گزشتہ دس دن سے میڈیا میں ایک طوفان گردش کر رہا ہے کہ عثمان بزدار کو تبدیل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔ ہر تجزیہ نگار تبدیلی کی نوید سنا رہا ہے۔ وزارت اعلیٰ کا خواب دیکھنے والوں سب نے شیروانیاں سجا لی ہیں۔ گو عمران خان نے بزدار پر اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔ لیکن میڈیا کا طوفان تھم نہیں رہا ہے۔
بزدار میدان سیاست میں تنہا نظر آتے ہیں۔ عثمان بزدار کو کیوں ہٹا یا جا رہا ہے۔ عمومی جواب یہ ہے کہ ان کی کارکردگی ٹھیک نہیں ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ کیا باقی تحریک انصاف کی کارکردگی بہت اعلیٰ جا رہی ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا مرکزی حکومت بہت شاندار چل رہی ہے اور پنجاب میں کام ٹھیک نہیں چل رہا۔ سوال یہ بھی ہے کہ وزیر اعلیٰ کے پی نے کون سے تیر مار لیے ہیں جو عثمان بزدار نہیں ما رسکے۔ بلوچستان کے حالات بھی سب کے سامنے ہیں۔ ساری بری کارکردگی کا ذمے دار عثمان بزادر کو کیسے ٹھہرا یا جا سکتا ہے۔ کیا مہنگائی کا ذمے دار عثمان بزدار ہے۔ کیا مہنگی بجلی گیس پٹرول کا ذمے دار عثمان بزدار ہے۔
کیا ڈالر مہنگا ہونے کا ذمے دار بھی عثمان بزدار ہے۔ کیا گیس کے متنازعہ آرڈیننس کا ذمے دار بھی عثمان بزدار ہے۔ تھانہ کلچر اور پولیس ریفارمز کی بات ہو رہی ہے لیکن کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ تحریک انصاف کے سپر اسٹار ناصر درانی پنجاب میں پولیس ریفامرز کرنے سے پہلے کیوں چلے گئے۔ کیا اس کی ذمے داری بھی عثمان بزدار کی ہے۔ کیا اس ضمن میں تحریک انصاف کے تھنک ٹینک کا کوئی قصور نہیں۔ کیا اکیلا عثما ن بزدار پنجاب میں پولیس ریفامرز کی راہ میں رکاوٹ ہے۔
کہا جا رہا ہے کہ عثمان بزدار کو تجربہ نہیں ہے۔ انھیں براہ راست وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا ہے۔ ایسے میں سوال یہ ہے کہ عمران خان کو بھی کوئی تجربہ نہیں ہے۔ انھیں بھی براہ راست وزیر اعظم بنا دیا گیا ہے۔ عثما ن بزدار تو اس سے پہلے دو دفعہ تحصیل ناظم رہے ہیں۔ لیکن عمران خان تو یونین کونسل کے ناظم بھی نہیں رہے ہیں۔ نعیم الحق کو کونسا وزیر اعظم ہاؤس چلانے کا وسیع تجربہ ہے۔ وہ بھی تو پہلی دفعہ وزیر اعظم ہاؤس چلا رہے ہیں۔ فواد چوہدری کو وزیر رہنے کا کتنا وسیع تجربہ ہے۔ سارے ہی پہلی دفعہ بنے ہیں پھر عثمان بزدار پر اعتراض کیوں۔ ویسے بھی اگر عثمان بزدار کے پنجاب اور مرکزی حکومت کا موازنہ کیا جائے تو پنجاب میں کوئی بڑا اسکینڈل نہیں ہے۔ کوئی بڑا بلنڈر نہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا عثمان بزدار کو تبدیل کیا جا رہا ہے۔ دوست کہتے ہیں یہ چٹکی کا کام ہے۔ لیکن میری رائے میں یہ بہت مشکل کام ہے۔ دوستوں کی رائے میں ایک اشارے میں یہ کام ہو جائے گا۔ میری رائے میں اشارہ تو دور کی بات ہے اس کے لیے وسیع سیاسی جادوگری کرنی ہوگی۔ جو فی الحال ممکن نہیں ہے۔ دوستوں کی رائے میں سب تیاری ہے۔ میری رائے میں ابھی تیاری شروع ہی نہیں ہوئی ہے۔ دوست اور میرے درمیان اس اختلاف کو پاکستان کی سیاسی تاریخ کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ دوست کہتے ہیں کہ اداروں کی حمایت کی وجہ سے یہ ایک مضبوط حکومت ہے۔ کسی کو چوں کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ میں کہتا ہوں کہ یہ حکومت پرویز مشرف کی حکومت سے تو مضبوط نہیں ہے۔
