آج کل پاکستان اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات پر بہت بات ہو رہی ہے۔ متحدہ عرب امارات کی جانب سے پاکستانیوں کے ویزوں پر پابندی اور سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو دی گئی امدادی رقم کی واپسی کی خبروں کو لے کر تجزیہ کیا جارہا کہ عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی ناراضگی صاف نظر آ رہی ہے۔
پاکستان کی جانب سے دونوں ممالک کے ساتھ تعلقات ٹھیک کرنے کی بہت کوشش کی جا رہی ہے لیکن لگتا ہے کہ فی الحال توقع کے مطابق نتائج نظر نہیں آ رہے ہیں۔ میں جب یہ تحریر لکھ رہا ہوں تو سعودی سفیر کی وزیر اعظم کے ساتھ ملاقات کی تصویر ملک کے تمام اخبارات کے صفحہ اول پر شائع ہوئی ہے۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی چند دن قبل متحدہ عرب امارات کا دورہ کر کے آئے ہیں۔ انھوں نے مثبت اشارے ضرور دیے ہیں۔
متحدہ عرب امارات کے شاہی خاندان کے اہم افراد پاکستان میں شکار کھیلنے بھی آ چکے ہیں۔ انھیں اسپیشل پرمٹ بھی جاری کیے گئے ہیں۔ لیکن پاکستانیوں کے لیے اماراتی ویزوں پر پابندی برقرار ہے۔ سعودی عرب کو ایک ایک ارب ڈالر کی دو قسطیں واپس کی جا چکی ہیں اور تیسری قسط جنوری میں واپس کرنی ہے۔ شنید یہی ہے کہ یہ تیسری قسط بھی ادا کردی جائے گی۔
بعض حلقے خدشہ ظاہر کررہے ہیں کہ شاید متحدہ عرب امارات ہم سے اپنے تین ارب ڈالر ادا کرنے کی درخواست کردی۔ کیا ایک بار پھر چین ہماری مالی مدد کو آگے آئے گا؟ شاید اسی تناظر میں وزیر خارجہ نے متحدہ عرب امارات کا دورہ کیا ہے، ہوسکتا ہے کہ اس دورے کے مثبت نتائج سامنے آجائیں لیکن منظر نامہ تاحال پوری طرح سے صاف نہیں ہے۔ بلکہ اس بات کا خدشہ نظر آ رہا ہے کہ جو لاکھوں پاکستانی روزگار کمانے کے لیے ان دو ملکوں میں موجود ہیں، انھیں بھی واپس نہ آنا پڑ جائے۔ ان ممالک میں ایسی پالیسیاں بنائی جا رہی ہیں کہ پاکستانی ورکرز کے مشکلات پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں مقیم لاکھوں پاکستانی، پاکستان کے لیے زر مبادلہ کا بڑا ذریعہ ہیں۔ ان کی بھیجی گئی ترسیلات زر پاکستان کے لیے زر مبادلہ کے حصول میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس لیے جیسے جیسے پاکستانی واپس آتے جائیں، ملک میں نہ صرف بیروزگاری بڑھتی جائے گی بلکہ زر مبادلہ ملنے کا ایک بڑا ذریعہ بھی محدود ہوتا جائے گا۔ جس سے پاکستان کی معیشت کو مزید نقصان پہنچے گا۔ اس لیے یہ پاکستان کے لیے کوئی غیر اہم معاملہ نہیں ہے۔
یہ پاکستان کو معاشی طورپر مزید مشکلات میں ڈالنے کا ایک کھیل ہے۔ اس کے اثرات فیٹف کی پابندیوں سے زیادہ سخت ہوں گے۔ اس وقت پاکستان کو تو ایسی نئی منڈیوں کی تلاش ہے جہاں ہماری لیبر کو روزگار مل سکے۔ ان حالات میں اگر اوورسیز پاکستانی ورکرز کی واپسی شروع ہوئی معاشی حالات مزید ابتر ہوجائیں گے۔
پاکستان میں ایک عموی تاثر بنایا جا رہا ہے کہ ہم اسرائیل کو تسلیم نہیں کر رہے لیکن یہ غلط تاثر ہے۔ پاکستان اور عرب ممالک کے درمیان تعلقات میں درڑا پہلے ہی پیدا ہوچکی تھی، اس لیے اسرائیل کا ان معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ شاید حکومت ہی سائڈ لائن سے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ایسا بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ حالانکہ دنیا جانتی ہے دونوں باتوں کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔
