مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰن کوشش کر رہے ہیں کہ بلاول کے بغیر پی ڈی ایم کا دباؤ حکومت اور اسٹبلشمنٹ پر قائم رکھا جا سکے۔ دوسری طرف بلاول اس کوشش میں ہیں کہ وہ حکومت اور اسٹبلشمنٹ کو یہ ثابت کر دیں کہ ان کے بغیر پی ڈی ایم کچھ نہیں۔ اور وہ پی ڈی ایم کے غبارے میں سے ہوا نکالنے کی صلاحیت اور طاقت رکھتے ہیں۔ یہ ایک دلچسپ کھیل ہے۔ جس میں دونوں صورتوں میں حکومت کا نقصان ہی نقصان ہی ہے۔
بلاول نے پی ڈی ایم کی بہاولپور کی ریلی میں شرکت نہیں کی۔ پیپلزپارٹی کی نمایندگی سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے کی۔ حالانکہ اس سے پہلے جب ملتان میں پی ڈی ایم کا جلسہ تھا تو بلاول کورونا کی وجہ سے قرنطینہ میں تھے۔ لیکن پھر بھی پیپلزپارٹی نے بلاول کی جگہ آصفہ بھٹو کو جلسہ میں بھیجا۔ جس کو آصفہ بھٹو کی پہلی باقاعدہ سیاسی لانچنگ بھی قرار دیا گیا۔
آصفہ بھٹو اور مریم نواز کی اکٹھی تصاویر نے ملک کے سیاسی منظر نامہ کو ایک نیا رنگ بھی دیا۔ تاہم جب سے پیپلزپارٹی نے ضمنی اور سینیٹ انتخابات لڑنے کا اعلان کیاہے۔ دیکھا جا رہا ہے کہ بلاول پی ڈی ایم کے اجلاسوں اور پروگراموں میں شرکت سے اجتناب کر رہے ہیں۔
پیپلزپارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کے بعد پی ڈی ایم کا سربراہی اجلاس لاہور میں جاتی عمرا میں ہوا تاہم بلاول نے اس میں شرکت نہیں کی۔ بلکہ وہ کچھ دیر کے لیے بس ویڈیو لنک سے ہی شریک ہوئے۔ اور اب بہاولپور کی ریلی میں بھی وہ شریک نہیں ہوئے۔ حالانکہ وہ کوئی اتنے خاص مصروف نہیں تھے۔
اس سے پہلے مولانا فضل الرحمٰن نے محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی میں شرکت نہیں کی تھی انھوں نے بھی مصروفیات کا بہانہ بنا دیا تھا۔ حالانکہ وہ بھی کوئی خاص مصروف نہیں تھے۔ مریم نواز نے ابھی تک پی ڈی ایم کے تمام پروگراموں اور اجلاسوں میں شرکت کی ہے۔ لیکن وہ باقی دونوں جماعتوں کی قیادت کا رویہ ضرور محسوس کر رہی ہونگی۔
یہ درست ہے کہ بلاول نے بہاولپور کی پی ڈی ایم کی مہنگائی کے خلاف ریلی میں شرکت نہیں کی ہے تا ہم انھوں نے پی ڈی ایم کے ساتھ رہنے کا عندیہ ضرور دیا ہے۔ وہ ضمنی انتخاب اور سینیٹ انتخابات کے علاوہ ہر معاملے پر پی ڈی ایم کے ساتھ کھڑے نظر آتے ہیں۔ دوستوں کی رائے ہے کہ وہ استعفوں کے معاملہ پر بھی پی ڈی ایم کے ساتھ نہیں ہیں۔ لیکن وہ ایسا کہہ نہیں رہے۔
وہ کہتے ہیں کہ استعفوں کا فیصلہ مناسب وقت پر کیا جائے گا۔ ا ور شاید اس مناسب وقت کے تعین کا اختیار پیپلزپارٹی اور بلاول اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔ وہ اس میں کسی بھی قسم کی مداخلت پسند نہیں کر رہے۔
اس صورتحال میں مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰن نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پی ڈی ایم کو توڑنے کے بجائے اپنا کام جاری رکھیں اور عین ممکن ہے کہ جب وہ منزل کے قریب ہوں تو بلاول اور ان کی جماعت دوبارہ ان کے ساتھ شامل ہو جائے۔ اسی حکمت عملی کے تحت بلاول اور پیپلزپارٹی کے ساتھ محاذ آرائی کے بجائے حکومت کے خلاف تحریک میں زور بڑھانے کا فیصلہ ہوا ہے۔ اسی لیے بہاولپور کی ریلی بھی کی گئی ہے اور باقی پروگراموں کے شیڈول کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔
