطار اعلانات سے ترقی کی راہ پر دوڑنے لگتے ہیں؟ پارلیمنٹ کے ہر اجلاس میں سوتنوں کی طرح طعن و تشنیع، الزامات در الزامات، گالم گلوچ، جو تم پیزار اور گتھم گتھا ہونے سے اقوام عالم کی صفوں میں با عزت مقام مل جاتا ہے؟ انا کے خول میں بند ہو کر یا اپنی ذات کا قیدی بن کر آمرانہ فیصلوں سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوا جاسکتا ہے۔ یا پھر۔۔۔۔

یقین مانیے اس پھر پر غور ہی میں سیاسی استحکام، ترقی و خوشحالی کا راز پنہاں ہے۔ ملکی معیشت کی تباہی دل دکھاتی ہے۔ پہلے مالی سال کے دوران 3440 ارب روپے کا قرضہ لیا گیا۔ لوگوں نے کانوں کو ہاتھ لگائے کہ اس سے قبل پہلے ہی سال میں اتنا قرضہ کبھی نہ لیا گیا۔ مصرف کیا تھا؟ کیوں لیا گیا؟ کن ترقیاتی منصوبوں پر خرچ ہوا؟ کسی کو معلوم نہیں، بس اتنا پتا چلا کہ 3 ہزار 65 ارب روپے سود سمیت واپس کیے گئے۔ واپسی کی جلدی سمجھ میں آتی ہے جن سے قرضہ لیا ان کے کارندے "کی پوسٹوں" پر بیٹھے ہیں۔ وہ ادائیگی میں تاخیر کیسے برداشت کریں گے۔ مزید ساڑھے 3 ہزار ارب ادا کرنے ہیں۔ کہاں سے آئیں گے۔ کسی نے کہا "لے کے قرضہ پھنس گیا ہے لے کے قرضہ چھوٹ جا" سوچتے جائیے اور سر درد میں اضافہ کرتے جائیے۔ ملکی ترقی کی شرح گر کر 2.2 فیصد سالانہ پر آگئی۔"چوروں، ڈاکوئوں" کے دور میں 6.5 فیصد پر کیسے تھی؟ اللہ ہی جانے، ارد گرد پر نظر دوڑائیے بنگلہ دیش ترقی کی راہ پر عالمی ریس جیت رہا ہے۔ اس کی سالانہ ترقی کی شرح 8.8 فیصد ہے۔ جو خطے میں سب سے زیادہ ہے۔ اربوں روپے چوری کرنے والوں کے لیے ایمنسٹی اسکیم کا ریلیف، بجلی اور کھاد بنانے والی کمپنیوں کو نکیل ڈالنے کی بجائے 750 ارب روپے کی معافی (حاتم طائی اس سخاوت اور دریا دلی پر عش عش کر اٹھا ہوگا اپنی سخاوت پر شرمندگی محسوس کر رہا ہوگا) اس کے برعکس معمولی چھابڑی فروشوں سے 5 سو روپے ماہانہ وصولی کا حکم، قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہیں۔ تعلیم، صحت، روزگار، پینے کے صاف پانی، سماجی شعبوں کے ترقیاتی منصوبوں اور عوام کی روز مرہ کی ضروریات آٹا، گھی، چینی سستے داموں فراہم کرنے کے سلسلے میں سبسڈی دینے کے لیے فنڈز نہیں ہیں۔ مہنگائی 14.6 فیصد تک جا پہنچی، خبر پہنچی تو برہمی کا اظہار، آٹا، دال، چینی، مہنگی کیوں ہوئی؟ جیسے جانتے نہیں پہچانتے نہیں۔ گنا سستا چینی مہنگی، شوگر ملیں کن کی ہیں، کسی نے پوچھا؟ ایک ہم راز نے کہا چینی اسکینڈل مصیبت بن جائے گا، فوراً کہا جو ملوثہوگا نہیں چھوڑیں گے۔ واقعی اسے کیسے چھوڑ سکتے ہیں۔ برے بھلے وقتوں کا ساتھی، چھوڑ دیا تو کیا بچے گا، خبر پہنچنے تک یاروں نے اربوں کما لیے وفاقی وزیر سائنس خلاء سے خبر لائے کہ گندم بحران کی ذمہ دار صوبائی حکومتیں ہیں۔ سارے وزیر مشیر اور سیانے بیانے ترجمان اسی قسم کی الزاماتی سیاست میں الجھے رہتے ہیں۔

کوئی نہیں سوچتا کہ ایک ہفتہ میں یعنی صرف ایک ہفتہ میں 9 اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافہ کیسے ہوگیا۔ جنہوں نے کیا کسی کو پکڑا، نشان عبرت بنایا؟ اس کارکردگی پر بھی "صاحب" اپنے 47 نورتنوں سے مطمئن، آٹا، چینی، دالیں، یوٹیلٹی اسٹورز پر قدرے سستی کردی گئیں، ملک بھر میں لنگر خانوں کی طرح یوٹیلٹی کتنے ہیں؟ کتنے فیصد عوام ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ جتنی رعایت یوٹیلٹی اسٹورز دے رہے ہیں۔ اتنا ڈسکائونٹ بڑے بڑے اسٹور بھی دے دیتے ہیں۔ پھر بھی مہنگائی، لنگر خانوں پر یاد آیا۔ وزیر اعظم کا پسندیدہ آئٹم ہے۔ دلی خواہش ہے کہ ہر شہر، ہر گائوں دیہات میں لنگر خانے کھول دیے جائیں تاکہ میرے پیارے، عزیز از جان عوام بھوکے نہ سوئیں احمد جاوید یاد آگئے، کہنے لگے۔

