سردار عثمان بزدار پر تنقید کرنے کے لیے جب کسی کے پاس کچھ نہ ہو تو وہ یہ کہنے لگ جاتا ہے کہ انھیں وزیر اعلیٰ بنے ایک سال ہو نے لگا ہے لیکن آج تک وہ بدلے نہیں ہیں۔ مجھے سمجھ نہیں آتی، میرے وہ دوست انھیں بدلنا کیوں چاہتے ہیں۔ کسی کو گلہ ہے کہ وہ اونچی آواز میں بات نہیں کرتے۔ کسی کو گلہ ہے کہ وہ ہر وقت اپنی طاقت دکھانے کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ کسی کو گلہ ہے کہ وہ نظر نیچی رکھ کر بات کیوں کرتے ہیں۔ کسی کو گلہ ہے کہ وہ ہر وقت میڈیا پر چھائے کیوں نہیں رہتے۔
مجھے حیرانی ہے کہ میرے دوست عثمان بزدار میں ہر وقت ماضی کا کوئی نہ کوئی وزیر اعلیٰ کیوں تلاش کرتے رہتے ہیں۔ وہ عثمان بزدار میں عثمان بزدار کیوں نہیں دیکھتے۔ وہ ایک شریف کو شوباز بنانے پر کیوں بضد ہیں۔ کیا سادگی کی پاکستان کی سیاست میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ عثما ن بزدر کا ایک قصور یہ ہے کہ انھوں نے سیاسی گالم گلوچ کے کلچر سے خود کو دور رکھا ہوا ہے۔ ورنہ اگر وہ گالم گلوچ شروع کر دیں تو ہیڈ لائنز بھی بن جائیں اور سب ان سے مرعوب بھی ہو جائیں۔ شائد شرافت کی سیاست ایک مشکل کام ہو گیا ہے۔
میرے دوستوں کو عثمان بزدار میں ایسے وزیر اعلیٰ کی تلاش ہے جو کام کم کرے اور شور زیادہ ڈالے۔ میرے دوست عثمان بزدار کو پاکستان کی سیاست کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ لیکن عثمان بزدار نے بھی قسم کھائی ہوئی ہے کہ چاہے جتنی تنقید برداشت کرنی پڑ جائے وہ یہ رنگ اپنے اوپر نہیں چڑھنے دیں گے۔ میں کئی دفعہ سوچتا ہوں کہ میڈیا کے سامنے گرجنابرسنا اور کسی کی بے عزتی کرنا کونسا اتنا مشکل کام ہے جو عثمان بزد ار نہیں کرسکتے۔ اپنی طاقت کا ڈھنڈوار پیٹنا کونسا مشکل کام ہے۔ یہاں تو جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو وہ بھی میڈیا میں یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ طاقت کا سر چشمہ ہے۔ یہاں پنجاب کا ایک وزیر اعلیٰ ہے جو میرے دوستوں کی شدید خواہش کے باوجود یہ ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرتا کہ پنجاب کی ساری طاقت اس میں مرکوز ہے۔
آپ دیکھیں جب سے عثمان بزدار وزیر اعلیٰ بنے ہیں، ہر وہ شخص جس نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ عثمان بزدار کو وہ چلا رہا ہے، وہ اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ لیکن عثمان بزدار نے کبھی کسی کی چھٹی کرانے کے بعد بھی اپنی طاقت کا ڈھنڈورا پیٹنے کی کوشش نہیں کی۔ ایک سال میں پنجاب میں عثمان بزدار نے اپنے تمام سیاسی حریفوں کو شکست دی ہے لیکن فتح کا جشن نہیں بنایا۔ میرے جن دوستوں کو میری اس بات سے اختلاف ہے وہ ان لوگوں سے ملیں جو پنجاب کے وزیر اعلیٰ بننا چاہتے تھے۔ آج ان کے لیے عام وزیر بننا مشکل ہو گیا ہے اور جن کی وزارتیں تبدیل ہو ئی ہیں ان سے پوچھ لیں کہ عثمان بزدر کتنے با اختیار ہیں۔
