بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد پاکستان کی درخواست پراقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا اجلاس ہوا ہے۔ پاکستان کا موقف ہے کہ پچاس سال بعد اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کا کشمیر پر اجلاس پاکستان کی سفارتی فتح ہے۔ پاکستان نے کامیاب سفارتکاری سے مسئلہ کشمیر بین الا قوامی سطح پر اجاگر کر دیا ہے اور اب یہ دوبارہ عالمی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ لہذا سیکیو رٹی کونسل کا اجلاس ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ اجلا س کے بعد چینی مندوب کی گفتگو پاکستانی موقف کی کھلی حمایت ہے۔ اقوام متحدہ کی نیوز ایجنسی نے بھی تصدیق کہ اجلاس کشمیر کے بارے میں تھا۔ یہ بھی ہماری جیت ہے۔
ادھر بھارت کا موقف بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ بھارت کا موقف درست ہے۔ لیکن بھارت کا موقف سمجھنے کی ضرورت ہے تا کہ اس کا بھی توڑ کیا جا سکے۔ بھارت کا پہلا موقف تو یہ ہے کہ اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے کشمیر میں بھارتی اقدامات کی کوئی مذمت نہیں کی ہے۔ ان اقدامات کو واپس لینے کے لیے بھی نہیں کہا۔ یوں دیکھا جائے تو اقوام متحدہ سیکیو رٹی کونسل نے بھارتی اقدامات کی توثیق کی ہے۔ سیکیورٹی کونسل نے مقبوضہ کشمیر سے کرفیو ختم کرنے اور نہ ہی گرفتار افراد کی رہائی کے لیے کہا ہے۔ اس تناظر بھارت ایک جانب اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کے اجلاس کے انعقاد کو اپنی ناکامی مان رہا ہے لیکن اس اجلاس کے نتائج کو کامیابی قرار دے رہاہے۔
پاکستان مسئلہ کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے تناظر میں حل کرنے کا خواہاں ہے۔ لیکن اس ضمن میں بھارت کی چال بھی سمجھنے کی ضرورت ہے۔ بھارت کہتا ہے کہ مسئلہ کشمیر پہلے پاکستان اور بھارت کے درمیان اقوام متحدہ کے تحت حل کرنے پر اتفاق ہوا، دونوں اقوام متحدہ گئے اور وہاں سے قرادادوں کے ذریعے حل تجویز ہوا۔ تا ہم 1972ء میں شملہ معاہدہ کے تحت یہ طے کر لیا کہ پاکستان اور بھارت کشمیر سمیت تمام معاملات باہمی مذاکرات سے حل کریں گے۔ یوں جب نیا معاہدہ ہو جائے تو پرانا معاہدہ ختم ہو جاتا ہے۔ یہ ممکن نہیں کہ شملہ معاہدہ بھی رہے اور اقوام متحدہ کی قراردادیں بھی عمل میں رہیں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ بھارت کا موقف درست ہے لیکن بھارتی چالوں کو سمجھ کر اس کی دلیل ختم کرنے کی ضرورت ہے۔
میری رائے میں مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے حا لیہ اقدامات کے بعد شملہ معاہدہ ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ شملہ معاہدہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ معاہدہ دونوں ممالک پاکستان اور بھار ت کی پارلیمنٹ کی توثیق سے عمل میں آیا تھا۔ لیکن اب جب بھارت کی پارلیمنٹ نے مقبوضہ کشمیر میں آرٹیکل 370اور 35 -Aکو ختم کرنے کے حو الے سے ترامیم منظور کر لی ہیں تو جواب میں پاکستان کی پارلیمنٹ کو بھارت کے ساتھ شملہ معاہدہ ختم کرنے کی قرادداد متفقہ طور پر منظور کر کے شملہ معاہدہ ختم کرنے کا اعلان کر دینا چاہیے۔ بھارتی پارلیمنٹ کے اقدامات کا جواب یہی بنتا ہے۔ شملہ معاہدہ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ
That the two countries are resolved to settle their differences by peaceful means through bilateral negotiations or by any other peaceful means mutually agreed upon between them. Pending the final settlement of any of the problems between the two countries، neither side shall unilaterally alter the situation and both shall prevent the organization، assistance or encouragement of any acts detrimental to the maintenance of peaceful and harmonious relations;
اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارتی پارلیمنٹ کے اقدامات شملہ معاہدہ کی واضح خلاف ورزی ہیں۔ ایک طرفٖ بھارتی پارلیمنٹ نے شملہ معاہدہ کی توثیق کی ہوئی ہے۔ اب انھوں نے خود ہی شملہ معاہدہ کی خلاف ورزی کر دی ہے۔ اس لیے اس کے بعد شملہ معاہدہ کو ختم کرنے کا واضح جواز موجود ہے۔ اسی طرح شملہ معاہدہ میں لکھا ہوا ہے۔
In Jammu and Kashmir، the line of control resulting from the cease-fire of December 17، 1971 shall be respected by both sides without prejudice to the recognized position of either side. Neither side shall seek to alter it unilaterally، irrespective of mutual differences and legal interpretations. Both sides further undertake to refrain from the threat or the use of force in violation of this Line.
