پاکستان اس وقت سفارتی محاذ پر شدید مشکلات کا شکار ہو گیا ہے۔ افغانستان میں آنے والی تبدیلیوں نے پاکستان کو عالمی تنہائی کا شکار کر دیا ہے۔ بالخصوص مغرب ہم سے دن بدن دور ہوتے جا رہے ہیں۔ نیوزی لینڈ اور برطانیہ کا کرکٹ کھیلنے سے انکار بھی ہماری سفارتی ناکامی ہے۔
کون نہیں جانتا کہ کھیلوں کو بھی سفارتی ہتھیار کے طور پر ہی استعمال کیا جاتا ہے۔ جب کسی ملک کا سفارتی بائیکاٹ کرنا مقصود ہو تو سب سے پہلے اس کے ساتھ کھیلوں کا بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ اس لیے دوست یہ مت سمجھیں کہ واقعی پاکستان میں کوئی سیکیورٹی ایشو ہے، اسی لیے برطانیہ اور نیوزی لینڈ نے پاکستان میں کرکٹ کھیلنے سے انکار کر دیا ہے۔ بلکہ یہ مغرب کی جانب سے پیغام ہے کہ ہم آپ کے ساتھ سفارتی جنگ شروع کر رہے ہیں۔
آپ دیکھیں اس سے پہلے بھارت نے پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے سے انکار کیا۔ بھارت کا کرکٹ کھیلنے سے انکار صرف کرکٹ کی حد تک محدود نہیں رہا بلکہ اس کے بعد بھارت نے سفارتی محاذ پر بھر پور جنگ کی۔ پاکستان کو عالمی تنہائی کا شکار کرنے کے لیے پوری ایک مہم چلائی۔
پاکستان کو فیٹف جیسے مسائل میں الجھایا۔ اسی طرح بنگلہ دیش کی جانب سے کرکٹ نہ کھیلنے کا اعلان بھی پاکستان کے ساتھ سفارتی بائیکاٹ کا ہی حصہ تھا۔ یہ صرف کرکٹ کھیلنے سے انکار نہیں تھا بلکہ ایک مکمل سفارتی پالیسی تھی۔ جنوبی افریقہ کی مثال بھی ہمارے سامنے ہے۔ ماضی میں دنیا نے جنوبی افریقہ کا بائیکاٹ کیا تھا تب ان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے سے بھی انکار کیا تھا۔
اس لیے ہمیں یہ سمجھنا چاہیے کہ مغرب کے دو اہم ممالک کی جانب سے پاکستان میں کرکٹ کھیلنے سے انکار پاکستان کے ساتھ سفارتی جنگ کا آغاز ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اس بات کو سمجھ نہیں رہے ہیں۔ دنیا میں پاکستان کو دہشت گرد ی کے ایک گڑھ کے طور پرپیش کیا جا رہا ہے۔ مغرب اس کو ایک غیر محفوظ ملک قرار دے رہا ہے۔
ہمیں سمجھنا ہوگا کہ یہ سفارتی بائیکاٹ صرف کرکٹ تک محدود نہیں رہے گا بلکہ کرکٹ اس کا نقطہ آغاز ہے، انتہا کہاں جا کر ہوگی، اس کا پتہ نہیں۔ سفارتی جنگیں خاموشی سے مختلف محاذ وں پر لڑی جاتی ہیں۔ یہ روایتی جنگوں سے بہت زیادہ خطرناک ہوتی ہیں۔ سفارتی تنہائی اور سفارتی بائیکاٹ قوموں اور ملکوں کو جنگوں سے زیادہ نقصان پہنچاتا ہے۔ اس لیے ان دو کرکٹ ٹیموں کی جانب سے پاکستان میں کھیلنے سے انکار پاکستان کی سفارتی ناکامیوں کے اثرات ہیں۔
