یہ میرے صحافت کے ابتدائی دنوں کی بات ہے جب مجھے بہت سارے بڑے ناموں کے ساتھ اسلام آباد پشاور موٹروے کی افتتاحی تقریب کے لئے لاہور سے مدعو کیا گیا۔ اس وقت الیکٹرانک میڈیا نہیں ہوتا تھا اور پرنٹ میڈیا کے نام ہی بڑے نام ہوا کرتے تھے۔
میرے لئے یہ اعزاز کی بات تھی کہ میں پی سی پنڈی میں ان کے ساتھ قیام پذیر ہوا، ہمیں ترکی کے صدر کے طیارے میں ہی اسلام آباد سے افتتاح کے مقام تک جانا تھا، یہ صبح ائیرپورٹ روانگی سے پہلے ناشتے کی بات ہے جب میں نے ایک بڑے کالم نگار کو بزنس کے ایک انگریزی اخبار کی نوجوان خاتون رپورٹر کے ساتھ الگ میز پر بیٹھے ہوئے دیکھا۔ وہ اب وفات پا چکے ہوئے ہیں مگر میں اس کالم میں ان کے نام بھی نہیں لکھوں گا جو ابھی جسمانی طور پر زندہ ہیں۔ وہ کالم نگارملک کے سب سے بڑے اخبار میں بہت زیادہ پڑھے جانے والے لکھاری تھے، اسلام اور نظریہ پاکستان کے بہت بڑے داعی بھی تھے۔
میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ہر کسی کو کسی کے ساتھ دوستی اور بات چیت کا حق ہے مگر جہاں آپ کی ذات پر انگلیاں اٹھائی جارہی ہوں، آپ پر آوازے کسے جا رہے ہوں اور جگتیں لگائی جار ہی ہوں مگر آپ ڈھیٹوں کی طرح ایک لڑکی کے ساتھ دوسروں سے الگ جڑ کے بیٹھے ہوں، انجوائے کر رہے ہوں، چسکے لے رہے ہوں، یہ عجیب سا لگتا ہے، مجھے بڑی حیرت ہوئی۔
میں نے ایک اخبار کے ایڈیٹر اور بڑے صحافی کو گندی گندی گالیاں نکالتے ہوئے بھی دیکھا اور ایک آدھ مرتبہ خود بھی ان کانشانہ بنا، زیادہ اس لئے نہیں کہ میں زیادہ دیر وہاں رہا ہی نہیں مگر میری پہلی حیرت اس وقت دوچند ہوگئی جب صحافت میں مجھے کئی برس ہوچکے تھے اور ایک معروف ٹی وی چینل کا آٹھ بجے والا لائیو کرنٹ افئیرز شو کرنے کی وجہ سے نمایاں پہچان بھی بنا چکا تھا۔
یہ حافظ محمد سعید کا ایک افطار ڈنر تھا جب وہ بہت متحرک ہوا کرتے تھے۔ آواری ہوٹل میں انہوں نے تازہ ترین صورتحال پر ہمیں بریف کیا اوراس کے ساتھ ہی افطار ی کا وقت ہوگیا۔ ہم سب نے روزہ کھولا، مغرب کی نماز ادا کی اور اس کے بعد کھانے کے لئے ٹیبلز پر آ کے بیٹھ گئے۔ میری ان صاحب کے ساتھ پہلی ملاقات تھی جو سیاسی، مذہبی حوالے سے بہت بڑی دانشور شخصیت سمجھے جاتے تھے، دینی حلقوں میں انہیں خاص اہمیت دی جاتی تھی اور اسلام پسند انہیں بہت لائیک کرتے تھے۔
آپ پہلی ملاقات کاتصور کیجئے اور مجھ سے ان کا پہلا مکالمہ ہی یہ ہوا کہ اگر مجھے کسی لڑکی کے ساتھ ڈیٹ (مہذب لفظ استعمال کر رہا ہوں) پر جانا ہو تو میں اسے کہاں لے کر جاوں گا۔ میرے لئے یہ سوال حیران کردینے والا تھا لیکن اگر میں جواب نہ دیتا تو گھونچو قرار پاتا لہذا جو سٹیریو ٹائپ جواب ذہن میں آیاوہی دے دیا کہ کسی ہوٹل کا ہی بندوبست کرنا پڑے گا۔ وہ دانشور دینی شخصیت زور سے ہنسی اور بولی، پکڑے جاو گے کوئی اور جگہ بتاو۔
میرے لئے کسی اور جگہ کا اس وقت تصور کرنا مشکل ہو رہا تھا سو میں نے کہا، آپ بتائیں، کہاں لے جانا چاہئے۔ وہ پھر ہنسے اور اپنے لاہور میں اہم ترین جگہ پر آفس کا محل وقوع بتا کر بولے، میرے دفتر، ہوٹل میں جو پولیس تمہیں پکڑنے کے لئے آئے گی وہی پولیس میرے دفتر(کی لوکیشن کی وجہ سے) تمہیں تحفظ فراہم کرے گی۔ مجھے بعد میں علم ہوا کہ وہ دینی دانشور مفکربہت باغ وبہار قسم کی شخصیت ہیں۔ ایسی ہرگز نہیں ہیں جیسی وہ ٹی وی سکرین پر نظر آتے ہیں۔ یہ تضاد میرے لئے بڑی حیرت کی بات تھی جس کا پھر میں نے بارہا مشاہدہ کیا۔
