پاکستان اس وقت فیٹف کی گرے لسٹ میں ہے۔ فیٹف کی خواہشات اور شرائط کے تحت پاکستان نے خصوصی قانون سازی کی ہے کہ کسی بھی طرح اس گرے لسٹ سے نکلا جا سکے، تاہم ابھی تک اس گرے لسٹ سے نہیں نکل سکے ہیں۔ تاہم فیٹف کی خواہش اور شرط پر کی گئی قانون سازی کے منفی اثرات ضرور سامنے آنے لگے ہیں۔
فیٹف کے لیے جو نئی قانون سازی کی گئی ہے اس میں رئیل اسٹیٹ ڈیلرز اور جیولرز کو اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ جب بھی ان کے پاس کوئی بھی گاہک آئے وہ اس کے بارے میں ایف بی آر کو ایک رپورٹ بھیجے گا کہ اس کے پاس یہ گاہک اس مقصد کے لیے آیا ہے۔ اور کیا کہ وہ متعلقہ رئیل اسٹیٹ ڈیلر اور جیولر اس گاہک کے پیسوں کے حوالہ سے مطمئن ہیں کہ یہ کوئی ناجائز پیسے نہیں ہیں۔ فیٹف کا خیال ہے کہ پاکستان میں ناجائز دولت رئیل اسٹیٹ اور جیولر مارکیٹ میں ڈمپ کی جاتی ہے۔
اس لیے فیٹف نے یہ قانون سازی کروائی ہے کہ رئیل اسٹیٹ ڈیلرز اورجیولرز سے تمام گاہکوں کا ڈیٹا حاصل کیا جا سکے کہ پاکستان میں کون کون اس شعبہ میں کام اور سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ رئیل اسٹیٹ ڈیلر کو بالخصوص اس بات کا پابند بنایا گیا ہے کہ وہ پلاٹ یا گھر خریدنے آنے والے سے بالخصوص اس کے ذریعہ آمدن کے بارے میں سوال کرے اور اگر وہ اس کے ذریعہ آمدن اور سرمائے کے حوالہ سے مطمئن نہیں ہے تو فوری ایف بی آر کو رپورٹ دے۔
فیٹف کی اس قانون سازی کے بعد ایف بی آر کے ڈائریکٹر ڈی این ایف بی پی ایس نے ملک میں رئیل اسٹیٹ ڈیلرز کو نوٹس بھجوائے ہیں کہ وہ فیٹف کی اس قانون سازی پر عمل کیوں نہیں کر رہے ہیں۔ ایف بی آر کی جانب سے ان نوٹس کے وصول ہونے کے بعد ملک بھر کے رئیل اسٹیٹ ایجنٹس میں شدید تشویش پائی جا رہی ہے۔ رئیل اسٹیٹ کے کام میں بہت پیچیدگیاں ہیں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں حکومت نے کبھی اس شعبہ کو ریگولیٹ نہیں کیا ہے۔ جس کا دل چاہے جب چاہے وہ رئیل اسٹیٹ کی دکان کھول سکتا ہے۔
اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ملک بھر میں گلی محلوں میں رئیل اسٹیٹ ڈیلرز کی دکانیں کھلی ہوئی ہے۔ یہ لوگ مکان کرائے پر چڑھانے سے لے کر پلاٹ دکان گھر بیچنے کا کام کرتے ہیں۔ ان کی ایف بی آر کے پاس کوئی رجسٹریشن نہیں ہے۔ یہ کوئی ٹیکس ریٹرن فائل نہیں کرتے۔ اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ فیٹف کے لیے کی گئی قانون سازی پر تب تک عمل نہیں ہو سکتا جب تک رئیل اسٹیٹ ڈیلر کے شعبہ کو ریگولیٹ نہیں کیا جاتا۔ رئیل اسٹیٹ ڈیلر کا کام شروع کرنے کے لیے باقاعدہ لائسنس ہونا چاہیے۔ ایف بی آر سے رجسٹریشن لازمی ہونی چاہیے۔ ٹیکس فائلر ہونا چاہیے۔ ابھی جو صورتحال ہے اس میں ایسی قانون سازی پر عملدرآمد عملی طور پر ناممکن ہے۔
