سینیٹ انتخابات میں اسلام آباد سے یوسف رضا گیلانی کی جیت حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکہ ہے۔ حفیظ شیخ کی ہار وزیراعظم عمران خان کے لیے خطرے کی گھنٹیاں بجا رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان نے قومی اسمبلی سے دوبارہ اعتماد کا ووٹ لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن یہ خان صاحب کے پہلے فیصلے کی مقابلے میں ایک یوٹرن ہے۔
ورنہ اس انتخاب سے پہلے وہ اپنے ارکان اسمبلی کو ڈرا رہے تھے کہ اگر حفیظ شیخ ہار گئے تو وہ قومی اسمبلی توڑ کر ملک میں عام انتخابات کا اعلان کر دیں گے۔ تا ہم اب وہ حفیظ شیخ کے ہارنے کے بعد قومی اسمبلی توڑنے اور نئے انتخابات کرانے سے بظاہر پیچھے ہٹ گئے ہیں۔
اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ قومی اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینا ان کے پہلے اعلان کے مقابلے میں ایک کمزور فیصلہ ہے۔ انھیں اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے ملک میں دوبارہ انتخابات کی طرف ہی جانا چاہیے تھا۔ اعتماد کے ووٹ کو بہادری کا نہیں کہیں نہ کہیں کمزوری کا فیصلہ ہی کہا جائے گا۔ عمران خان بقا کی جنگ لڑنا چاہتے ہیں۔
حفیظ شیخ کی ہار عمران خان کو چیئرمین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کی ہار کی نوید بھی سنا رہی ہے۔ عمران خان بلا شبہ قومی اسمبلی سے اعتما د کا ووٹ لینے میں کامیاب ہو جائیں لیکن وہ شاید اب سینیٹ میں تحریک انصاف کی حاکمیت اور بالادستی قائم کرنے کا خواب پورا نہ کر سکیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اعتما د کاووٹ بظاہر ایک سیاسی چال تو ہو سکتی ہے۔ لیکن حکمران جماعت میں توڑ پھوڑ کی جو صوتحال سامنے آئی ہے وہ خطرناک ہے۔ آج بحالت مجبوری اعتماد کا ووٹ دے بھی دیں گے لیکن کل کسی مناسب موقعے پر شاید ووٹ نہیں دیں گے۔
یوسف رضا گیلانی کی جیت سے عمران خان کی سیاسی پوزیشن کمزور ہوئی ہے۔ جس کے نتائج بتدریج سامنے آئیں گے۔ اب تک عمران خان نے ایک مضبوط وزیر اعظم کے طور پر حکومت کی ہے، عددی طورپر کمزور ہونے کے باوجود انھوں نے اتحادیوں کو سرپر نہیں چڑھنے دیا تھا۔ اتحادی ناراض ہو کر بھی اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کی جرات نہیں کر سکتے تھے۔ عمران خان حکومت کے اہم فیصلوں میں اتحادیوں کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے۔ ان سے کوئی مشاورت نہیں کی جاتی تھی بلکہ وہ حکومت کو ایک سولو فلائٹ کے طور پر چلا رہے تھے۔ لیکن اب عمران خان کے لیے اس انداز میں حکومت چلانا ممکن نہیں ہو گا۔ اتحادیوں کے مطالبات بڑھیں گے اور عمران خان کی طاقت کم ہوگی۔