یہ درست ہے دنیا نے پاکستان کے ساتھ کرکٹ کھیلنے سے انکار نہیں کیا بلکہ پاکستان آکر کرکٹ کھیلنے سے انکار کیا ہے۔ دلیل کے طور پر یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ایسا کونسا پہلی دفعہ ہوا ہے۔ ماضی میں بھی دنیا نے پاکستان آ کر کرکٹ کھیلنے سے انکار کیا تھا اور پاکستان نے یو اے ای میں ہوم سیریز منعقد کی تھیں، اس لیے پریشانی والی کوئی بات نہیں۔ لیکن ایسی بات نہیں ہے۔ ماضی میں جب دنیا نے ایسے فیصلے کیے تھے تب ہم خود بھی جانتے تھے ہمارے ملک کے حالات خراب ہیں۔ یہاں دہشت گردی عروج پر تھی۔ خود کش حملے ہو رہے تھے۔
ہم نے ضرب عضب اور ضرب مومن جیسے آپریشن شروع کیے ہوئے تھے۔ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دنیا کے حلیف تھے۔ اس لیے اس وقت ٹیموں کا یہاں آنا کوئی پاکستان سے دشمنی نہیں تھی۔ لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ آج پاکستان میں امن ہے لیکن مغرب یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہا ہے کہ پاکستان میں حالات خراب ہیں تا کہ پاکستان کو دوبارہ سفارتی تنہائی اور مالیاتی تنہائی کی طرف دھکیلا جا سکے۔
بات صرف کرکٹ سے انکار کی نہیں ہے۔ ا س کے ساتھ سرمایہ کاری سے انکار بھی ہوگا۔ یہ عالمی سرمایہ کاروں کو بھی پیغام ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کرنی ہے بلکہ وہاں سے سرمایہ نکالنا ہے۔ آپ دیکھیں یہ وہی حکومت ہے جو بجٹ میں اعلان کر رہی تھی کہ ہم اب آئی ایم ایف کی کوئی ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔ اب آئی ایم ایف ہماری بات سنے گا۔ لیکن جیسے جیسے عالمی حالات تبدیل ہو رہے ہیں۔
آئی ایم ایف اور دیگر عالمی اداروں کا موڈ بھی تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ اسی لیے حکومت اب آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن لینے پر مجبور نظر آرہی ہے۔ شرح سود دوبارہ بڑھانی پڑھ رہی ہے۔ ہر وہ کام کرنا پڑ رہا ہے جس پر آئی ایم ایف ہمیں مجبور کر رہا تھا۔ بجٹ میں کیے گئے تمام وعدے غلط ثابت ہو رہے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں اس وقت پاکستان کو عالمی محاذ پر نہایت احتیاط سے قدم اٹھانے چاہیے۔ وزیر اعظم نے جس زبان اور لہجہ میں سی این این کو انٹرویو دیا ہے وہ کوئی مناسب نہیں تھا۔ اس نے آگ کوبجھانے کے بجائے تیز کیا ہے۔ اس نے سفارتی لڑائی کو کم کرنے کے بجائے تیز کیا ہے۔ پاکستان کے دشمن چاہتے ہیں کہ پاکستان کی مغرب کے ساتھ لڑائی بڑھ جائے۔
اس سے پہلے بھی وزیر اعظم عمران خان نے امریکی میڈیا کو جو انٹرویو دیا تھا وہ بھی کوئی اچھی حکمت عملی نہیں تھی۔ انھوں نے جس لہجے میں امریکا کو مخاطب کیا ہے، اس لہجے میں کسی بھی سربراہ مملکت کو کسی دوسرے ملک کو مخاطب نہیں کرنا چاہیے۔ وہ احتجاجی سیاست کے دوران کنٹینر پر کھڑے ہوکر بولی جانی والی زبان تو ہو سکتی ہے لیکن سفارتکاری کی زبان نہیں ہو سکتی۔ اس لیے اگر تجزیہ کیا جائے تو دونوں انٹرویوز کا پاکستان کو کوئی خاص فائدہ نہیں ہوا بلکہ نقصان ہی ہوا ہے۔