رئیل اسٹیٹ ڈیلرز کی تنظیم RECAنے نوٹسز کی وصولی کے بعد اس ضمن میں گزشتہ دنوں ایف بی آر کے ڈائریکٹر این ایف بی پی ایس ڈاکٹر ظفر اقبال سے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا کہ اس نئے نظام کو سمجھا جا سکے۔ RECAکے روح رواں احسن ملک نے بڑے رئیل اسٹیٹ ڈیلرزکو بلایا اور ایف بی آر اور ڈیلرز کے درمیان ایک مکالمہ کروایاتا کہ دونوں فریقین ایک دوسرے کے مسائل اور ضروریات کو سمجھ سکیں۔ بہر حال یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ دونوں طرف سے مزاحمت قابل دید ہے۔
رئیل اسٹیٹ ڈیلرز کی اس بات میں بہت وزن ہے کہ جب ان کے پا س کوئی گاہک آئے تو وہ اس سے کیسے یہ پوچھ سکتے ہیں کہ اس کے پاس جو پیسے ہی وہ منی لانڈرنگ یا تاوان کے تو نہیں ہیں۔ اور کوئی گاہک انھیں کیوں بتائے گا کہ اس کی رقم کہاں سے آئی ہے۔ پھر ایسا بھی ہوگا کہ جب ایک رئیل اسٹیٹ ڈیلرز اس بنیاد پر ایک گاہک کو انکار کرے گا تو کوئی دوسرا ڈیلر اس کو پلاٹ یا گھر لے دے گا۔ اور پھر یہ بھی ہوگا کہ جب ایک ڈیلرسے گاہک کا تنازعہ پیدا ہو گیا تو وہ اس کے بارے میں ایف بی آر کو ایک منفی رپورٹ دے دے گا۔
میں بھی سمجھتا ہوں کہ ایک عجیب قانون سازی ہے۔ ایف بی آر کے ڈائریکٹر کا بھی موقف ہے کہ ابھی ایف بی آر کے پاس اس کو چیک کرنے کے لیے زیادہ وسائل نہیں ہیں۔ صرف اٹھارہ افسران موجود ہیں۔ اس لیے موجودہ مالی سال کے اختتام تک صرف چند سو ٹرانزیکشن کو ہی چیک کیا جا سکے گا۔
رئیل اسٹیٹ ڈیلرز کی اس بات میں بھی وزن ہے کہ حکومت انھیں یہ اختیار کیوں دینا چاہتی ہے کہ وہ جس کو بھی چاہیں اس کے سرمائے کو مشکوک قرار دے دے۔ وہ کون ہوتے ہیں کہ کسی سرمائے کو مشکوک قرار دیں۔ یہ کام حکومت کا ہے اور حکومت کو یہ کام خود کرنا چاہیے۔
اگر حکومت اس ضمن میں کوئی ڈیٹا حاصل کرنا بھی چاہتی ہے تو ہاؤسنگ سوسائٹیوں کو پابند کریں کہ وہ جب بھی کوئی پلاٹ یا گھر ٹرانسفر کریں تو ایف بی آر کو بتائیں۔ ویسے بھی جب ملک میں رئیل اسٹیٹ میں کوئی ٹرانزکیشن ہوتی ہے ایف بی آر کو پتہ چلتا ہے۔ اور اگر ایسا نہیں ہے تو ایف بی آر کو ایسا میکنزم بنانا چاہیے کہ اسے علم ہو۔ لیکن رئیل اسٹیٹ ڈیلر کو یہ فرض سونپنا کہ وہ بتائے کہ کس کے پاس سرمایہ جائز ہے کہ نہیں سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس طرح تو ملک میں مخبری کا ایک نظام شروع ہو جائے گا اور لوگ ایک دوسرے کے کلائنٹس کے خلاف رپورٹس بھیجنا شروع کر دیں گے۔