عمران خان کو اعتماد کا ووٹ انھیں مستحکم اقتدار اور مدت پوری کی گارنٹی نہیں دے گا۔ یہ وقتی شور تو کم کر دے گا لیکن اپوزیشن کی عدم اعتماد کا خطرہ اپنی جگہ موجود رہے گا۔ ایسا نہیں ہے کہ اعتماد کے ووٹ کے بعد اپوزیشن کے پاس عدم اعتماد کا آپشن ختم ہو جائے گا۔ عمران خان کو اب اس خطرے کے ساتھ ہی اپنی باقی مدت وزارت عظمی گزارنی ہوگی۔ یہ خطرہ صرف مرکزمیں نہیں ہوگا بلکہ پنجاب میں بھی بڑھے گا۔ پنجاب کی عددی اکثریت تو مرکزسے بھی کمزور ہے۔ اس لیے پنجاب میں بھی خطرات بڑھیں گے۔
حفیظ شیخ کی ہار کے اندر عمران خان کے لیے بہت سے پیغام پنہاں ہیں۔ غیر منتخب لوگوں کے ذریعے امور مملکت چلانے کا جو تجربہ کیا گیا ہے، حفیظ شیخ کی ہار اس پالیسی پر عدم اعتماد کا اظہارہے۔ منتخب ممبران کو غیر منتخب افراد کی حاکمیت پسند نہیں ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے ارد گرد منتخب افراد کم اور غیر منتخب افراد کی تعداد زیادہ ہو گئی تھی۔ اس لیے منتخب ممبران کے اندریہ احساس پیدا ہو گیا ہے کہ غیر منتخب افراد حکومت سے غیر مقبول فیصلے کرا رہے ہیں جس کی وجہ سے حکومت غیر مقبول ہو رہی ہے۔
کہیں نہ کہیں جہانگیر ترین کی کمی بھی شدت سے محسوس کی گئی ہے۔ عمران خان کو احساس ہونا چاہیے کہ ان کے پاس اب کوئی ایسا فرد نہیں ہے جو ان کے سیاسی مسائل کو دیکھ سکے، ان کو حل کر سکے، لوگوں کی ناراضگی دور کر سکے، حکومت کے پاس معاملہ فہم لوگوں کی شدید کمی ہے۔ ارکان اسمبلی کے پاس اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ وزیر اعظم ملتے نہیں ہے۔ اس لیے ارکان اسمبلی کے پاس ووٹ کی طاقت کے سوا ناراضگی کے اظہار کا کوئی ذریعہ نہیں رہ گیا۔ شاہ محمود قریشی بھی معاملہ فہمی کے بجائے گالم گلوچ گروپ میں شامل ہو گئے ہیں، اس لیے جہانگیر ترین کی کمی شدت سے محسوس ہوئی ہے۔
حفیظ شیخ کے بارے میں یہ رائے تھی کہ وہ مقتدر حلقوں کے نمایندے ہیں تا ہم یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ وہ نیوٹرل ہیں۔ اگر یہ مان لیا جائے کہ وہ نیوٹرل ہیں اور تحریک انصاف جیتی ہوئی سیٹ ہار گئی تو سوچنے کی بات ہے کہ عمران خان کے لیے آگے کتنے مسائل پیدا ہو جائیں گے۔ کیا عمران خان ان کے نیوٹرل ہونے کے بعد اپنا اقتدار قائم رکھ سکیں گے۔ ڈسکہ کے انتخاب میں حکومت مشکل میں ہے۔ نوشہرہ میں مشکل میں ہے۔ اور اب سینیٹ میں بھی مشکل میں ہے۔ اس لیے عمران خان کے لیے مشکلات دن بدن بڑھتی چلی جائیں گی۔
سوال یہ بھی ہے کہ عمران خان کو کرنا کیا چاہیے۔ کیا عمران خان کے پاس ان مشکلات سے نکلنے کا کوئی حل ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ محاذ آرائی ختم کرنا ہوگی۔ سیاسی منظر نامہ کا درجہ حرارت کم کرنا ہوگا۔ اپوزیشن سے بات چیت کے دروازے کھولنے ہوں گے۔ ان سے نئے رولز آف گیم طے کرنا ہوں گے۔ انا کے خول سے باہر آنا ہوگا۔ سیاسی مسائل کو بلڈوز کرنے کی کوشش کے بجائے انھیں سیاسی انداز میں حل کرنے کی طرف جانا ہوگا۔ پارلیمنٹ کو فعال کرنا ہوگا۔ پارلیمنٹ میں اپوزیشن کو سننا ہوگا۔ بات چیت کے دروازے کھولنے ہوں گے، ورنہ مشکلات دن بدن بڑھتی جائیں گی۔