پنجاب میں سو یونٹ ماہانہ تک بجلی استعمال کرنے والوں کے لئے بجلی مفت کرنے کی خبر پر میرا ابتدائی ردعمل بھی یہی تھا کہ اب کون سا گھر ایسا ہے جہاں پورے مہینے میں صرف ایک سویونٹ استعمال ہوتے ہوں، گھروں میں دو پنکھے اور دوبلب ہوں، پانی کھینچنے کے لئے موٹر ہو اور ایک دو ایسی ہی چیزیں تو گرمیوں میں یونٹ بہرحال سو نہیں رہ سکیں گے مگر میری سوچ شہروں کی لوئر مڈل کلاس کو دیکھتے ہوئے تھی اور سچ تو یہ ہے کہ لاکھوں گھرانے ایسے ہیں جو سال میں بارہ سو یونٹ استعمال نہیں کرتے، بجلی کے محکمے اور حکومت پنجاب کے آفیشیلی جاری کر دہ اعداد و شمار کے مطابق نو ملین یعنی نوے لاکھ کنزیومرز، آخری مردم شماری کے مطابق ہر گھرانہ چھ سے زیادہ افراد پر مشتمل ہے گویا پانچ کروڑ چالیس لاکھ شہری جو پنجاب کی نصف آبادی کے قریب قریب ہے اور یہ تعداد حیرت انگیز ہے۔ یہ نوملین ٹوٹل کنزیومرز کا 33فیصد بنتے ہیں۔
چیئرمین پی اینڈ ڈی علی سرفراز اور سیکرٹری انرجی اجمل بھٹی بتا رہے تھے کہ حکومت پنجاب صرف بجلی کی قیمت کی مد میں 18ارب 40کروڑ اور ان پر ٹیکسوں، ڈیوٹیوں کی مد میں 20ارب 45کروڑ 50لاکھ روپے کی رقم خرچ کرے گی یعنی مجموعی طور پر38ارب 85 کروڑ روپے۔ حکومت اس کے لئے سو ارب روپے مختص کر رہی ہے کیونکہ صارفین کی تعداد کم زیادہ ہوتی رہے گی۔
بہت سارے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ ایک ایسا اعلان ہے جو عمران خان کی ایک کروڑ نوکریوں اور پچاس لاکھ گھروں جیسا ہے یعنی ناقابل عمل مگر مجھے یہ جان کر حیرت ہوئی کہ پنجاب حکومت اس وقت آٹے پر سالانہ ڈیڑھ سو ارب روپوں سے زیادہ کی سب سڈی دے رہی ہے۔ اس وقت کراچی اور پشاور میں آٹے کے بیس کلو تھیلے کی قیمت ساڑھے اٹھارہ سو روپوں کے لگ بھگ ہے مگر پنجاب میں سب کے لئے یہی سب سڈائز ڈ تھیلا نو سو اسی روپوں میں دستیاب ہے اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ آٹے کی سب سڈی سے کہیں کم بجٹ میں انتہائی غریب گھرانوں کا بجلی کا بل ایک پیسہ ہوجائے گا۔
میں نے مختلف دوستوں سے پوچھا کہ یہ شاندار آئیڈیا کس کا ہے تو علم ہوا کہ خود حمزہ شہباز کا اور یہی وجہ ہے کہ جب اس پرانہوں نے اکیلے ہی پریس کانفرنس کی۔ یہ کہنا بھی درست نہیں کہ الیکشن کمیشن کے نوٹس لینے کی وجہ سے اب اس منصوبے پر عمل نہیں ہوسکے گا۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے پابندی صرف اس اتوار تک کے لئے ہے اور یوں بھی اس پراجیکٹ کا آغاز جولائی کے بلوں سے ہو گا جو اگست میں آئیں گے۔
اس سے پہلے حکومت مفت بجلی کے لئے ان صارفین کی رجسٹریشن کا عمل شروع کرے گی جنہوں نے گذشتہ چھ ماہ میں ایک سو یونٹوں سے زیادہ استعمال نہیں کئے ہوں گے اور ان میں ہمارے دیہات میں رہنے والے عام لوگوں کی بہت بڑی تعداد شامل ہو گی۔ ایسے صارفین اپنے موبائل فون سے ایک مخصوص نمبر پر ایس ایم ایس میں اپنے میٹر کا کنزیومر نمبر اور اپنا شناختی کارڈ بھیجیں گے جس کی تصدیق کے بعد ان کی رجسٹریشن ہوجائے گی۔ سوال یہ تھا کہ اگر بہت سارے لوگ اس سہولت سے صرف اس وجہ سے فائدہ اٹھانے سے رہ جائیں کہ وہ رجسٹریشن نہ کرواپائیں تو جواب تھا کہ اگر فیڈ بیک اچھا نہ ہوا تو رجسٹریشن کا عمل ختم بھی کیا جاسکتا ہے۔
اب یہ بھی نہیں کہ سو یونٹس تک استعمال کرنے والے صارفین کی تعداد سال بھر ایک ہی رہتی ہے، یہ تعداد اس برس مارچ میں نو ملین تک پہنچی اور گذشتہ برس جولائی، اگست، ستمبر میں چار ملین تک رہی، اس طرح ان صارفین نے مارچ میں تین سو ستانوے میگا واٹ تک بجلی استعمال کی مگر اس سے پہلے بیان کئے ہوئے مہینوں میں یہ دوسو میگاواٹ تک رہے۔