اگر کسی کو عثمان بزدار کی طاقت اور اختیارات کے حوالے سے کوئی غلط فہمی ہے تو گورنر پنجاب سے ہی پوچھ لیں کہ عثمان بزدار بطور وزیر اعلیٰ کتنے با اختیار ہیں۔ آئی جی چیف سیکریٹری سے پوچھ لیں اور نہیں تو ناصر درانی سے پوچھ لیں۔ حالانکہ وہ عمران خان کے بہت قریب سمجھے جاتے تھے۔ میرے دوست پنجاب کے کسی وزیر سے اس لیے مرعوب ہو جاتے ہیں کہ وہ میڈیا میں بہت فعال ہیں۔ کچھ دوستوں کے لیے دنیا اب ٹوئٹر ہی رہ گئی ہے وہ ٹوئٹر سے باہر دنیا کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہیں۔ حالانکہ پنجاب کے بڑے فیصلوں میں چاہے ان کی رائے کی کوئی اہمیت نہ ہو۔ لیکن ٹوئٹر کا عکس میرے دوستوں کو ان سے مرعوب ہونے پر مجبو رکر دیتا ہے۔
دوست عثمان بزدار کی کارکردگی کے بارے میں بھی بات کرتے ہیں۔ لیکن مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ ان کی کارکردگی جانچنے کا پیمانہ کیا ہے۔ اگر کارکردگی جانچنے کا پیمانہ عوامی مفاد کے منصوبے ہیں تو مجھے سمجھ نہیں آتی کہ میرے دوستوں کوپنجاب کی صرف محکمہ صحت میں گیارہ ماہ کی عثمان بزدار کی کارکردگی نظر کیوں نہیں آتی۔ میانوالی، اٹک، لیہ، اور راجن پور میں دو دو سو بیڈ کے مدر اینڈ چائلڈ کئیر کے منصوبوں پر شروع ہونے والا کام نظر نہیں آرہا۔ ڈیرہ غازی خان کے تحصیل ہیڈ کواٹر اسپتال میں نوے بستروں کی اپ گرڈیشن، اور دیگر منصوبے۔ پنجاب کے چالیس تحصیل اور ڈسٹرکٹ اسپتالوں کی مکمل بحالی کے منصوبے۔ پنجاب کے 195BHUs میں دن رات صحت کی سہولیات شروع کی گئی ہیں۔ ورنہ اس سے پہلے یہ سر شام بند ہو جاتے تھے۔ اور ڈاکٹر صاحب گھر چلے جاتے تھے۔ پنجاب میں بیس لاکھ لوگوں کی اسکریننگ کا عمل مکمل کیا گیا ہے۔
پنجاب کے 42ہز ار اسکولوں میں بچوں کی صحت کے لیے خصوصی ہیلتھ سیشن کرائے گئے ہیں۔ اسکولوں میں ہیلتھ ر ومز بنائے جا رہے ہیں۔ مجموعی طور پر پنجاب میں نو بڑے اسپتال بنانے پر کام شروع کیا جا رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ ان کاموں کا شور نہیں ہے۔ یہ لاہور میں نہیں ہیں۔ لیکن اگر چیچہ وطنی کے گاؤں کماند میں بیس بستروں کا اسپتال بنایا جا رہا ہے تو اس کو ہم کیسے نظر انداز کر سکتے ہیں۔ کیا گاؤں گاؤں ہسپتا ل بنانا بڑے شہروں میں اسپتال بنانے سے کم اہم ہے۔ لیکن بڑے شہر میں ایک اسپتال بنانے سے روزانہ کوریج ملتی ہے اور گاؤں کی خبر کو جگہ ہی نہیں ملتی۔
آج کل عثمان بزدار کے ضلع ڈیرہ غازی خان کے ایک واقعہ کا بہت چرچا ہے جس میں پولیس نے ایک خاندان کی خواتین کو غیر قانونی طور پر گرفتار کیا ہے۔ میں نے چیک کیا تو اس پر ایکشن ہو چکا ہے۔ پولیس والے معطل ہو چکے ہیں۔ آر پی او انکوائری کر رہے ہیں۔ لیکن شور نہیں ہے۔ عثمان بزدار پولیس ملازمین کی معطلی کا کریڈٹ نہیں لے رہے۔ وہ بریکنگ نہیں چل رہی کہ وزیر اعلیٰ نے پولیس ملازمین معطل کر دیے۔ لیکن ایکشن ہو رہا ہے۔ دوستوں کو نظر نہیں آرہا۔ ایسے واقعات نہیں ہونے چاہیے۔ پولیس میں اصلاحات ہونی چاہیے۔ لیکن شائد ہم اس کے لیے وقت دینے کو تیار نہیں۔