ایف بی آر کے اس موقف میں وزن نہیں ہے کہ اس رپورٹ سے لوگوں کی ٹیکس ریٹرن پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس بات پر کون یقین کرے گا۔ لوگ یہی سمجھیں گے ایف بی آر اس رپورٹ کو بعد ازاں کلائنٹ کی ٹیکس ریٹرن کو چیک کرنے کے لیے بھی استعمال کرے گا۔ میں سمجھتا ہوں رئیل اسٹیٹ ڈیلرز کی اس تجویز میں وزن ہے کہ ملک بھر میں رئیل اسٹیٹ کی خریداری کے ساتھ ایک فارم بنایا جائے جس میں خریدار اور فروخت کنندہ سے فیٹف کے لیے درکار تمام ضروری معلومات لی جائیں۔ لیکن رئیل اسٹیٹ ڈیلر کو تھانیدار نہ بنایا جائے۔
بیچارے رئیل اسٹیٹ ڈیلر کو کیسے تھانیدار بنایا جا سکتا۔ ملک بھر میں رئیل اسٹیٹ کی ایف بی آر اور ڈی سی ریٹس اور مارکیٹ ریٹس میں بہت فرق ہے۔ خریدار ٹیکس ایف بی آر اور ڈی سی ریٹ پر ادا کرتا ہے جب کہ قیمت مارکیٹ ریٹ کی ادا کرتا ہے۔ ایسے میں بیچارا رئیل اسٹیٹ ڈیلر کیا رپورٹ دے کہ کس پراپرٹی کا کتنے میں سودا ہوا ہے۔ کس نے کس کو کتنی رقم دی ہے۔ اس طرح تو بیچارے رئیل اسٹیٹ ڈیلر کا کام ہی ختم ہو جائے گا۔
فیٹف کو شائد پاکستان میں رئیل اسٹیٹ کے کام میں موجود پیچیدگیوں کا انداذہ نہیں۔ انھوں نے پاکستان کے رئیل اسٹیٹ ڈیلر کو بھی مغرب کا رئیل اسٹیٹ ڈیلر ہی سمجھاہے۔ جہاں رئیل اسٹیٹ ڈیلر کو ٹرانسفر جیسے اختیارات بھی حاصل ہیں۔ وہ رجسٹرڈ ہے۔ اس کو حکومت باقاعدہ لائسنس جاری کرتی ہے۔ پاکستان میں تو ایسا کچھ نہیں۔ یہاں تو جس کے پاس کوئی کام نہیں وہ رئیل اسٹیٹ کی دکان کھول لیتا ہے۔ یہاں کسی کے پاس کوئی کمپیوٹر نہیں۔ بس نقد کمیشن لی۔ ایسے میں فیٹف کی اس قانون سازی پر عمل کیسے ممکن ہے۔ رئیل اسٹیٹ ڈیلرز شائد ٹھیک پریشان ہیں۔
لیکن ایف بی آر ان کی پریشانی سمجھنے کے بجائے ان کو اس قانون پر عمل کرنے پر مجبورکر رہا ہے۔ دیکھنے کی بات ہے کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے۔ مجھے تو اس قانون پر عملداری ممکن نظر نہیں آرہی۔ حکومت کو رئیل اسٹیٹ ڈیلرز کی تجاویز پر مشتمل قانون سازی کرنی چاہیے تا کہ کام ہو سکے اور فیٹف کی شرائط پوری کر سکیں۔ ورنہ پاکستان کا فیٹف سے نکلنا مشکل ہو جائے گا اور ملک میں کاروبار کرنا بھی ایک درد سر بن جائے گا۔