Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Chor Kon?

Chor Kon?

سوال: عمران خان جس بھی شہر میں جا رہے ہیں، کہہ رہے ہیں کہ چوروں، کو آرمی چیف کی تقرری کا کوئی اختیار نہیں؟

جواب: یہ ایک دلچسپ صورتحال ہے، میں جس شہر میں بھی پروگرا م کے لئے جاتا ہوں، پی ٹی آئی کے کارکن کیمرہ اور مائیک دیکھ کے گھیر لیتے ہیں، وہ مہنگائی پر شور مچاتے ہیں اور عمران خان کی واپسی کے لئے دلائل دیتے ہیں، ان سے پوچھا جائے کہ آپ کو پی ڈی ایم یا نواز لیگ سے کیا شکایت ہے تو ایک ہی جواب آتا ہے کہ وہ چور ہیں۔ ایک انہیں چور کہتا ہے اوراس کے ساتھ ہی چور، چور کی رٹ لگنی شروع ہوجاتی ہے۔

میں نے کئی مرتبہ پوچھا کہ آپ سب ا نہیں چور کس بنیاد پر کہتے ہیں کہ اگر الزامات کی بات ہے تواب یہ عمران خان سے علیمہ خان تک بھی بے شمار ہیں اور دوسرے یہ کہ آپ کے لیڈروں کے پاس اپنی حکومت سے بھی پہلے اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے کھلا ڈلااختیار رہا کہ شریف اور زرداری خاندانوں کے خلاف ثبوت اکٹھے کرتے، تمام الزامات کو ثابت کرتے مگر عملی طور پر یہ ہوا کہ تمام احتساب محض اور محض انتقام ثابت ہوا۔ اب اگر کسی پر الزام ہی ثابت نہیں ہوا تو انہیں چور کیسے کہا جا سکتا ہے مگر دوسری طرف عمران خان پر امریکی عدالت کے فیصلے بعد یہاں بھی فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آ چکا ہے۔

سوال: آپ کا مطلب ہے، شریف فیملی چور نہیں مگر عوام تو بڑی تعداد میں انہیں چور سمجھتے ہیں؟

جواب: گوئبلز نے اصول دیا کہ جھوٹ اتنی مرتبہ بولو کہ لوگوں کو سچ لگنے لگے۔ عمران خان گوئبلز اور میکاولی کے اچھے شاگردوں میں ہیں، وہ جھوٹ اتنی کثرت سے بولتے ہیں اور اتنی تکرار کرتے ہیں کہ لوگوں کے ذہنوں کو گرفت میں لے لیتے ہیں۔ اسے آپ مثبت طور پر ان کی محنت اور مستقل مزاجی بھی کہہ سکتے ہیں۔ تھوڑی سی محنت کیجئے اور عمران خان کے حکومت سے جانے کے بعد ان کے جلسوں، اجلاسوں اور پریس کانفرنسوں وغیرہ کو دیکھئے، انہوں نے شائد ہی کوئی دن ضائع کیا ہو جب انہوں نے اپنے ماننے والوں سے رابطہ نہ کیا ہو۔ وہ فارن فنڈنگ کیس کے فیصلے بعد بھی ڈیفنسیو نہیں ہوئے مگر دوسری طرف حکمران اتحاد ہے جس میں نواز لیگ اس وقت ڈرائیونگ سیٹ پر ہے۔

نواز لیگ کی ہوم گراونڈ سنٹرل پنجاب ہے اور پنجاب حمزہ شہباز شریف کے پاس ہے۔ آپ خود دیکھئے کہ وزارت اعلیٰ جانے کے بعد حمزہ شہباز شریف کی سیاسی سرگرمیاں کیا ہیں، ایک ٹکے کی بھی نہیں۔ وہ وزارت اعلیٰ سے ہٹنے کے بعد لندن چلے گئے اور جب اس پر اعتراض ہوا تو ایک جذباتی ماحول بنا کے کہہ دیا گیا کہ ان کی بیٹی بیمار تھی وہ اس کو دیکھنے نہ جاتے۔ اب وہ دو تین ہفتوں سے واپس آ چکے ہیں مگر مجال ہے کہ ان کی کہیں رونمائی ہوئی ہو۔ جب آپ اپنی ہوم گراونڈ کو ہی لاوارث چھوڑ دیں گے تو سیاست میں خلا نہیں رہتا۔

سوال: یہ بھی تو دیکھیں کہ ان کے خلاف مقدمات عدالتوں میں ہیں، انہوں نے کچھ غلط کیا ہے تو مقدمات بنے ہیں، عوام تو یہی سوچتے ہیں؟