بھارت کے حالیہ اقدامات بھی شملہ معاہدہ کی اس شق کی و اضع خلاف ورزی ہیں۔ اسی طرح روزانہ لائن آف کنٹرول پر بھارت کی جانب سے گولہ باری بھی شملہ معاہدہ کی خلاف ورزی ہے۔ جب بھارت سیز فائر کا احترام ہی نہیں کر رہا تو کس بات کا شملہ معاہدہ۔ کیا ہم نے شملہ معاہدہ صرف بھارت کو اقوام متحدہ سے راہ فرار حاصل کرنے کے لیے جواز فراہم کرنے کے لیے رکھا ہوا ہے۔
شملہ معاہدہ میں لکھا ہوا ہے کہ
That the pre-requisite for reconciliation، good neighbourliness and durable peace between them is a commitment by both the countries to peaceful co-existence، respect for each other’s territorial integrity and sovereignty and non-interference in each other’s internal affairs، on the basis of equality and mutual benefit;
کیا اس شق پر عمل ہوا ہے؟کیا شملہ معاہدہ کے بعد بھارت نے سیا چن پر پاکستانی علاقوں پر قبضہ نہیں کیا ہے؟ کیا سیاچن پر بھارت کی پیش قدمی شملہ معاہدہ کی خلاف ورزی نہیں تھی؟کیا بلوچستان میں بھارت نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کی؟ کیا گزشتہ سال 15اگست کو مودی کی تقریر جس میں اس نے بلوچستان کی بات کی شملہ معاہدہ کی خلاف ورزی نہیں تھی؟ کیا شملہ معاہدہ سرکریک کا معاملہ حل کر سکا ہے؟ آپ دیکھیں شملہ معاہد ہ کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بھی تنازعہ حل نہیں ہو سکا ہے۔
آپ دیکھیں اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل کی میٹنگ کے بعد روس کی وزیر خارجہ نے بھی ٹوئٹ کیا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو شملہ معاہدہ کی روشنی میں باہمی طور پر مذاکرات کرنے چاہیے۔ عمران خان اور ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ ٹیلی فون گفتگو کے بعد وائٹ ہاوس سے بھی جو پریس ریلیز جاری کیا گیا ہے اس میں پاکستان اور بھارت کو با ہمی مذاکرات کی بات کی گئی ہے۔ اس پریس ریلیز کے مطابق ٹرمپ ثالثی سے بھاگ گئے ہیں۔ دنیا کے دیگر ممالک جن میں امت مسلمہ کے ممالک بھی شامل ہیں وہ بھی شملہ معاہدہ اور با ہمی مذاکرات کا درس دیتے ہیں۔ اس لیے شملہ معاہد ہ سفارتی محاذ پر پاکستان کے گلے پڑ چکا ہے۔ اس سے جان چھڑانے میں ہی ملکی مفاد ہے۔
دو ملکوں کے درمیان کسی معاہدے کی منسوخی کوئی دنیا میں پہلا یا انوکھا واقعہ نہیں ہوگا۔ ممالک معاہدے کرتے بھی ہیں اور انھیں وقت کے ساتھ جب محسوس کرتے ہیں کہ یہ معاہدہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوا اس سے نکل بھی جاتے ہیں۔ دنیا میں ان گنت مثالیں موجود ہیں۔ جس طرح بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں ایٹمی دھماکے کرنے کا وہی بہترین وقت تھا۔ اس کے بعد شائد دنیا ہمیں ایٹمی دھماکے کرنے اجازت نہ دیتی۔ اسی طرح بھارتی پارلیمنٹ کے اقدامات کے جواب میں پاکستان کی پارلیمنٹ کو کچھ کرنا چاہیے۔ یہی اس کا بہترین وقت ہے۔ اس کے بعد یہ موقع دوبارہ نہیں ملے گا۔ ماہر ین قانو ن کے مطابق جب کسی معاہدے کی ایک شق کی خلاف ورزی ہو جائے تو اسے پورے معاہدے کی خلاف ورزی تصور کیا جاتا ہے۔ یہاں تو شملہ معاہدہ کی ہر شق کی خلاف ورزی ہو چکی ہے۔