وہ تو بلا شرکت غیر حکمران تھے۔ آپ دیکھیں جب انھوں نے میر ظفر اللہ جمالی کو تبدیل کرنا تھا تو انھیں پارلیمنٹ میں آکر بیٹھنا پڑا۔ سیاسی ملاقاتیں کرنا پڑیں۔ حالانکہ میر ظفر اللہ جمالی تو عثمان بزدار سے بھی کمزور تھے۔ تا ہم جمالی کو ہٹانا بھی کسی ایک اشارے سے ممکن نہیں تھا۔ اسی طرح محترمہ بینظیر بھٹو نے جب میاں منظور وٹو کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانا تھا تو انھیں لاہور اسٹیٹ گیسٹ ہاؤس میں کیمپ لگانا پڑا تھا۔ اس کے بعد بھی وہ اپنی مرضی کا وزیر اعلیٰ نہیں لا سکیں تھیں۔ سندھ میں قائم علی شاہ کو ہٹا کر مراد علی شاہ کو لانا اس لیے آسان تھا کیونکہ پیپلز پارٹی کو مکمل اکثریت حاصل تھی۔ تا ہم تحریک انصاف کو اس وقت پنجاب میں مکمل اکثریت حاصل نہیں ہے۔ یہاں سیاسی جوڑ توڑ کرنا ہوگا۔ جو ابھی نظر نہیں آرہا۔
کیا عثمان بزدار کو ہٹا کر دوبار ہ کسی ناتجربہ کار کو ہی وزیر اعلیٰ بنا دیا جائے گا۔ ایسا کرنے کا کیا فائدہ۔ تجربہ کار تو صرف پرویز الہیٰ ہیں۔ وہ تحریک انصاف میں نہیں ہیں۔ قیاس یہی ہے کہ پرویز الٰہی کودوستوں کی حمایت بھی حاصل ہے۔
اس لیے یہ کہنا مشکل نہیں کہ اگر عثمان بزدار کو ہٹانے کی کوئی بھی کوشش کی گئی کہ تو پنجاب کا اگلا وزیر اعلی تحریک انصاف سے نہیں ہوگا۔ بلکہ اس تبدیلی کی کوشش میں پنجاب تحریک انصاف سے چلا جائے گا۔ کیا عمران خان کو یہ قبول ہے۔ مجھے لگتا ایسا نہیں ہے۔ اسی لیے تحریک انصاف کے اندر کے لوگ یہ بھی بتاتے ہیں کہ عمران خان کہتے ہیں کہ جب تک ملک میں تحریک انصاف کی حکومت ہے اور عمران خان وزیر اعظم ہیں عثمان بزدار وزیر اعلیٰ رہیں گے۔ اس لیے جب بھی تحریک انصاف کے نادان دوست عثمان بزدار کے خلاف سازش کرتے ہیں، تو ناکام ہو جاتی ہے۔ کیونکہ عمران خان اس سازش کو اپنے خلاف سازش سمجھتے ہیں۔ اور خود ہی اس کا دفاع ہیں۔ لوگ ان کی شرافت کو ان کا کمزور پہلو سمجھتے ہیں۔ لیکن اب تک یہی ان کی طاقت ہے۔ واقفان حال یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ میڈیا کا طوفان تھا۔ حقیقت میں کچھ تھا ہی نہیں۔ نہ دوست اور نہ ہی عمران خان کوئی بھی عثمان بزدار کو بدلنے کا سوچ ہی نہیں رہا۔ بس میڈیا کے شور نے ماحول بنایا ہے۔
کیا عثمان بزدار بچ گئے۔ عمومی سیاسی حالات ایسے لگ رہے ہیں کہ عثمان بزدار کے خلاف یہ سازش بھی ناکام ہو گئی ہے۔ عثمان بزدار کے خلاف یہ حملہ بھی ناکام ہو گیاہے۔ آپ اس کو ان کی قسمت بھی کہہ سکتے ہیں۔ لیکن میں سمجھتا ہوں کہ عثمان بزدار کو اپنی کارکردگی عوام کے سامنے لانی چاہیے۔ انھوں نے ایک سال میں جو کام کیا ہے۔ وہ عوام کے سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ ان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ تحریک انصاف میں عمران خان کے علاوہ کوئی بھی ان کا مقدمہ لڑنے کو تیار نہیں۔ اس لیے انھیں یہ کام بھی خو د ہی کرنا ہوگا۔ جنھوں نے کوئی کام نہیں کیا وہ میڈیا کے سامنے ہیرو بن جاتے ہیں۔ خیر عثمان بزدار نے کافی کام کیے ہیں۔ لیکن ان کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ وہ پھر بچ گئے ہیں۔ یہ کافی نہیں۔ ابھی مزید حملے ہونگے۔ لیکن عثمان بزدار بھی ان حملوں کے عادی ہو گئے۔ اور انھیں بچنا بھی آگیا ہے۔ طاقت کے ایوانوں کی چال وہ بھی سمجھ گئے ہیں۔ یہی ان کے مخالفین کو سمجھ نہیں آرہا۔