چیف جسٹس سپریم کورٹ کی زیر صدارت پولیس ریفامرز کمیٹی کا اجلاس ہوا ہے۔ اجلاس کی باقاعدہ پریس ریلیزبھی جاری کی گئی ہے جس کے مطابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک بھر میں ایف آئی آر درج کرنے کے حوالے سے ایک یکساں پالیسی ہونی چاہیے۔ انھوں نے جھوٹی ایف آئی آر، جھوٹی گواہیوں اور غیر ضروری گرفتاریوں کے روک تھام کے لیے اقدامات پر زور دیا ہے۔ اس ضمن میں نیشنل پولیس بیورو اور تمام آئی جی صاحبان کو سفارشات تیار کرنے کی ہدائت کی ہے۔
اجلاس میں پولیس کی جانب سے کے قائم کیے گئے کمپلینٹ سسٹم کی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔ اعدادو شمار کے مطابق پولیس کمپلینٹ سسٹم کی وجہ سے ایف آئی آر درج کروانے کے لیے رٹ پٹیشن اور 22-A 22- Bکی درخواستوں کی تعداد میں کمی ہوئی ہے۔ گزشتہ سال اس دوران ہائی کورٹس میں ایف آئی آر درج کرانے کے لیے 14733رٹ پٹیشن دائر ہوئیں جب کہ اس سال پولیس کمپلینٹ سسٹم رائج ہونے کے بعد 12187رٹ پٹیشن دائر ہوئی ہیں۔
بظاہر 17فیصد کم درخواستیں دائر ہوئی ہیں۔ لیکن اگر عمومی نظر سے دیکھا جائے تو یہ کوئی خاص کمی نہیں ہے۔ دنیا کے مہذب ملک میں ایسی درخواستوں کا کوئی وجود نہیں ہے بلکہ ایسا سوچنا بھی مشکل ہے کہ کوئی پولیس کے پاس گیا ہے اوراس کی درخواست پر کارروائی نہیں ہوئی۔
میری رائے میں جب یہ ثابت ہو جائے کہ کوئی شہری اپنی جائز شکایت لے کر تھانے گیا ہے اور اس کی جائز شکایت پر ایف آئی آر درج نہیں ہوئی تو اس پولیس افسر کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ یہ کیا بات ہوئی کہ اس شہری عدالت میں جا کر یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ پولیس کے پاس گیا اور پولیس نے اس کی شکایت پر کارروائی نہیں کی۔ اس کے بعد عدالت صرف شکایت پر کارروائی کا حکم دے دیتی ہے۔ اب جب کہ پولیس کمپلینٹ سسٹم بن گیا ہے۔ کسی بھی شہری کے لیے عدالت آنے سے پہلے اس سٹم میں جانا ضروری ہونا چاہیے۔ اور اگر عدالت سمجھے کہ شہری کو اس سسٹم سے بھی انصاف نہیں ملا تو پھر پولیس کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے۔ صرف ایف آئی آر کا حکم کوئی انصاف نہیں۔
تا ہم ایک رائے یہ بھی ہے کہ جائز ایف آئی آر تو درج ہو ہی جاتی ہے۔ مسئلہ تو جھوٹی اور بوگس ایف آئی آر کا اندراج ہے۔ لوگ جھوٹی اور بوگس ایف آئی آر درج کرانے کے لیے آخری حد تک جاتے ہیں۔ اس لیے جب تک ایف آئی آر درج کرانے کا قانون تبدیل نہیں ہوتا اس قسم کے اقدامات کے وہ نتائج سامنے نہیں آئیں گے۔ جن کی توقع کی جا رہی ہے۔
قانون فوجداری کے سیکشن 154کی تبدیلی کی بہت بات کی جاتی ہے۔ لیکن اس کو تبدیل کرنے کی طرف کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ میں بھی سمجھتا ہوں کہ جب تک اس سیکشن کو تبدیل کر کے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں کیا جائے گاتب تک جھوٹی اور بوگس ایف آئی آرکے اندراج کا رکنا ممکن نہیں۔ جب تک جھوٹی ایف آئی آر کا قانون سخت نہیں کیا جائے گا تب تک با اثر طبقہ اس کو اپنے تسلط کو قائم رکھنے کے لیے استعمال کرتا رہے گا۔
چیف جسٹس پاکستان نے پولیس ریفارمز کمیٹی کے اجلاس میں بے گناہ کی گرفتاریوں کی روک تھام کے لیے بھی سفارشات تیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ضمانتوں کے مقدمات کا بوجھ عدلیہ سے ختم ہو جائے تو نظام انصاف میں انقلابی تبدیلیاں ممکن ہیں۔ آج ماتحت اور اعلیٰ عدلیہ کم از کم ہائی کورٹس کا بہت سا ٹائم ضمانت کے مقدمات سننے میں ضایع ہو جاتا ہے۔
