الیکشن کمیشن پاکستان نے یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ سیٹ جیتنے کے انتخابی نتائج روکنے کی درخواست خارج کر دی۔ اس درخواست کے خارج ہونے پر ملک میں ایک شور برپا کیا جا رہا ہے کہ الیکشن کمیشن نے حکمران جماعت کے ساتھ بہت زیادتی کر دی ہے۔
سوشل میڈیا اور ٹاک شوز میں ایک بیانیہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ الیکشن کمیشن نے ڈسکہ کے انتخابی نتائج تو فوری منسوخ کر دیے جب کہ یوسف رضا گیلانی کے انتخابی نتائج منسوخ نہیں کیے جا رہے ہیں۔ کیا یہ کھلا تضاد نہیں ہے۔ ایک رائے بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ دونوں کیس ایک ہی نوعیت کے ہیں لیکن فیصلے الگ الگ جاری کیے جا رہے ہیں۔ جو انصاف کے وہرے معیار کو ظاہر کرتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں یہ غلط ہے۔ حکمران جماعت جان بوجھ کر الیکشن کمیشن کو متنازعہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ڈسکہ اور یوسف رضا گیلانی کے مقدمات کا آپس میں کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔ ڈسکہ میں 22پولنگ اسٹیشن کا انتخابی عملہ ہی غائب ہو گیا تھا۔ اسے عرف عام میں اب کہا جا رہا ہے کہ وہ سب دھند میں غائب ہو گئے تھے۔ جب کسی بھی انتخابات میں 22پولنگ اسٹیشن کا نتیجہ پولنگ اسٹیشن سے ریٹرننگ افسر تک پہنچنے کے دوران غائب ہو جائے تو انتخابی نتائج ملتوی کرنے کے سوا کیا چارہ رہ جاتا ہے۔
جب الیکشن کمیشن ساری رات انتظامی ذمے داران کو فون کرتا رہے کہ میرا عملہ غائب ہو گیا ہے اور وہ فون بھی نہ سنیں تو کیا الیکشن کمیشن انتخابی نتائج جاری کر دیتا۔ یہ درست ہے کہ 2018 کے انتخابات میں الیکشن کمیشن کا آر ٹی ایس بیٹھ گیا تھا۔ اور آج تک کسی کو بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ وہ آرٹی ایس کیسے اور کیوں بیٹھ گیا تھا۔ لیکن پھر بھی انتخابی نتائج جاری کردیے گئے تھے۔ اور شائد تحریک انصاف کی خواہش تھی کہ اب بھی اسی طرح اسی روایت کے مطابق انتخابی نتائج جاری کر دیے جائیں۔ لیکن کیا تب ٹھیک ہوا تھا یا اب ٹھیک ہوا ہے۔
ڈسکہ میں مسلم لگ (ن) کی انتخابی امیدوار پہلے ہی دن تمام شواہد کے ساتھ الیکشن کمیشن میں پیش ہوئیں۔ جب کہ تحریک انصاف کے امیدوار کے پاس کسی بھی بات کا کوئی جواب ہی نہیں تھا۔ اسی طرح تحریک انصاف نے خود مان لیا تھا کہ دھاندلی ہوئی ہے جب انھوں نے کہا کہ اگر 22پولنگ اسٹیشن جن کا عملہ غائب ہو گیا تھا وہاں اگر دوبارہ پولنگ کروا لی جائے تو انھیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس طرح دوبارہ پولنگ کا عندیہ خود تحریک انصاف نے دے دیا تھا۔ بات آج تک سمجھ نہیں آئی کہ جب آپ خود 22پولنگ اسٹیشن پر دوبارہ انتخابات کے حامی تھے تو پورے حلقہ میں دوبارہ انتخابات پر کیا اعتراض ہے۔
لیکن کیا یوسف رضا گیلانی کے انتخاب میں کوئی انتخابی عملہ غائب ہو گیا تھا۔ کوئی فارم 45کا مسئلہ تھا۔ کوئی رزلٹ تاخیرکا شکار ہوا۔ کیا تحریک انصاف کو پولنگ کے عمل پر شکایت ہے۔ کیاکوئی دھند میں غائب ہو گیا تھا۔ کیا تحریک انصاف نے موقع پر دوبارہ گنتی کی درخواست کی توان کی درخوست پر دوبارہ گنتی نہیں کی گئی۔ کیا تحریک انصاف کا یہ موقف ہے کہ ان کے جو ووٹ مسترد ہوئے ہیں وہ غلط مسترد ہوئے ہیں۔ نہیں ایسا نہیں ہے۔ تحریک انصاف کو الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات کروانے کے کسی عمل پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس لیے ڈسکہ اور یوسف رضا گیلانی کے کیسز کا موازنہ غلط کیا جا رہا ہے۔
