یہ سوال اہم نہیں ہے کہ کیا تاجروں کی ہڑتال کامیاب رہی کہ نہیں۔ یہ سوال بھی اہم نہیں ہے کہ کیا ہڑتال سے اپوزیشن کو فائدہ ہوا کہ نہیں۔ سوال یہ اہم ہے کہ کیا حکومت ٹیکس اصلاحات سے بھاگ رہی ہے۔ سوال یہ اہم ہے کہ کیا حکومت تاجروں کے سامنے سرنڈر کر رہی ہے۔
سوال یہ اہم ہے کہ کیا مشرف نواز شریف اور بے نظیر بھٹو کی طرح عمران خان بھی تاجروں کے سامنے سرنڈر کر دے گا۔ سوال یہ اہم ہے کہ کیا تاجروں کی ہڑتال کی طاقت کے سامنے ریاست کمزور تھی اور کمزور ہے۔ سوال یہ اہم ہے کہ کیا اس ملک کے تاجر یہ طے کریں گے کہ انھوں نے کتنا اور کیسے ٹیکس دینا ہے۔ یا یہ اختیار ریاست کے پاس ہوگا۔
عمران خان پہلے حکمران نہیں ہوںگے جو تاجروں کی ہڑتال کے سامنے سرنڈر کر رہے ہیں۔ اس سے پہلے مشرف نے جب رجسٹریشن کا فیصلہ کیا تھا تو تب بھی تاجروں کی اسی ہڑتال کے سامنے سرنڈر کر دیا تھا۔ نواز شریف نے بھی تاجروں سے ٹیکس لینے کی کوشش کی لیکن ہڑتالوں کا خوف اسے لے بیٹھا۔ بے نظیر بھٹو نے بھی کوشش کی لیکن وہ بھی ناکام رہیں۔ اس ضمن میں سیاسی محرکات بھی دلچسپ رہے ہیں۔
مشرف کو یہ خوف تھا کہ تاجر نواز شریف کا ووٹ بینک ہیں۔ اگر تاجروں کو چھیڑا گیا تو نواز شریف کی سیاست زندہ ہو جائے گی۔ نواز شریف کی جماعت کو ملک میں احتجاجی تحریک چلانے کا موقع مل جائے گا۔ نواز شریف کے خوف میں مشرف تاجروں کے سامنے سرنڈر کر گئے۔
بے نظیر بھٹو بھی تاجروں کو نواز شریف کا سپورٹ کیمپ سمجھتی تھیں۔ اس لیے نواز شریف سے سیاسی محاذ آرائی میں تاجروں سے بلیک میل ہوتی رہیں۔ نواز شریف کو بھی یہی سمجھایا جا تا رہا کہ یہ تاجر تمھارا ووٹ بینک ہیں۔ اگر تم تاجروں کو ناراض کر دو گے تو تمھارا ووٹ بینک ناراض ہو جائے گا۔ اس لیے کچھ بھی کرنا لیکن تاجروں کو ناراض نہیں کرنا۔ عمران خان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نہ تو تاجر اس کا سپورٹ کیمپ ہیں۔ تاجروں نے نہ کبھی پہلے عمران خان کو ووٹ دیا تھا اور نہ آیندہ کبھی عمران خان کو ووٹ دیں گے۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ تاجروں کی ہڑتال سے اپوزیشن کی سیاست کو فائدہ ہو رہا ہے۔ تاجروں کی ہڑتال سے اپوزیشن کی مردہ تحریک میں جان آجائے گی۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ جب بار بار مجھے یہ بتایا جاتا ہے کہ ملک کی تاریخ میں پہلی با ر حکومت اور ادارے ایک پیج پر ہیں۔ ریاست اور حکومت قدم سے قدم ملا کر چل رہے ہیں۔ جب یہ بتایا جاتا ہے کہ احتساب کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں برداشت کی جائے گی۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ چاہے کوئی کتنا بھی مقبول ہو اسے جیل بھیجا جا سکتا ہے۔ جب یہ کہا جا تا ہے کہ ریاست کسی سے بھی بلیک میل نہیں ہو گی۔ جب حکومت کا یہ موقف ہے کہ وہ احتساب کے نرغے میں پھنسے اپوزیشن رہنماؤں سے بات نہیں کرے گی۔ تب پھر تاجروں کے سامنے یہ کمزوری کیوں دکھائی جا رہی ہے۔
ایک اور رائے بھی بہت مضبوط رہی ہے کہ تاجر وں کو ناراض کیا تو ملکی معیشت بیٹھ جائے گی۔ لیکن عمران خان کو اس سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ آج تو ملکی معیشت مکمل طور پر بیٹھ چکی ہے۔ سب کہہ رہے ہیں کہ معیشت کا پہیہ بیٹھ گیا ہے۔ ترقی کی شرح گر چکی ہے۔ ٹیکس محصولات کم ترین سطح پر پہنچ گئی ہیں۔ اب اس موقعے پر یہ بلیک میل نہیں کیا جا سکتا کہ ملکی معیشت بیٹھ جائے گی۔ ترقی کی شرح کم ہو جائے گی۔ اس لیے تاجروں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کا یہ بہترین موقع ہے۔ عمران خان کی حکومت ملکی معیشت کو پہلے ہی تباہی کے دہانے پر لاچکی ہے کہ اب اس بات کا خوف نہیں ہونا چاہیے کہ تاجروں کو ناراض کرنے سے معیشت تباہ ہو جائے گی۔ بھائی اس سے زیادہ کیا تباہ ہوگی۔ اب تو بہتر ہی ہو سکتی ہے۔
