Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Bijli Fori Sasti Karne Ka Tareeqa

Bijli Fori Sasti Karne Ka Tareeqa

حکومت کے لئے اس وقت بجلی کے بل بہت بڑی مشکل بنے ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر حافظ نعیم الرحمان مری روڈ پنڈی پر دھرنا دے کر بیٹھے ہوئے ہیں۔ لیاقت بلوچ کہہ رہے ہیں کہ چین کے علاوہ کسی دوسرے کے ساتھ آئی پی پیز والے معاہدے بین الاقوامی نہیں ہیں۔ جہاں مقامی سرمایہ کاروں کے ساتھ بات ہوسکتی ہے وہاں چین بھی دوست ہے، مہربان ہے۔ سابق نگران وفاقی وزیر گوہر اعجازجس طرح آئی پی پیز کا ایشو لے کر چل رہے ہیں اس نے بھی ایک تھرتھلی مچا رکھی ہے۔ انہوں نے آئی پی پیز کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں اہم کردارادا کیا ہے۔

دوسری طرف حکومت ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ آئی پی پیز سے معاہدوں پر نظرثانی اس کی کریڈٹ ریٹنگ اوراس کے نتیجے میں سرمایہ کاری کے عمل کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ ایسے میں مسلم لیگ نون کے سابق رہنما اور وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے فوری ریلیف کے لئے ایک تجویز پیش کی ہے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ کسی بھی تجویز کو صرف اس لئے سنجیدگی سے نہ لینا کہ یہ اس بندے کی طرف سے ہے جو پارٹی چھوڑ چکا ہے، دانش مندانہ نہیں ہے۔

سچ تویہ ہے کہ اس وقت حکومت کے لئے سب سے بڑا عوامی مسئلہ بجلی کے بل ہیں۔ وہ پہلے ہی پچاس ارب روپوں سے انتہائی کم بجلی استعمال کرنے والوں کے لئے ایک تین ماہ کی رعایت کا اعلان کرچکی ہے۔ اگر آپ مجھ سے پوچھیں تو میں مکمل یقین رکھتا ہوں کہ شہباز شریف آئی پی پیز کا مسئلہ حل کرنے کی پوری اہلیت اور صلاحیت رکھتے ہیں۔

میں نے مفتاح اسماعیل کا فارمولہ ڈسکس کرنا ہے مگر اس سے پہلے ہمیں کچھ حقائق درست ترتیب میں رکھنا ہوں گے۔ اس وقت بہت سارے لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ آئی پی پیز کے کپے سٹی چارجز لوٹ مار ہیں مگر وہ ان حالات کا تصور نہیں کررہے جن میں بہت سارے معاہدے ہوئے۔ اس وقت بارہ سے سولہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ تھی اور یہ سمجھا جا رہا تھا کہ اس بحران کو آنے والے دس، پندرہ برسوں میں بھی حل نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ دہشت گردی اور سیاسی عدم استحکام کسی بھی سرمایہ کار کو سرمایہ کاری سے روکتا تھا۔

حکومت اب بھی یہ کہتی ہے کہ اگر اس نے آئی پی پیز سے معاہدوں پر عملدرآمد روکا تو ہم کس منہ سے سرمایہ کاری کی دعوت دیں گے کیونکہ ملک تین ذرائع سے ہی وسائل حاصل کرتے ہیں، اول ٹیکس ہے، ہم ٹیکس ٹو جی ڈی پی کے دس فیصد پربھی نہیں اور جن اقوام کی ہم مثالیں دیتے ہیں وہ تیس سے چالیس فیصد پر ہیں۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ کوئی بھی براہ راست ٹیکس دینے کوتیار نہیں جس کی وجہ سے بجلی اور پٹرول وغیرہ پر ان ڈائریکٹ ٹیکسیشن کرنا پڑتی ہے۔ اس وقت تنخواہوں پر ایک لاکھ روپے تک ٹیکس صر ف اڑھائی فیصد ہے جو انتہائی معمولی ہے مگر وہ ان ڈائریکٹ ٹیکسوں کے ساتھ مل کے بڑا ہوجاتا ہے۔

دوسرا ذریعہ قرضے ہیں جو مسلسل لئے جا رہے ہیں اور عمران خان کے دور میں ملک تاریخ کے قرضوں کے ستر فیصد تک قرضے لے لئے گئے جو ایک بوجھ بنے۔ اب یہ ذریعہ مشکل سے مشکل ہوتا چلا جا رہا ہے اور عقلمندانہ بھی نہیں ہے۔ تیسرا ذریعہ سرمایہ کاری ہے اور اگر آپ سرمایہ کاروں کودھوکا دیں گے تو مزید سرمایہ کاری نہیں لے سکیں گے۔ سوال یہ ہے کہ پھر بجلی کیسے سستی کریں۔