تحریک انصاف کا موقف ہے کہ یوسف رضا گیلانی نے ووٹ خریدے ہیں۔ انھوں نے ارکان کو پیسے دیکر ووٹ حاصل کیے ہیں جو انتخابی قواعد کی خلاف ورزی ہے۔ اس لیے انتخابی نتیجہ کو روک دیا جائے۔ اب تحریک انصاف کے پاس اپنی اس درخواست کے حق میں آڈیو اور ویڈیو ٹیپ موجود ہیں۔ تحریک انصاف نے الیکشن کمیشن میں جو درخواست دائر کی اس میں ویڈیو میں موجود اپنے مخالفین کو تو پارٹی بنایا گیا لیکن ان ویڈیو اور آڈیو میں موجود اپنے ارکان کو پارٹی نہیں بنایا۔
تحریک انصاف ایک شعوری کوشش کر رہی تھی کہ اپنے ارکان کو تو بچا لیا جائے اور مخالفین کو پھنسا لیا جائے۔ الیکشن کمیشن نے کیا کہا ہے۔ انھوں نے سادہ سی بات کی ہے کہ رشوت لینے اور دینے والا دونوں ہی گناہ گار ہیں۔ دونوں کو برابر سزا ملے گی۔ اس لیے آپ اپنی درخواست میں ان ارکان کو بھی فریق بنائیں جنھوں نے آپ کے بقول پیسے لیے ہیں۔ اور اگر کوئی رکن بیان حلفی پر یہ کہ دے کہ مجھے پیسے دیے گئے ہیں تو اپنی بات کے حق میں وہ بیان حلفی بھی لائیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ الیکشن کمیشن ٹھیک بات کہہ رہا ہے کہ جب تک پیسوں کا لین دین ثابت نہ ہوجائے تب تک انتخابی نتائج کیسے روکے جا سکتے ہیں۔ کیا الیکشن کمیشن کا یہ موقف غلط ہے کہ تحریک انصاف دونوں کو سامنے لائے۔ ویسے تو مجھے اس بات پر بھی حیرانی ہے کہ ابھی تک حفیظ شیخ نے خود کوئی درخواست الیکشن کمیشن میں دائر نہیں کی ہے۔ انھوں نے تو اس دن یوسف رضا گیلانی کو جیت پر مبارکباد دی جس کو سب نے دیکھا ہے۔ اگر حفیظ شیخ انتخابی نتائج مان رہے ہیں تو باقی سب کیسے چیلنج کر سکتے ہیں۔ لیکن اس بات کے قطع نظر اس حد تک بھی تو بات ٹھیک ہے ویڈیو اور آڈیو کے باقی کرداروں کو بھی سامنے لایا جائے۔ لیکن تحریک انصاف کا موقف ہے کہ وہ سب معصوم ہیں صرف یوسف رضا گیلانی کے خلاف کارروائی کی جائے۔
اسی طرح ایک اور کیس دیکھتے ہیں۔ جہاں اس بات پر بہت شور ہے کہ الیکشن کمیشن نے یوسف رضا گیلانی کے انتخابی نتائج روکنے سے انکار کر کے بہت جانبداری کا ثبوت دے دیا ہے۔ وہاں یہ کوئی نہیں بتا رہا ہے کہ اسی الیکشن کمیشن نے فیصل واوڈا کے انتخابی نتائج روکنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔
حالانکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو ہی ان کے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن نے اس کے باوجود فیصل واوڈا کے انتخابی نتائج روکنے سے انکار کر دیا۔ اگر یوسف رضا گیلانی کا فیصلہ غلط ہے تو پھر فیصل واوڈا کا فیصلہ بھی غلط ہے۔ لیکن اس پر تحریک انصاف کوئی بات نہیں کر رہی ہے کیونکہ یہ ان کے حق میں آیا ہوا فیصلہ ہے۔ اس لیے قابل قبول ہے۔ یوسف رضا گیلانی کے دوبارہ جیتنے کے بھی واضح امکانات موجود ہیں۔ کیونکہ جس طرح اعتماد کا ووٹ لیا گیا ہے۔ اس نے حکومت کی کمزوری کو مزید واضح کر دیا ہے۔
کیا تحریک انصاف کو ایسا الیکشن کمیشن چاہیے جو صرف اس بات کی سنے اور اس کے حق میں ہی فیصلے کرے۔ شاید حالات بدل گئے ہیں۔ ورنہ پہلے تو ایسا ہی ہو رہا تھا۔ اس لیے تحریک انصاف کی تکلیف کوئی بے معنی نہیں ہے۔ ایک رائے یہ بھی ہے کہ تحریک انصاف الیکشن کمیشن کو دباؤ میں لانا چاہ رہی ہے۔ تا کہ الیکشن کمیشن میں زیر سماعت دیگر معاملات کو کنٹرول میں رکھا جا سکے۔
فارن فنڈنگ کا معاملہ سب کہتے ہیں بہت سنگین ہے۔ پہلے عمران خان کہہ رہے تھے میرے ہاتھ صاف ہیں۔ پہلا الیکشن کمشنر میرے خلاف تھا اس لیے حکم امتناعی لیتا تھا۔ لیکن اب تحقیقات ہو جائیں مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے۔ تاہم شنید یہی ہے کہ دوبارہ تحقیقات رکوانے کے راستے ڈھونڈے جارہے ہیں۔ شاید سارا کھیل اس کے لیے ہے۔ باقی سب تو چھوٹے موٹے معاملے ہیں۔