پاکستان کی عالمی تنہائی نظر آرہی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر ہم وہ عالمی حمایت نہیں حاصل کر سکے جس کی توقع تھی۔ بھارت کی خارجہ پالیسی ہم سے مضبوط نظر آئی ہے۔ ہوسٹن میں ڈونلڈ ٹرمپ اور مودی کے مشترکہ جلسہ نے ٹرمپ کی ثالثی کے غبارے میں سے بھی ہوا نکال دی ہے۔
عرب دنیا کے حالات بھی سب کے سامنے ہیں۔ باقی دنیا کے معاملات بھی سب کے سامنے ہیں۔ ایسے میں چین کی اہمیت مزید ابھر کر سامنے آگئی ہے۔ اب تک جتنی بھی سفارتی کامیابی ملی ہے، اس میں چین کا کلیدی کردار ہے۔ تا ہم چین بے شک ہمارا ساتھ دے رہا ہے لیکن وہ ہم سے کسی حد تک ناراض بھی ہے۔ سی پیک کے معاملات میں سست روی ناراضی کا باعث ہے۔
موجودہ حکومت اب تک سی پیک کے حوالے سے اپنی پالیسی واضع نہیں کرسکی ہے۔ کسی کو معلوم نہیں کہ ہم سی پیک کو آگے چلانا بھی چاہتے ہیں یا نہیں۔ کیا امریکا کے ساتھ نئے ہنی مون میں ہم زیادہ آگے نہیں نکل چکے۔ چین کے تحفظات کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔
گزشتہ روز کراچی میں چینی قونصل جنرل نے ا یک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ سی پیک حکومت نہیں بیوروکریسی کی وجہ سے سست روی کا شکار ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ چین کی جانب سے ایسے تحفظات کا برملا اظہار کیا گیا ہے۔ گزشتہ دور حکومت میں ایک موقع پر سی پیک کے منصوبوں پر چین نے تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اس ضمن میں چینی سفیر نے اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان سے آن ریکارڈ ملاقات بھی کی تھی۔
اس ملاقات کے بعد چیف جسٹس پاکستان نے ملک کے چاروں ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کا ایک اجلاس بلایا تھا۔ جس میں سی پیک کے حوالے سے زیرسماعت مقدمات پر غور کیا گیا اور ان مقدمات کو جلد از جلد نبٹانے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس کے بعد ہی سپریم کورٹ میں اورنج لائن کا آٹھ ماہ سے محفوظ فیصلہ بھی جاری کیا گیااور اورنج لائن کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور ہو سکیں۔ تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ اورنج لائن آج تک چل نہیں سکی ہے۔ اس ضمن میں موجودہ حکومت سپریم کورٹ میں متعدد ڈیڈ لائنز دے چکی ہے۔ لیکن عمل درآمدنہیں ہو سکا ہے۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ چین میں ایک الگ نظام حکومت ہے۔ چینی حکومت کے لیے یہ بات باقابل فہم ہے کہ کس طرح پرجیکٹ تاخیر کا شکار ہوتے ہیں۔ ان کے لیے یہ بھی بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے کہ کس طرح دو ممالک کے درمیان طے ہونے والوں منصوبوں پر حکم امتناعی آجاتے ہیں۔ لیکن پاکستان کے نظام حکومت میں یہ ممکن ہے۔ شائد اس کی چین کو سمجھ آگئی ہے۔ ا س ضمن مین حکومت کس قدر بے بس ہوتی ہے اس کی بھی چین کو سمجھ آگئی تھی، انھیں گزشتہ حکومت کی بے بسی کا اندازہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ عدالتی رکاوٹیں تو دور ہوگئی ہیں۔ لیکن اب بیوروکریسی کی حائل رکاوٹوں کو کیسے دور کیا جائے گا۔