ایک اور واقعہ یاد آ گیا یہ بھی رمضان المبارک ہی تھا، چھبیسویں روزے کی افطاری تھی اور ستائیسویں رات تھی۔ ہم پی سی ہوٹل میں پاکستان کرکٹ بورڈ کی دعوت افطار میں مدعو تھے۔ کوئی سو ڈیڑھ سو لوگ ہوں گے مگر کچھ لکھاریوں، دانشوروں اور صحافیوں کو چئیرمین پی سی بی کے ساتھ سٹیج نما بڑی گول میز پر جگہ ملی جو نسبتا اونچی جگہ پر تھی۔
یہاں ایک اخبار کے چیف رپورٹر کا ایک بڑے دانشور سے اس وقت تلخ کلامی شروع ہوئی جب اس دانشور نے اس اخبار کے چیف ایڈیٹر، جو کہ بزرگ صحافی تھے، کے بارے میں ایسے انکشافات شروع کر دئیے جو مجھے علم نہیں کہ درست تھے یا نہیں مگر بے ہودہ اور غیر اخلاقی ضرور تھے۔ یہ چیف ایڈیٹر اور یہ چیف رپورٹر دونوں ہی انتقال کر چکے ہیں۔ فقرے بازی نے تلخ کلامی کا رخ اختیار کیا تو منہ پھٹ دانشور صاحب نے پانی کا گلاس اٹھا کے چیف رپورٹر کو دے مارا۔ وہ گلاس ان کو تھوڑاہی لگا اور انہوں نے جواب میں گلاس ان کی طرف پھینک دیا جو انہیں نہیں لگا مگر دانشورصاحب کے لئے یہ بہت بڑی توہین تھی۔
دانشور صاحب اٹھے اور چیف رپورٹر کا گریبان پکڑ لیا اور یوں دونوں گتھم گتھا ہو کے فرش پر گر گئے اور اس وقت تک لڑتے رہے جب تک ہم بہت ساروں نے الگ الگ نہیں کیا۔ اسی میز پر امجد اسلام امجد بھی موجود تھے اور شاید انہیں بھی یہ واقعہ یاد ہو۔ بدقسمتی سے وہ دانشور صاحب اس رات بھی مکمل ٹُن تھے اور اسی وجہ سے بہت سارے ایسے سچ بول رہے تھے جو شایدہوش و حواس میں نہیں بولے جا سکتے۔
اگر میں اس طرح کے مزید واقعات بیان کرنا شروع کروں تو مجھے ایک کتاب لکھنی پڑے گی۔ میں نے دیکھا کہ یہاں آئین، قانون اور جمہوریت کی پاسداری کرنے والے صحافی لفافے کہلائے اور حالات یہ ہیں کہ ان میں سے بیشتر کرائے کے گھروں میں رہتے ہیں، ان کی بیویاں بھی نوکریاں کرتی ہیں اور پھر ان کا کچن چلتا ہے مگر وہ ایماندار اور انقلابی صحافی جو دوسروں کو لفافہ، لفافہ کہتے ہیں ان کے تاحد نظر وسیع فارم ہاوسز ہیں، ان میں سے بیشتر دوسروں کو چور چور کہتے ہوئے خود ارب پتی ہوگئے، کئی کئی کروڑ کی گاڑیاں اورجہاز تک رکھ لئے۔
انہیں نہ صرف ایک، دو، تین، چار اور پانچ ملین تک کی نوکریاں دلوائی گئیں بلکہ ان کے اشاروں پر وزرا اور بیوروکریسی بھی ناچا کرتی تھی۔ سو، پیارے دوستو، اس شہر ستم ظریفاں میں کسی سے بھی امپریس ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ میں کنوینس ہوگیا ہوں کہ ہر وقت اچھی اور بہت اچھی باتیں کرنے والے یا تو فرشتے ہو سکتے ہیں یا نوسر باز اور اس دور میں فرشتے تو اترنے سے رہے۔ ہم سب انسان ہیں اور ان میں اچھا انسان ہونا ہی سب سے مشکل کام ہے۔
یہ بات میری فیلڈ تک محدود نہیں ہے بلکہ مجھے ججوں، جرنیلوں، وکیلوں، بیوروکریٹوں، تاجروں، ڈاکٹروں سمیت بہت سارے دوسروں بارے بھی یہی کہنا ہے۔ یہ نظر کا دھوکا ہے کہ ہمیں جو لوگ دور سے بہت بڑے بڑے نظر آتے ہیں قریب جانے پر وہ بونے نکلتے ہیں اوریہ میرے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے کہ اے ایمان والو تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو تم کرتے نہیں ہو؟