ادھر ایف آئی آر درج ہوئی تو دوسری طرف ملزم ضمانت کے لیے عدالت پہنچ جاتا ہے۔ اگر ملزم عدالت نہ پہنچ سکے اور پولیس کے ہاتھ لگ جائے تو ریمانڈ کا کھیل شروع ہو جاتا ہے۔ ا س کے بعد بعد از گرفتاری ضمانت کا کھیل شروع ہوجاتا ہے۔ ا س سب کام کا انصاف سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس طرح ملزم اور مدعی کا سارا زور ضمانت اور ریمانڈ پر ہیء لگ جاتا ہے۔ بعد میں حقیقی مقدمہ میں کسی کوئی دلچسپی باقی ہی نہیں رہتی۔
میری رائے میں پولیس اور عدلیہ کو مل کر ایسی اصلاحات لانی چاہیے جن میں بے گناہ کی گرفتاری کا راستہ روکا جا سکے۔ ضمانت کے حصول کو آسان بنایا جائے۔ جب پولیس نے تھرڈ ڈگری استعمال نہیں کرنا تو ریمانڈ ایک فرسودہ روائت ہے۔ ملزم کو صرف اس بات کا پابند کیا جانا چاہیے کہ وہ تفتیش میں شامل رہے گا۔ جب پولیس بلائے گی۔ حاضر رہے گا۔ اگر پولیس کسی کو گرفتار کرے تو ملزم سے اس کی بے گناہی پوچھنے کی بجائے پولیس سے پوچھنا چاہیے کہ اس کے پاس اس کی گرفتاری کے لیے کیا ٹھوس شواہد تھے۔ کیا ملزم تفتیش میں تعاون نہیں کر رہا جو اسے گرفتار کر نے کی نوبت پڑی ہے۔
جیسے جیسے بے گناہوں کی گرفتاری کے راستے بند کیے جائیں گے ویسے ویسے جھوٹی اور بوگس ایف آئی آر کا اندراج بھی ختم ہو جائے گا۔ ہمیں اس بات کا ادراک کرنا چاہیے کہ نوے فیصد جھوٹی ایف آئی آر صرف مخالف کو گرفتار کروانے اور اس کی پولیس سے تذلیل کرانے کے لیے کرائی جاتی ہیں۔ جیسے ملزم کو ضمانت مل جاتی ہے، مدعی ایف آئی آر کی پیروی ختم کر دیتا ہے۔
اور ایک نئی ایف آئی آر درج کرانے کی پلاننگ شروع کر دیتا ہے۔ جس ایف آئی آر کے نتیجے میں ملزم گرفتار نہ ہوا سے بے کار سمجھا جاتا ہے۔ پولیس پر بھی تفتیش کا نہیں گرفتاری کا دباؤ ٖڈالا جاتا ہے۔ پولیس کو سمجھنا ہوگا کہ عدالت میں مدعی مقدمہ کی گواہی اور ثبوتوں پر سزا ہونی ہوتی ہے۔
اس لیے کوئی بھی ایف آئی آر درج ہونے کے بعد تفتیش کا عمل مدعی سے شروع ہونا چاہیے۔ یہی بہت بڑی اصلاح ہو گی۔ ابھی جھوٹی ایف آئی آر کے خلاف پاکستان میں کوئی سزا نہیں ہے۔ دفعہ82کی کارروائی نہ ہونے کے برابر ہے۔ پولیس کا موقف ہے کہ ہم استغاثہ بنا کر بھیجتے ہیں لیکن عدالتیں کارروئی نہیں کرتیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ کوئی پولیس اصلاحات تب تک کامیاب نہ ہو سکتیں جب تک پولیس کا ناجائز استعمال نہیں رکے گا۔ جھوٹی ایف آئی آر کی سخت سزا ہونی چاہیے۔ یہی مہذب معاشرہ کی پہلی نشانی ہوگی۔ یہی اصل پولیس اصلاحات ہوں گی۔
پولیس ریفارمز کمیٹی کے اجلاس میں اس بات پر بھی اتفاق ہوا ہے کہ پولیس اصلاحات کی شہری علاقوں سے زیادہ دیہی علاقوں کو ضرورت ہے۔ جسٹس گلزار نے اجلاس میں دیہی علاقوں میں پولیس میں بہتری کی بات کی ہے۔ وہاں با اثر لوگوں کی جانب سے اپنے مذموم مقاصد کے لیے پولیس کے استعمال کو روکنا بھی ضروری ہے۔
اگر دیہات میں پولیس گردی ختم ہو جائے تو وڈیروں کی سیاست ختم ہو جائے گی۔ جمہوریت مضبوط ہو گی۔ ہم نے پولیس اصلاحات کو ایک مشکل مسئلہ بنا لیا ہے۔ حالانکہ عدلیہ اور پولیس ملکر چند بنیادی اقدامات سے نہ صرف نظام انصاف بلکہ پولیس میں بھی انقلاب لا سکتے ہیں۔ مجھے امید ہے کہ پولیس ریفارمز کمیٹی کے اجلاس اس جانب درست قدم ہیں۔ وہاں مسائل کی درست نشاندہی کی جا رہی ہے۔ امید ہے کہ حل بھی نکلیں گے۔ مجھے ڈر ہے کہ حسب روایت یہ کام ادھورا نہ رہ جائے۔ اسے مکمل کرنا ہی اصل کام ہے۔