میں زمان پارک میں تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے گھر کے باہر ہزاروں اساتذہ کے ساتھ موجود تھا جو آٹھ سے دس برس تک محکمہ تعلیم میں ملازمت کرنے کے بعد حکومت سے پکا، ہونے کا حق مانگ رہے تھے۔ یہ وہ اساتذہ تھے جنہیں نیشنل ٹیسنٹنگ سروس کے ذریعے امتحان لے کر میرٹ پر بھرتی کیا گیا تھا جبکہ اس سے پہلے صرف سفارش چلتی تھی۔ ایس ایس ای موومنٹ پنجاب کے میڈیا کوارڈینیٹر ملک امانت بتا رہے تھے یہ ٹیچرز ایم فل اور پی ایچ ڈی ہیں اور اس مدت میں پچاس کے قریب اساتذہ انتقا ل کر چکے جس کے بعد ان کے بچے بے سہارا ہوکے رہ گئے کیونکہ نہ ان کے پاس جاب پروٹیکشن تھی، نہ انہیں پنشن ملی نہ ہی نوکری۔
یہ خوفزدہ ہیں کہ اگر ان میں سے کوئی زندگی کی بازی ہار گیا تو اس کے بچوں کا کیا بنے گا۔ میں ان سے پوچھ رہا تھا کہ اس سخت سردی میں انہیں معصوم بچوں کے ساتھ سڑک پر بیٹھنے کی کیا ضرورت پیش آ گئی، یہ احتجاج کسی بھلے موسم میں بھی ہوسکتا تھا، وہ بتار ہے تھے کہ قواعد کے مطابق سیکرٹری ایجوکیشن دس برس تک ان کے کنٹریکٹ بڑھا سکتا ہے اور وہ اس مدت تک پہنچ رہے ہیں۔ اب اگر حکومت نے انہیں ریگولر نہ کیا تو وہ سب اعلیٰ تعلیم یافتہ اور تجربہ کار اساتذہ اپنی ملازمتوں سے محروم ہوجائیں گے، انہیں کوئی دوسری ملازمت بھی نہیں مل سکے گی کیونکہ وہ اوور ایج ہوچکے ہیں۔
اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے سیانوں کے پاس بہت ساری تاویلیں ہوتی ہیں۔ میں نے یہ تاویلیں محکمہ صحت کی لیڈی ہیلتھ ورکرز سے محکمہ انہار کے ایک ڈیم کے برابر پانی بچانے والے محنت کشوں کے بارے سنی ہیں۔ ان ٹیچرز کے بارے بھی کہا جارہا ہے کہ وہ دوبارہ این ٹی ایس یا پنجاب پبلک سروس کمیشن کے ذریعے ٹیسٹ دے کر آجائیں۔ بظاہر یہ بات اچھی لگتی ہے کہ اپنی اہلیت ثابت کرو اور نوکری برقرار رکھو۔
یہ بھی دلیل ہے کہ اب حکومت نے یہ قانون بنا دیا ہے لہذا اس پر تو عمل ہوگا۔ خاتون ٹیچر فائزہ کے پاس حکومتی دلیل کا دلچسپ جواب تھا۔ انہون نے کہا، اگر آج حکومت یہ پالیسی بنا دے کہ بچے صرف دو ہی ہوں گے تو کیا جن کے پہلے تین، چار یا پانچ بچے ہوں گے تو ان بچوں کو نہیں رہنے دیا جائے گا۔ ہر پالیسی اپنی تشکیل اور نفاذ کے بعد ہی قابل عمل ہوتی ہے۔ کیا ہمیں جاب دیتے ہوئے کہا گیا تھا کہ آپ سے اتنی مدت کے بعد دوبارہ ٹیسٹ لے کر ہی ملازمت پر برقرار رکھا جائے گا، کیا یہ شرط باقی بیوروکریسی پر بھی عائد ہوتی ہے؟
کاشف شہزاد چوہدری بھی پنجاب ٹیچرز یونین کے صدر ہیں، وہ بتا رہے تھے کہ اس وقت پنجاب کے سکول سیکٹر میں اساتذہ کی خالی سیٹوں کی نعداد ایک لاکھ سے بھی زیادہ ہوچکی ہے مگر بھرتی نہیں کی جارہی۔ ایسے میں اگر یہ ایل فل اور پی ایچ ڈی اساتذہ بھی نوکریوں پر نہیں رہتے تو یہ بحران مزید سنگین ہوجائے گا۔ اس وقت ہمارے بہت سارے پرائمری سکول ایک یا دو اساتذہ کے ساتھ چل رہے ہیں بلکہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سکول ایجوکیشن مانیٹرنگ کی رپورٹ کے مطابق لاہور اور میانوالی سمیت تمام اضلاع میں بہت سارے سکول بغیر کسی استاد کے ہیں۔