میرے دوستوں کی خواہش ہے کہ جو کام باقی دس دس سال میں نہیں کر سکے ہیں۔ عثمان بزدار دس ماہ میں کر دیں۔ ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی خواہش نے دوستوں کو بے صبرا کر دیا ہے۔ کسی کو یہ کیوں نہیں نظر آرہا کہ پنجاب میں عثمان بزدار کا کوئی کیمپ آفس نہیں ہے۔ صرف وزیر اعلیٰ کی سیکیورٹی کی مد میں اخراجات میں 66فیصد کمی ہوئی ہے۔ وزیر اعلیٰ کے عزیز و اقارب اقتدار کے ایوانوں میں نظر نہیں آرہے۔ لوگ اپنے کام کروانے کے لیے ان سے رابطہ نہیں کر رہے۔ عثمان بزدار نے اپنے خاندان کو اقتدار سے دور رکھا ہے۔ کیا یہ چھوٹی تبدیلی ہے۔ ورنہ ماضی میں دیکھ لیں۔
وزیر اعلیٰ کے گھر کے نوکر بھی اہم ہو جاتے تھے۔ بھائی بہن اور دیگر عزیز تو خود کو وزیر اعلیٰ ہی سمجھتے تھے۔ ان کے نام تو سب کو یاد ہی ہوجاتے تھے۔ دوست بھی اہم ہو جاتے تھے۔ لیکن عثمان بزدار نے اس کلچر کو بھی ختم کر دیا ہے۔ پرانے دور میں گیلپ کے ایک سروے میں اگر پنجاب کے وزیر اعلیٰ کی کارکردگی کو بہتر قرار دیا جاتا تو شور مچ جاتا۔ لیکن اب گیلپ سروے نے عثمان بزدار کی کارکردگی کو بہترین قرار دیا ہے تو سب کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ اب گیلپ سروے معتبر کیوں نہیں ہے۔ آج گیلپ سروے کہہ رہا ہے کہ پنجاب کے ساٹھ فیصد لوگ عثمان بزدار کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔ تو میرے دوست ابہام کا شکار ہیں۔
سوال یہ ہے کہ عثمان بزدار کو کیا ان گیارہ ماہ میں تبدیل ہو جانا چاہیے تھا؟ کیا انھیں ماضی کے وزراء اعلیٰ کے رنگ میں رنگ جانا چاہیے تھا؟ میں سمجھتا ہوں عثمان بزدار نے ماضی سے بغاوت کر کے ایک مشکل راستہ کا انتخاب کیا ہے۔ وہ ماضی کی فلموں کی طرح کے ہیرو نہیں لگ رہے۔ اس لیے دوستوں کو جچ نہیں رہے۔ لیکن ہم یہ کیوں نہیں مانتے۔ عثمان بزدار کا اپنا ایک انداز ہے۔ وہ محمد علی یا سلطان راہی نہیں ہیں۔ وہ اپنا انداز اپنائے ہوئے ہیں اور اسی کو لے کر چل رہے ہیں۔ عثمان بزدار کو تین ماہ میں گھر بھیجنے کی خواہش رکھنے والے خود گھر جا چکے ہیں۔ باقی تھک کر توبہ تائب ہو گئے ہیں۔
عثمان بزدار کو تین ماہ میں گھر بھیجنے کی خواہش رکھنے والے ناقدین بھی اب ان کے ہٹنے کی تاریخیں دے دے کر تھک چکے ہیں۔ اس لیے اب انھوں نے ایک نیا راگ شروع کر دیا ہے کہ عثمان بزدار گیارہ ماہ میں بھی بدل نہیں سکے۔ بھائی انھوں نے کب کہا تھا کہ وہ بدل جائیں گے۔ اس لیے میری دوستوں سے درخواست ہے کہ عثمان بزدار میں کسی اور کو تلاش کرنے کے بجائے ان میں عثمان بزدار کو ہی دیکھیں۔