اچھی گزر رہی ہے دل خود کفیل سے

لنگر سے روٹی لیتے ہیں پانی سبیل سے

کارخانہ کھولنا، صنعتیں قائم کرنا، صنعتکار دوست پالیسیاں بنانا بس میں نہیں، معاف کیجیے سرشت میں نہیں، لنگر خانے تو کھولے جاسکتے ہیں۔ معیشت سنبھالنے کے لیے جو سخت گیر عمال لائے گئے تھے انہوں نے آتے ہی ایسی دھمکیاں اور گھرکیاں دیں کہ فطری طور پر کمزور دل بلکہ بزدل سرمایہ کار تاجر اور صنعتکار دبک گئے۔ اب مراعات کی خوش خبریاں بھی انہیں متاثر نہیں کرتیں، گورنر اسٹیٹ بینک نے انتہائی کم برآمدات کا جو رونا رویا ہے وہ بالکل بجا لیکن برآمدات کیسے بڑھیں گی کمزور پالیسیوں کے باعث گزشتہ ڈیڑھ سال کے دوران پاکستان سارک ریجن اور دیگربلاکس میں اپنی برآمدات بڑھانے میں ناکام رہا ہے۔ پاکستان ای سی او، شنگھائی کو آپریشن آرگنائزیشن، ڈی 8 ممالک، او آئی سی، کامن ویلتھ آرگنائزیشن کا ممبر لیکن ان تمام ممالک میں برآمدات نہ بڑھ سکیں، ایک دور یعنی 2011-12 میں 25 ارب ڈالر تک پہنچ گئی تھیں۔ اب 23 اور 24 ارب ڈالر پر منجمد ہو کر رہ گئیں، حقیقت جاننے کی کوشش ہی نہیں کی گئی کہ پاکستان اپنے ارد گرد کے علاقائی بلاکس سے بھی تجارتی فائدہ کیوں نہ اٹھا سکا۔ او آئی سی کے سوا کسی بھی ملک سے باہمی تجارت 10 فیصد تک بھی نہیں ہے۔ افریقن ریجن میں برآمدات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ وزرا ان امیدوں کے سہارے جی رہے ہیں کہ دل چھوٹا نہ کیجیے آئندہ پانچ سالوں میں برآمدات آسمان پر پہنچ جائیں گی۔ ایف بی آر گواہ ہے کہ 8 ماہ میں 15 ارب 70 کروڑ ڈالر سے زائد تجارتی خسارہ ہوا ہے۔ ذمہ دار حضرات خسارے کا بھی "روشن پہلو" دکھا کر مطمئن کردیتے ہیں۔ نوجوان پہاڑ سے گر کر ٹانگ تڑوا بیٹھا۔ اسپتال میں لیٹا قہقہے لگاتا تھا۔ تیمار داری کے لیے آنے والوں نے پوچھا کیا بے وقوفی ہے۔ رونے کی بجائے ہنس رہے ہو، بولا ٹانگ ٹوٹی ہے اس کا روشن پہلو دیکھو ڈاکٹروں کے مطابق ٹانگ میں زہر پھیل گیا کاٹ دی جائے گی۔ اچھا ہے ایک بوٹ ایک موزہ خریدنا پڑے گا۔ پیسوں کی تو بچت ہوگی۔ اس "روشن پہلو" نے تاریک مناظر آنکھوں سے اوجھل کردیے ہیں۔ مالی بے ضابطگیوں پر باز پرس کا رواج ختم ہو رہا ہے۔ عوام میں سانس لینے والے سیاستدان بھی کہنے لگے ہیں کہ ملکی معیشت بہتر نہ ہوئی تو حکومت تین ہفتوں میں جاسکتی ہے۔ اپنے اپنے خیالات ہیں آنے جانے کا ابھی وقت نہیں آیا لیکن گھنٹیاں تو بج رہی ہیں۔ سیانے بیانے لوگوں کو "چوروں ڈاکوئوں " کی خبریں دینے بلکہ ان کی خبریں لینے سے فرصت نہیں محکمے "شٹ ڈائون" کا شکار ہیں۔ سائنسی لیبارٹریوں سے پتا چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ نواز شریف واپس آئیں گے یا نہیں، آئیں گے تو کب آئیں گے۔ کیا "لیبارٹریوں " کو خبر نہیں کہ لندن جانے والے اپنی مرضی سے ہی واپس آتے ہیں۔ لندن بہت دور ہے۔ دبئی والوں کو اب تک واپس نہیں لایا جاسکا۔ بقول شیخ رشید نواز شریف کو چھوڑو معیشت سنبھالو، اپنے دامن میں صرف 34 فیصد عوام رہ گئے ہیں۔ اس پر 18 ماہ میں 18 اسکینڈل، نصف درجن وائرس، وائرس تو فاقہ کشی سے مرجائیں گے۔ معیشت کو لگے وائرس ختم نہ ہوئے تو خدانخواستہ بڑی تباہی ہوگی، پھر وہی سوال کہ کیا تقریروں، اجلاسوں، الزامات اور گالم گلوچ سے ملک چلتے ہیں، زہر آلود لہجے دل چھلنی کیے دیتے ہیں۔ کیا کہا زہر خریدنے نکلے ہو یہ دکانوں پر نہیں اصلی زہر پارلیمنٹ ہائوس کے اندر ایوانوں میں بیٹھے ارکان کی زبانوں میں ملتا ہے۔ انا کے خول سے باہر نکل کر اندازہ ہوگا، نہ نکلے تو گورنر اسٹیٹ بینک کا تجزیہ کافی کہ ملک ایسے نہیں چلے گا۔