اللہ رکھا گجر، اساتذہ کی ایک اور صوبائی تنظیم کے صدر ہیں۔ وہ مجھے کہہ رہے تھے کہ ان ٹیچرز میں سے ایک ایک سے جا کے پوچھوں، ان میں سے نوے اور پچانوے فیصد وہ ہیں جنہوں نے عمران خان کو تبدیلی کے نام پر ووٹ دئیے تھے مگر انہی کے دور میں ان کی آواز نہیں سنی جا رہی۔ مجھے اس پر کچھ برس پہلے پنجاب پروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسوسی ایشن کا دھرنا یاد آ گیا جو مال رود پر دیا گیا تھا، اس کے ساتھ ینگ ڈاکٹرز ایسوسی ایشن اور پی ایم اے والے بھی۔ یہ سب بھی تبدیلی کے بہت بڑے حامی تھے۔
ہمارے ڈاکٹرز تو نسخوں پر لکھ کر دیا کرتے تھے کہ دوا دو وقت کھاو اور بلے پر مہر لگا و مگر تبدیلی سرکار نے ان سب کو بے حد مایوس کیا۔ میں حیران ہو رہا تھاکہ جب اساتذہ نے ایوان وزیراعلیٰ کے باہر دھرنا دیا اوردسمبر کی آخری راتوں کی سخت سردی میں وہ سڑک پر گدے بچھا کے لیٹے ہوئے تھے تو پی ایچ اے کا ایک ٹرک آیا اور اس نے ان پر ٹھنڈا پانی چھوڑ دیا۔
ظاہر ہے کہ ا س ڈرائیور کو کسی نے بھیجا ہوگا جس کے بعد اساتذہ نے ایوان وزیراعلی کا دروازہ چھوڑا اور زمان پارک میں عمران خان کے گھر کے باہر کے آگئے کیونکہ پنجاب ٹیچرز یونین کے جنرل سیکرٹری رانا لیاقت جو کہ اساتذہ کی توانا آواز ہیں، انہوں نے بتایا کہ خیبرپختونخوااور سندھ میں ٹیچرز کو مستقل کیا جا چکا ہے مگرپنجاب والوں کے ساتھ مسلسل زیادتی ہور ہی ہے۔
تازہ ترین صورتحال یہ ہے کہ کئی روز تک کینال روڈپر دھرنا دینے کے بعد حکومت کی طرف سے انہیں لالی پاپ دیا گیا ہے کہ آپ کا معاملہ پیچیدہ ہے۔ ہمیں منگل تک سوچنے کا وقت دیں کیونکہ آپ کا مسئلہ حل کیا گیا تو باقی لوگ بھی اپنے مسائل کا حل مانگیں گے۔ ٹیچرز نے شدید سردی میں دیا گیا دھرنا ملتوی کر کے عقل مندی کامظاہرہ کیا ہے کیونکہ وہاں بہت ساری خواتین اپنے شیر خوار بچوں کے ساتھ موجود تھیں اور میں ڈر رہا تھا کہ خدانخواستہ کوئی نیا حادثہ نہ ہوجائے۔ لاہور ہائی کورٹ نے جب سے مال روڈ پر احتجاج پر پابندی لگائی ہے پہلے سول سیکرٹریٹ جو کہ ایوا ن عدل اور کچہری کے ساتھ واقع ہے، وہ احتجا ج کامرکز بنا اور اب کینال روڈ ٹارگٹ ہو رہی ہے۔
میں مظاہرین سے اکثر پوچھتا ہوں کہ آپ خود تکلیف میں ہیں مگر لاہوریوں کو کیوں تکلیف دیتے ہیں، سڑکیں کیوں بندکرتے ہیں تو جواب ملتا ہے کہ ہماری لائف لائن، ہمارا رزق بند ہو رہا ہے اور آپ کو سڑک بندہونا زیادہ برا لگ رہا ہے۔ میں اساتذہ سے یہ بھی پوچھتا ہوں کہ عام تاثر ہے کہ آپ لوگ سرکاری سکولوں میں پڑھاتے نہیں۔ خواتین ٹیچر ز تو خاص طور پر سردیوں میں پڑھانے کی بجائے مونگ پھلیاں اور کینو کھاتی نظر آتی ہیں تو جواب ملتا ہے کہ آپ ہمارے رزلٹ اور اے سی آرز دیکھ لیں، اب وہ باتیں نہیں ہیں، سخت پیرامیٹرز ہیں۔ کیا پاکستان میں شرح خواندگی ستر فیصد تک ہماری محنت اور کوششوں کے بغیر ہی پہنچ گئی ہے؟
بہرحال، حکمرانوں کویاددہانی ہے کہ وہ اساتذہ کے مسائل حل کریں۔ باقی رہ گئیں استاد کی عزت اوراحترام والی کہانیاں، اگر طاقتور لوگ اس پریقین رکھتے تو کیا وہ اساتذہ کو اتنے دن سڑکوں پر خجل خوار کرتے، کیا اس سے پہلے اسلام آباد میں ان پر شیلنگ اورلاٹھی چارج کرتے۔ ہمارے ہاں مظاہرے ہی مسائل کے حل کا واحد طریقہ ہیں کیونکہ اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے سیاستدان ہوں یا بیوروکریٹ، یہ سب طاقت کی زبان ہی سمجھتے ہیں اورخدا کی بجائے اسی کے سامنے سجدے کرتے ہیں، کہیں تو مثالیں دوں؟