میرا سوال تھا کہ اگر آپ ایک مہینے کے سو یونٹس کے بجائے سال بھر کے بارہ سو یونٹس کی اجازت دے دیں تو صارفین سردیوں میں یونٹ بچا لیا کریں گے اور گرمیوں میں استعمال کر لیا کریں گے تو اس کا جواب تھا کہ بلوں کا طریق کار ماہانہ ہے، اسے سالانہ پر لے جانے کے لئے پورا سیٹ اپ ہی بدلنا ہو گا جو ناممکن ہے۔
سوال یہ بھی تھا کہ آپ سو یونٹ مفت دے رہے ہیں توآپ ان گھرانوں کو چھوٹے چھوٹے سولر یونٹس ہی کیوں نہیں فراہم کر دیتے تو اس کا جواب تھا کہ ایک یونٹ دو لاکھ روپوں میں بنتا ہے اور اگر ہم نو ملین گھرانوں کا حساب لگائیں تو انہیں یہ یونٹ فراہم کرنے کے لئے جو بجٹ درکار ہے وہ بہت بڑا ہے اور یوں بھی بہت سارے چھوٹے گھروں میں سولر کی انسٹالیشن ممکن نہیں ہوگی، بہرحال، جب مستحق کنزیومرز اپنی رجسٹریشن مکمل کروا لیں گے تو انہیں صرف ایک پیسے کا بل بھیجا جائے گا۔
سوال تھا کہ ایک پیسے کا بل بھی کیوں تو اس کا جواب تھا کہ اپنے ریکارڈ کو اپڈیٹ رکھنے کے لئے بل بھیجنا ضروری ہے اور ایک پیسہ اس لئے کہ بنکوں کا ڈیٹا بیس زیرو، زیرو کو قبول نہیں کرتالہٰذا ایک پیسے کا بل موصول ہونے پر صارف کو کسی بینک یا برانچ لیس بینکنگ کی کسی بھی شاپ پر جا کے ادائیگی کی سٹمپ کروانا ہوگی۔ اس پر سوال تھا کہ اگر آپ بل ایک پیسہ کر رہے ہیں اور وہ ایک پیسہ بھی ادا نہیں کرنا تو برانچ لیس بنکنگ والے تو ایک بل پر دو، تین سے دس، بیس روپے تک لے لیتے ہیں، اس پر بتایا گیا کہ بجلی کا محکمہ ہر بل کی وصولی پر ان دکانداروں کو آٹھ روپے ادا کرتا ہے، وہ صارفین سے جو روپے لیتے ہیں وہ اضافی ہوتے ہیں سو بل پر واضح لکھا ہوگا کہ اس پر کوئی چارجز ادا نہ کئے جائیں اور اگر کوئی چارجز لے تو اس کے خلاف کارروائی کے لئے ہیلپ لائن اور کمپلینٹ سنٹر موجود ہو ں گے۔
میرے ہی ایک سوال پر واضح کیا گیا کہ اس کے لئے ضروری نہیں کہ میٹر اسی کنزیومر کے نام پر ہو جو اپنا شناختی کارڈ نمبر ایس ایم ایس کر رہا ہے یعنی کرائے دار بھی اس سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ اعداد وشمار کے مطابق ستائیس ملین گھریلو صارفین میں سے چوبیس ملین کے بل دو سو یونٹس تک آتے ہیں، ایسے صارفین جن کے یونٹس سات سو سے زیادہ ہوتے ہیں ان کی تعداد صرف 68ہزار ہے۔
میری نظر میں یہ ٹارگٹڈ سب سڈی کی بہترین کوشش ہے کہ ا س سے پہلے پٹرول پر اڑھائی سو ارب روپوں کی سب سڈی دی گئی مگر وہ سب کے لئے تھی یعنی موٹرسائیکل والوں سے لینڈ کروزر والے تک سب نے فائدہ اٹھایا۔ میں نے مسلم لیگ نون کا وہ دور بھی دیکھا ہے جب اس نے دو ایسے عفریتوں پر قابو پایا تھا جن پر قابو پانا ناممکن سمجھا جا رہا تھا، ایک دہشت گردی اور دوسرے لوڈ شیڈنگ۔ اب بھی ماہرین کہہ رہے ہیں کہ سولر پراجیکٹس کے حوالے سے حکومتی موو ایک نئے دور کا آغاز کر دے گی۔
سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ اگر اب سولر پر جا رہے ہیں تو پہلے کیوں نہیں گئے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر دور میں دستیاب ایندھن کے حوالے سے مناسب بلکہ بہترین فیصلے کئے گئے۔ پہلے فرنس آئل کی قیمتیں بھی قابو میں تھیں، کوئلہ بھی سستا تھا اورایل این جی بھی مگر اب یہ سب مہنگے ہو گئے ہیں۔
پی ٹی آئی اس پر تنقید کر رہی ہے، اس کے خلاف خطوط لکھے جا رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ سب جو کچھ ہونے جا رہا ہے وہ گیم چینجر ہے۔ عوام کی معاشی حالت کے ساتھ ساتھ سیاسی کھیل کا منظر بھی بدل جائے گا اور اس میں حمزہ شہباز کا یہ چھکا بہت اہم ہوسکتا ہے، جاوید میاں داد کے شارجہ والے چھکے کی طرح۔