بے شک پاکستان میں بیوروکریسی ایک ادارہ ہے۔ سوال یہ ہے کہ بیوروکریسی میں مسائل کے لیے حل کے لیے کس سے کیا بات کی جائے اس پر ابہام موجود ہے۔ چینی سفارتکار سے پہلے وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید بھی اسی قسم کے جذبات کا اظہار کر چکے ہیں۔ ان کا بھی یہی موقف ہے کہ بیوروکریسی کی وجہ سے سی پیک اور دیگر بڑے منصوبے تاخیر کا شکار ہیں۔ شیخ رشید برملا کہ رہے ہیں کہ افسر شاہی نے قلم چھوڑ ہڑتال کی ہوئی ہے۔
جس کی وجہ سے کوئی کام بھی نہیں ہو سکتا۔ سب رکے ہوئے ہیں۔ میری حکومت وقت سے درخواست ہے کہ وہ وہ چینی تحفظات کو سنجیدہ لے۔ چینی سفارتکاری میں اس طرح کھلے عام تب ہی اظہار کیا جاتا ہے جب پانی سر سے گزر جائے۔ ورنہ چین خاموش سفارتکاری پر زیادہ یقین رکھتا ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے چین اور سی پیک پر کافی غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ حکومتی وزار نے اس ضمن میں بہت غیر ذمے داری کا مظاہرہ کیا ہے۔ جس کا پاکستان کو بہت نقصان ہوا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر چین کو پاکستان کی بیوروکریسی سے شکایات ہیں۔
تو وہ کیا کرے۔ کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ چینی سفارت کار اب ایک ایک افسر کے پاس خود جائیں اور اس کو سی پیک کی فائل پر کام کرنے کی درخواست کریں۔ جیسے ہم سب اپنے کاموں کے لیے مختلف دفاتر میں افسر شاہی سے اپنے کام کروانے کے لیے ملتے ہیں، اب چینی سفارتکار بھی سی پیک کے کاموں کے لیے افسر شاہی سے ملیں۔ جیسے ہم افسروں کے تلوے چاٹتے ہیں۔
اب چینی بھی ایسا ہی کریں۔ اگر کوئی کہے کہ آپ کی یہ فائل پاس کرنے سے میرے اوپر نیب کا کیس بن جائے گا تو چینی سفارت کار اسے یقین دلائیں کہ اگر نیب نے کچھ کہا تو ہم ذمے دار ہوںگے۔ جب افسر کہے گا کہ حکمران تو کام کر کے گھر چلے جاتے ہیں اور افسر پھنس جاتے ہیں تو جواب میں چینی کہیں گے کہ حکمران چلے جاتے ہیں چین کہیں نہیں جائے گا۔ چین آپ کے ساتھ ہے۔ اگر آپ کو کوئی مسئلہ ہوا تو ہم اوپر بات کریں گے۔ اور اگر مسئلہ زیادہ خراب ہو بھی گیا تو بھی ہم ذمے دار ہیں۔ آپ فکر نہ کریں۔ فائل پاس کریں۔ یہ کوئی خوشی کی بات نہیں ہے۔ یہ افسوس کا مقام ہے۔ ویسے تو یہ حکومت خود بھی بیوروکریسی کے عدم تعان کی وجہ سے ناکام ہو رہی ہے۔ لیکن اس حکومت کی کامیابی اور ناکامی اتنی اہم نہیں ہے۔ لیکن چینیوں کے تحفظات بہت اہم ہیں۔
ہم بھارت کے ساتھ لڑائی کو جس نہج پر لے گئے ہیں۔ وہاں پر اب چین کے سوا کوئی ساتھ نہیں کھڑا۔ محمد بن سلمان کا جہاز تو مل جاتا ہے لیکن کشمیر پر حمایت نہیں ملتی۔ ٹرمپ کا مودی کے ساتھ جلسہ کھلا اعلان ہے۔ اس لیے ہمیں پاکستان میں چین کے رکے ہوئے منصوبوں مین حائل رکاوٹیں دور کرنی ہوںگی۔ ورنہ ہم چین جیسے دوست کو بھی ناراض کر بیٹھیں گے۔