مفتاح اسماعیل کہتے ہیں، "ایک عام گھریلو بل میں، حکومت بجلی کے بل میں 24 فیصد ٹیکس شامل کرتی ہے۔ یہ تجارتی بلوں میں 37 فیصد ٹیکس اور صنعتی بلوں میں 27 فیصد ٹیکس شامل کرتا ہے۔ حکومت یہ چار ٹیکس بجلی کے بلوں پر عائد کرتی ہے: اضافی ٹیکس، مزید ٹیکس، سیلز ٹیکس (18%)، اور ایڈوانس انکم ٹیکس (7.5% گھریلو، 12% کمرشل اور 5% صنعتی صارفین کے لیے)۔

گزشتہ سال مجموعی وصولی 388 ارب روپے تھی اور اس سال 450 ارب روپے ہوگی اور صوبے پھر ان بلوں کے اوپر "الیکٹرسٹی ڈیوٹی" لگاتے ہیں۔ صوبائی اور وفاقی حکومتیں کم از کم جولائی سے اکتوبر تک بجلی کے بلوں پر عائد تمام ٹیکس فوری طور پر ختم کریں۔ درحقیقت ان کو سارا سال ہٹا دینا چاہیے۔ پورے سال کے لیے ایسا کرنے سے ٹیکس ریونیو میں 450 ارب روپے کی کمی آئے گی، جس کا مطلب ہے کہ صوبوں کو 265 ارب روپے کم جائیں گے (ان کے پاس کافی سے زیادہ رقم ہے) اور وفاقی حکومت کو 185 ارب روپے کم جائیں گے۔ اس لیے وفاقی حکومت کو پی ایس ڈی پی کے اخراجات میں 185 ارب کی کمی کرنی چاہیے۔ اس سے بنیادی سرپلس اور مجموعی خسارے کی تعداد یکساں رہے گی اور آئی ایم ایف کے ساتھ کوئی مسئلہ نہیں ہوگا۔

گزشتہ سال حکومت نے پی ایس ڈی پی پر 705 ارب روپے خرچ کیے تھے۔ اس سال، جہاں حکومت لوگوں سے قربانی دینے کے لیے کہہ رہی تھی اور اس نے تنخواہ دار طبقے اور پیشہ ور افراد پر بے انتہا ٹیکس لگانے کا انتخاب کیا، اس نے پی ایس ڈی پی کو 1400 بلین روپے تک بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ اب پی ایس ڈی پی 1150 ارب روپے رہ گئی ہے۔ اگر حکومت پی ایس ڈی پی کو 965 بلین روپے (پچھلے سال کے مقابلے میں اب بھی 38 فیصد اضافہ) پر لانے کے لیے تیار ہے تو تمام صارفین کے تمام ٹیکس ختم کیے جا سکتے ہیں"۔

بظاہر یہ شرمناک لگتا ہے کہ تعمیر و ترقی کی شوقین حکومت ترقیاتی بجٹ کو کم کرے مگریہ بھی حقیقت ہے کہ ہم کئی برسوں تک اپنا ترقیاتی بجٹ پچاس فیصد سے بھی کم استعمال کرتے رہے ہیں۔ ہم یہی سمجھیں گے کہ دو، چار برس مزید کم استعمال ہوگیا، ویسے اس کمی کے بعد بھی آپ کے پاس پچھلے برس سے ایک تہائی زیادہ بجٹ موجود ہوگا۔ آپ پورے برس کے لئے یہ رعایت دے دیں تو موجیں ہی موجیں ورنہ یہ کام جون سے ستمبر تک بھی کیا جا سکتاہے اس سے جو خسارہ ہوگا وہ پچاس فیصد سے بھی کم مگر اس سے جو سیاسی فائدہ ملے گا وہ سو فیصد ہوگا۔

وزیراعظم کہہ سکیں گے کہ حکومت نے قربانی دی ہے اور مفتاح اسماعیل کے مطابق خسارہ نہ بڑھنے پر آئی ایم ایف کو بھی اعتراض نہ ہوگا۔ اسی دوران آپ آئی پی پیز سے بھی معاملات طے کر سکتے ہیں، اس کے لئے آپ کو کم از کم اگلے برس اپریل تک کا وقت مل جائے گا کیونکہ بل دوبارہ جان لیوا مئی جون میں ہونا شروع ہوں گے۔

آپ یہ سمجھیں کہ ایک صوبائی حکومت کی طرف سے بچوں کو سکولوں میں د ودھ دینے پر اربوں روپے خرچ ہونے ہیں لیکن وہ شائد اتنا سیاسی فائدہ نہیں دے گا جتنا بجلی بلوں کا کم ہونا، خاص طور پرایسی صورتحال میں جب بلوں کے جھگڑوں پر بھائی، بھائیوں کوقتل کر رہے ہوں اورمائیں ہرنیئے کے آپریشن کے پیسے بلوں میں خرچ ہونے پر خود کشیاں کررہی ہوں۔