یہ بات بھی حقیقت ہے کہ موجود حکومت کے قیام کے بعد عرب ممالک نے کھلے بازؤں کے ساتھ دوستی اور تعاون کا ہاتھ بڑھایا۔ مشکل مالی حالات میں دونوں ممالک نے تین تین ارب ڈالر دیے۔ سعودی عرب نے ادھار تیل کی سہولت بھی دی۔ آپ تین تین ارب ڈالر کو کم نہ سمجھیں کیونکہ چھ ارب ڈالر کے لیے تو ہم آئی ایم ایف کی شرائط مان رہے ہیں۔ ایسے میں اگر صرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے ملکر چھ ارب ڈالر دے د یے تھے تو یہ کوئی معمولی بات نہیں تھی جب کہ آئی ایم ایف نے چھ ارب ڈالر تین سال میں قسطوں میں دینے تھے۔ ان دونوں ممالک نے یک مشت دے دیے تھے۔
بات یہیں ختم نہیں ہوئی، اس کے بعد دونوں ممالک کے حکمران پاکستان آئے۔ سعودی عرب سے محمد بن سلمان آئے۔ ہمارے وزیر اعظم نے ان کے ساتھ شوفر ڈپلومیسی کی روایت قائم کی۔ دوستی کی نئی منزلیں طے کرنے کی بات کی گئی۔ متحدہ عرب امارات کے حکمران آئے۔ تب بھی شوفر ڈپلومیسی اختیارکی گئی اور دوستی کو نئی منزلوں تک لیجانے کا اعلان کیا گیا۔ سعودی عرب نے سی پیک میں شمولیت پر رضامندی کا اعلان کیا۔ ہم نے کامیابی کا جشن منایا۔ سب ٹھیک نظر آ رہا تھا۔ پاکستانی قیدیوں کی رہائی ممکن ہوئی۔ سعودی عرب میں ویزہ مشکلات آسان ہوئیں۔ لیکن پھر کیا ہوا۔ یہ سمجھنے کی ضرورت ہے۔ شاید یہی عوام سے چھپایا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم عمران خان اقوام متحدہ کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیو یارک گئے، وہاں انھوں نے کشمیر کے لیے وہ تاریخی تقریر کی جو اس سے پہلے کسی نے نہیں کی تھی۔ وہاں وہ طیب اردگان اور مہاتیر محمد سے ملے۔ تینوں نے ملکر ایک نیا اسلامی بلاک بنانے کا اعلان بھی کیا۔ اسی بات چیت کے نتیجے میں مہاتیر محمد نے ملائیشیا میں مسلمان ممالک کا ایک اجلاس بلا لیا۔ اس اجلاس کی حیرت انگیز بات یہ کہ اس میں عرب ممالک کو مدعو نہیں کیاگیا۔ عرب ممالک نے سمجھا کہ او آئی سی کے مقابلے میں ایک نیا پلیٹ فارم بنانے پر کام شروع ہو گیا۔ مجھے لگتا ہے کہ یہیں سے شکوک وشبہات نے جنم لیا۔
وزیر اعظم عمران خان کوالالمپور بھی نہیں گئے۔ ترکی کے صدر طیب اردگان نے اس موقع پر ایکس وال کے جواب میں ساری کہانی بیان کر دی۔ پاکستان نے طیب اردگان کی بات کی تردید نہیں کی اور خاموش رہا۔ پھر دنیا نے دیکھا مہاتیر ہی نہ رہے، ان کی چھٹی ہوگئی۔
ہماری خارجہ پالیسی کا حال یہ تھا کہ ایک طرف او آئی سی سے مدد مانگی جا رہی تھی دوسری طرف اس پر تنقید بھی کی جارہی تھی۔ خود ہی اندازہ لگا لیں، ایسی خارجہ پالیسی کا کیا نتیجہ نکلنا تھا۔ خارجہ پالیسی میں ابہام یا واضح نہ ہونا، اچھی بات نہیں ہوتی، اسے کیفیت میں غلطیاں ہونے کا احتمال زیادہ رہتا ہے۔ پاکستان خارجہ امور میں موجود ابہام یا غلطی کو درست کرے، یاد رکھیں کہ خارجہ امور میں جتنی بڑی غلطی ہوگی، اس کی تلافی بھی اتنی بڑی ہو گی۔