مجھے اس بات کا شدید دکھ ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے ٹیکس اصلاحات اور ٹیکس رجسٹریشن جیسے اہم معاملات پر تاجروں سے مذاکرات کیے ہیں۔ وزرا کی ٹیموں نے تاجروں سے معاہدہ کیے ہیں۔ انھیں منانے کی کوشش کی گئی ہے۔ کیوں؟ جب یہ حکومت اپنے سیاسی حریفوں سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ تو یہ ٹیکس سے بھاگنے والے تاجروں سے مذاکرات کیوں کیے جا رہے ہیں۔ ان سے معاہدہ کیوں کیے جا رہے ہیں۔ حکومت کو کس بات کا خو ف کھائے جا رہا ہے۔
یہ تاجر نواز شریف کے نہیں ہوئے ہیں۔ تو عمران خان کے بھی نہیں ہوں گے۔ عمران خان کی حکومت کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کی ہڑتالیں اپوزیشن کی تحریک کو زندگی نہیں بخش سکتی ہیں۔ یہ درست ہے کہ اس وقت اپوزیشن کی تمام جماعتیں تاجروں کے ساتھ آکر کھڑی ہو گئی ہیں۔ سب سمجھ رہی ہیں کہ تاجروں کی یہ تحریک ان کے سیاسی مقاصد پورے کرنے میں مدد دے گی۔ سب کا خیال ہے کہ تاجروں اور دیگر کاروباری طبقوں کے ذریعے وہ اپنی تحریک کو جلدی کامیاب کر سکتے ہیں۔
شاید اسی لیے شہباز شریف حکومت کو میثاق معیشت کی پیشکش کر رہے تھے۔ یہ درست ہے کہ اگر حکومت نے ٹیکس اصلاحات کرنی تھیں تو اسے اپوزیشن کے ساتھ ملکر ایک میثاق معیشت پر دستخط کرنے چاہیے تھے۔ تا کہ آج اس میثاق سے ان ٹیکس اصلاحات کو ایک قومی ایجنڈے کی حیثیت حاصل ہوتی۔ لیکن حکومت نے اپنی سیاسی ہٹ دھرمی سے وہ سنہر ی موقع کھو دیا ہے۔ اب میثاق معیشت شہباز شریف کے بھی بس میں نہیں ہے۔ لیکن ریاست آج بھی یہ کام کر سکتی ہے۔
اگر سانحہ اے پی ایس کے بعد حکومت اور اپوزیشن نیشنل ایکشن پلان پر متفق ہو سکتی ہیں۔ اگر کنٹینر پر بیٹھی اپوزیشن نیشنل ایکشن پلان کے لیے وزیر اعظم ہاؤس پہنچ سکتی ہے تو آج ملک میں ٹیکس اصلاحات کے لیے حکومت اور اپوزیشن کو ایک میز پر کیوں نہیں بٹھایا جا سکتا۔ کیا یہ کام صرف دہشت گردی کے خلاف ہو سکتا ہے۔ اگر کل حکومت اور اپوزیشن ملک میں دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے اکٹھے ہو گئے تھے۔ تو آج ملک میں معیشت کے لیے کیوں اکٹھے نہیں ہو سکتے۔
آپ کہہ سکتے ہیں کہ اس طرح احتساب پیچھے چلا جائے گا۔ حکومت اور اپوزیشن ایک میز پر بیٹھ گئے تو احتساب کا کیا ہوگا۔ میں کہتا ہوں کہ احتساب نہیں ٹیکس اصلاحات ملک کے لیے ضروری ہیں۔ احتساب بھی ضروری ہے لیکن احتساب سے ملک کے مسائل نہیں حل ہوںگے۔ بلکہ ٹیکس اصلاحات سے ملک کے مسائل حل ہوںگے۔ اگر آج ہم اپنی معیشت سے چور بازاری ختم کرنے میں کامیاب ہو گئے تو پاکستان بچ جائے گا۔ ہم نے ماضی میں سیاستدانوں کو پھانسیاں لگا کر بھی دیکھ لیا ہے۔ اور جلا وطن کر کے بھی دیکھ لیا ہے۔ اس سے ملک کو فائدہ کم اور نقصان زیادہ ہوا ہے۔
ویسے تو اس حکومت میں اتنی طاقت ہے کہ اس کو کسی سے بات کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ زرداری اور نواز شریف کو بیک وقت جیل میں رکھ سکتی ہے۔ لیکن پھر بھی ٹیکس اصلاحات کے لیے حکومت اپوزیشن سے بات کر لے۔ یہی ملکی مفاد ہے۔ عمران خان اور ان کی حکومت کو سیاسی مفادسے بالاتر ہو کر قومی مفاد میں فیصلے کرنے چاہیے۔ شناختی کارڈ اور ٹیکس رجسٹریشن کا کام کرنا چاہیے، یہ وہ کام ہے جس پر اس حکومت کے ناقد بھی اس حکومت کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے۔