مریم نواز اور مولانا فضل الرحمٰن کو معلوم ہے کہ اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور دھرنے میں پیپلز پارٹی کا کردار ویسے ہی بہت محدود ہے۔ پنجاب اور بالخصوص جی ٹی روڈ پر پیپلزپارٹی کی طاقت نہ ہونے کے برابر ہے۔ پنجاب ن لیگ کا گڑھ ہے۔ کسی بھی لانگ مارچ اور اسلام آباد پر دھرنے کو کامیاب بنانے کے لیے پنجاب اور بالخصوص جی ٹی روڈ کے پنجاب کے شہروں کا کلیدی کردار ہو گا۔ اور یہ سب شہر ن لیگ کے مضبوط قلعہ ہیں۔ مولانا کی حمایت بھی موجود ہے لیکن پھر بھی ن لیگ پہلے نمبر پر ہے۔ تا ہم پیپلزپارٹی اور بلاول تو چند سو لوگ لانے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہے۔
اسی طرح اسلام آباد پہنچنے کا دوسرا راستہ کے پی سے ہے۔ لیکن کے پی میں بھی پیپلزپارٹی کی عوامی طاقت بہت کمزور ہو چکی ہے۔ ہزارہ کے علاقہ میں ن لیگ مضبوط ہے۔ پشاور اور اس کے ارد گرد کے علاقوں کے لیے مولانا اور اے این پی ساتھ ہیں۔ یہ دونوں جماعتیں اگر کے پی سے مناسب تعداد میں لوگ لانے میں کامیاب ہو جائیں تو بھی پیپلزپارٹی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ کے پی کا محاذ صف اول پر تو مولانا فضل الرحمٰن کو سنبھالنا ہے، لیکن ان کے ساتھ اے این پی کا تعاون کافی ہوگا۔
پیپلزپارٹی کی عوامی طاقت سندھ تک محدود ہو گئی ہے۔ پی ڈی ایم کی اس تحریک میں بلاول کو ان علاقوں میں بھی عوامی اجتماعات سے خطاب کرنے کا موقع ملا ہے جہاں اب ان کی جماعت اکیلے عوامی اجتماع کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ مثال کے طور پر لاہور کے مینار پاکستان پر پیپلزپارٹی اب جلسہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔
گوجرانوالہ اور پشاور میں بھی اس پوزیشن میں نہیں ہے۔ لیکن پھر بھی بلاول کو یہ اندازہ ہے کہ پی ڈی ایم کے ان عوامی اجتماعات میں شرکت سے ان علاقوں میں پیپلزپارٹی کی بحالی ممکن نہیں ہے۔ البتہ ان کو اپنی لیڈر شپ منوانے کا موقع ضرور مل رہا ہے۔
اسلام آباد پر چڑھائی پر بلاول کو علم ہے کہ ان کی جماعت کاکردار بہت محدود ہے۔ سندھ سے لوگوں کا اسلام آباد لانا اور ٹھہرانا بہت مشکل ہے۔ شاید ان کا ورکر اس کے لیے تیار بھی نہیں ہوگا۔ باقی علاقوں کی صورتحال بیان کی جا چکی ہے۔ اسلام آباد پہنچنے کے بعد بلاول کے کنٹینر پر کھڑے ہونے کا جب وقت آئے گا تو دیکھا جائے گا۔ صاف بات ہے کہ اگر ن لیگ اور مولانا ایک بڑی تعداد میں لوگ اسلام آباد لانے میں کامیاب ہو گئے۔ لوگوں کی تعداد ہزاروں کے بجائے لاکھوں میں ہوئی تو بلاول پی ڈ ی ایم کے کنٹینر پر نظر آجائیں گے۔ اگرحکومت عوامی طاقت سے جاتی نظر آئی تو وہ استعفیٰ لے کر کنٹینر پر نظر آئیں گے۔
لیکن اگر لوگوں کی تعداد کم ہوئی۔ تو وہ کہیں گے کہ میں تو پہلے ہی کہہ رہا تھا کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔ ہم نے توکہا تھا کہ پارلیمان میں جنگ لڑنی ہے۔ اس لیے ہم کنٹینر چھوڑ کر پارلیمان جا رہے ہیں۔ وہ کہیں گے کہ جمہوریت کو خطرات درپیش ہو گئے ہیں۔ پیپلزپارٹی نے پاکستان میں جمہوریت کے تحفظ کی قسم کھائی ہے۔ اس لیے ہم نے جمہوریت کی بقا کے لیے کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو بلاول اور پی ڈیم ایم دونوں درمیان میں ہی کھڑے ہیں۔ مریم اور مولانا دونوں کو امید ہے کہ جب وہ جیت کے قریب ہونگے تو بلاول ان کے ساتھ ہونگے۔ حکومت اور اسٹبلشمنٹ کو امید ہے کہ بلاول ان کے ساتھ ہونگے۔ بلاول اور پیپلزپارٹی کی کامیابی یہی ہے کہ انھوں نے دونوں کو امید سے رکھا ہوا ہے۔
یہی ان کی کامیاب سیاست کی کامیابی کا نشان ہے۔ اس وقت سب کو معلوم ہے کہ ان کا وزن صرف جیت کے پلڑے میں ہے۔ اب وہ جیت پی ڈی ایم اور حکومت میں سے کسی کی بھی ہو سکتی ہے۔ بلاول یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور حکومت دونوں کے انتظار میں ہیں کہ جو چاہے آپ کا حسن ظن کرے۔