جواب: مجھے عوام کے سوچنے سے غرض نہیں، عوام کے سوچنے کے پیچھے بہت سارے عناصر ہوتے ہیں مگر جہاں تک عدالتوں کی بات ہے تو یہ تمام مقدمات سیاسی انتقامی کارروائیوں کے سواکچھ بھی نہیں تھے۔ اب آپ مریم نواز کی ایون فیلڈ کیس میں بریت بارے ہی دیکھ لیں کہ جب وہ کسی عوامی عہدے پر ہی نہیں رہیں اور اس خریداری میں انہیں ملوث کیا جا رہا ہے جونوے کی دہائی کے آغاز میں ہوئی تو اس پر تو انہیں پہلی دوسری پیشی میں ہی بری کر دینا چاہئے تھا مگر اس پر انہیں سزا دی گئی اور پھر اسلام آباد ہائیکورٹ نے اس وقت فیصلہ دیا جب ہواوں کا رخ تبدیل ہو چکا ہے مگر اس سے پہلے آپ شہباز شریف، شاہد خاقان عباسی، خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال، حنیف عباسی، مفتاح اسماعیل اور رانا ثناء اللہ سمیت دیگر سب کے مقدمات میں ضمانتوں وغیرہ کے فیصلے ہی دیکھ لیجئے، پورے کے پورے کیس ہی اڑا دئیے گئے مگر شہزاد اکبر اورجاوید اقبال کی نیب کو اس پر ہرگز شرم نہیں آئی۔ یہ ایک افسوسناک امر ہے کہ ہمارا احتساب اور انصاف دونوں ہوا کا رخ دیکھتے ہیں۔ کیا اس احتساب اور انصاف کے بے وزن ہونے کے لئے یہی کافی نہیں کہ عدالت نے ایک وزیراعظم کو صرف اس بنیاد پر بلیک لا ڈکشنری کی اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے سزا دے دی کہ تم نے اپنے بیٹے سے نہ لی ہوئی تنخواہ گوشواروں میں ظاہر کیوں نہیں کی۔

سوال: آپ سوال نہیں سمجھے، عوام انہیں چور سمجھتے ہیں تو کسی وجہ سے ہی سمجھتے ہیں، وہ وجوہات کیا ہیں؟

جواب: اس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے پندرہ سے بیس برسوں میں میڈیا بے حد ترقی کر چکا۔ پرنٹ کے بعد الیکٹرانک اور اب سوشل میڈیا نے عوام کے ذہنوں کو قابو میں کر لیا ہے۔ پہلے جرنلزم دن بھر میں ایک مرتبہ ہوتی تھی اور اگلے روز اخبار آتا تھا مگر پھر الیکٹرانک میڈیا نے ہر وقت کی صحافت کر دی۔ سوشل میڈیا نے اس میں تکرار کا اضافہ کیا کہ اپنی بات بار بارکہو اور اتنی بار کہو کہ وہ ٹرینڈ بن جائے مگر مسلم لیگ نون ابھی تک اسی اور نوے کی دہائی میں ہے۔ یہ پبلک ریلیشننگ کو اب بھی روزانہ، ہفتہ وار یا ماہانہ قسم کی کوئی شے سمجھتے ہیں جبکہ یہ اب گھنٹوں بھی نہیں بلکہ منٹوں اور سیکنڈوں میں سمٹ آئی ہے۔

یہ مارکیٹنگ کی اہمیت کو نہیں سمجھتے اور یہ ایسے ہی ہے کہ آپ ایک بہت اچھا پلازہ بنا لیں مگر اس کی مارکیٹنگ نہ کریں تو وہ بند پڑا رہے گا مگر دوسری طرف جو شخص اچھی مارکیٹنگ کرے گا وہ اپنا پلازہ بنانے سے پہلے ہی بیچ کر منافع کھرا کر لے گا۔ یہ بھی کہنے دیجئے کہ نواز لیگ والے کمزوری، بزدلی اور سستی کو اخلاقیات میں چھپاتے ہیں مگر عوام بہادر وں کو پسند کرتے ہیں۔ آپ اسے اچھا سمجھیں یا برا، درست سمجھیں یا غلط، عمران خان نے اپنا امیج ایک بہادر آدمی کا بنا لیا ہے۔ میں نے کئی لوگوں سے پوچھا کہ عمران خان پر بھی تو کرپشن کے الزامات ہیں تو جواب ملتا ہے کہ اگر الزامات ہیں تو وہ کون سا ملک سے بھاگ گیا ہے۔

سوال: بات تو درست ہے، عمران خان ملک میں موجود ہے، نواز شریف نہیں ہے؟

جواب: یہ سچ ہے مگر آدھا سچ ہے۔ ابھی عمران خان صاحب گرفتار تک نہیں ہوئے، ابھی انہوں نے نواز شریف کی طرح سینکڑوں پیشیاں نہیں بھگتیں، ابھی ان کے ہاتھوں نے ہتھکڑیاں تک نہیں دیکھیں، ابھی ان کی جیل میں ملاقاتوں پر پابندی نہیں لگی اور سب سے بڑھ کے ابھی بے شرمی اور گھٹیا پن کی انتہا کرتے ہوئے ان کی بہن علیمہ خان کو ان سے ملاقات کرتے ہوئے اس طرح گرفتار نہیں کیا گیا جس طرح ایک نواز شریف کی بیٹی کو کوٹ لکھپت جیل میں کیا گیا تھا۔ ابھی شہباز گل کے علاوہ عمران خان کے کسی ساتھی کو تفتیش کا سامنا بھی نہیں کرنا پڑا۔

مجھے نواز شریف کے باہر جانے پر اعتراض ہے مگر اس سے پہلے ان تمام سازشوں اور مظالم پر اعتراض ہے جو شریف فیملی پر روا رکھے گئے، اس سیاسی تاریخ پر اعتراض ہے جس میں وزیراعظم پھانسی چڑھے، قتل ہوئے، جیل بھیجے اور جلاوطن کئے گئے۔