امریکی صدر وزیر اعظم سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ وزیر اعظم کا برطانیہ کا دورہ منسوخ ہو چکا ہے۔ فیٹف سے ہم نہیں نکل سکے۔ او آئی سی ہماری نہیں سنتا۔ عرب ممالک سے ہمارے فاصلے ہیں۔ ایران ہم سے دوری پر ہے۔ یہ کیسی سفارتی پالیسی ہے جس میں دشمن ہی دشمن ہیں، دوست کوئی نہیں۔ چین کے ساتھ تعلقات پر بھی سوال اٹھتے رہتے ہیں۔ جس طرح عمران خان نے پاکستان کے اندر ساری سیاسی جماعتوں سے محاذ آرائی کا ماحول بنایا ہوا ہے، ایسے ہی دنیا کے بڑے ممالک سے بھی محاذ آرائی شروع کی جا رہی ہے۔ یہ کوئی عقلمندی نہیں ہے، اس کا پاکستان کو نقصان ہی نقصان ہوگا۔
سفارتی محاذ پر لڑائیاں نقصان دہ ہوتی ہیں۔ اقوام عالم میں اپنے دوستوں میں اضافہ ایک کامیاب سفارتی پالیسی قرار دی جا سکتی ہے۔ دشمنوں میں اضافہ ہونا کامیاب سفارتی پالیسی قرار نہیں دی جا سکتی۔ دوستوں سے دوری کوئی کامیابی نہیں۔ دشمنوں سے دشمنی میں کمی کامیابی کی ضمانت سمجھی جاتی ہے۔
انٹرویوز کے ذریعے للکارنا کوئی کامیاب سفارتکاری نہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا انداز سفارتکاری عالمی سطح پر پسند نہیں کیا گیا بلکہ امریکا کے میچور سیاسی طبقے نے ڈونلڈ ٹرمپ کی غیرذمے دارانہ گفتگو کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ سمجھ نہیں آتی ہم کیوں ڈونلڈ ٹرمپ بننے کی کوشش کر رہے ہیں۔
نیوزی لینڈ اور برطانیہ کی جانب سے انکار کو خطرہ کی گھنٹی سمجھیں۔ ہمیں اپنی سفارتی پالیسی میں بنیادی تبدیلی کرنا ہوگی۔ طالبان کی بے جا وکالت دنیا کو قبول نہیں ہے بلکہ پاکستان میں بھی فہمیدہ حلقے فکرمندی کا شکار ہیں، جیسے ہم افغان طالبان کی وکالت کر رہے ہیں، کہیں ترقی یافتہ ریاستیں ہمیں بھی طالبان کے ساتھ بریکٹ نہ کردیں ہے۔ اگر دنیا طالبان کوعالمی سطح پر تنہا کرنا چاہتی ہے تو ہم کیوں طالبان کے ساتھ یہ سزا قبول کرنا چاہتے ہیں۔ یہ کوئی اچھی حکمت عملی نہیں ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے لیے نہیں جا رہے بلکہ ورچوئیل خطاب کر رہے ہیں۔ یہ بھی درست حکمت عملی نہیں ہے۔ جنرل اسمبلی کی سائیڈ لائینزپر عالمی سفارتکاری ہوتی ہے۔ یہ عالمی سفارتکاری کا میلہ ہوتا ہے۔
اگر آپ تاجکستان میں چھوٹی چھوٹی کانفرنسوں میں جاتے ہیں اور جنرل اسمبلی نہیں جاتے تو یہ بھی سمجھ میں آنے والی سفارتکاری نہیں ہے۔ کیا اس کی یہ وجہ ہے کہ مودی کی بائیڈن سے ملاقات طے تھی اور آپ سے ملنے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا۔ اس لیے آپ نے گھر میں بیٹھ کر خطاب کرنا ہی بہتر سمجھا۔