Sunday, 08 September 2024
    1.  Home/
    2. Najam Wali Khan/
    3. Har Meenar Ke Neeche Gutter Hai

    Har Meenar Ke Neeche Gutter Hai

    ہمارا سب سے بڑا المیہ منافقت ہے، اندر اور باہر کا فرق ہے۔ ہم دوسروں کے رزق، ا فعال او ر کردار کے ٹھیکیدار بنتے ہیں لیکن اگر آئینہ ہمیں ہمارے ہی چہرے دکھانے لگے تو ہم چیخیں مار کے بھاگ نکلیں۔ عورتوں کے کردار، کپڑوں اور رومانس تک کے ایکسپرٹ گوجرانوالے کی ایک عام سی ماڈل کے ہاتھوں احمق بن جاتے ہیں لیکن وہ ہمیں سماجی ہی نہیں سیاسی آئیڈیالوجیاں بھی دیتے ہیں، وہی والی جس میں ایک باریش سیاسی رہنما ہمیشہ درود پاک پڑھ کے جھوٹ بولنے کے لئے مشہو ر ہیں، استغفراللہ، اور یہ معاملہ صرف ان تک محدود نہیں ہے کہ کچھ تو ہیں ہی لبرل، دینی طبقے کی طرف ہی چلے جائیں، یہ علت المشائخ، کسے کہتے ہیں، یہ اصطلاح کن کے لئے او رکیوں استعمال ہوتی ہے میں اسے اپنے اخبار کے مقدس صفحات پر بیان بھی نہیں کرسکتا۔

    میں نے صحافت شروع کی۔ ہم سب پشاور اسلام آباد موٹروے کے افتتاح کے لئے پی آئی ڈی کی طرف سے مہمان بنے۔ غالباً ترکی کے صدر نے اس کا سنگ بنیاد رکھنا تھا اور ہم نے ان کے طیارے میں ہی وہاں پہنچنا تھا۔ راولپنڈی کے چار ستارہ ہوٹل میں ہم لاہور کے صحافیوں کی صبح ہوئی تو ایک بزرگ صحافی ایک انگریزی اخبار کی لیڈی رپورٹر کو لے کر الگ میز پر بیٹھے ہوئے تھے اور باقی تمام صحافی انہیں جگتیں لگا رہے تھے۔

    یہ بڑے اور عظیم ناموں والے صحافیوں کے ساتھ میرا پہلا سفر تھا۔ کسی نے کہا ہے کہ کسی کے بارے میں رائے قائم کرنا چاہتے ہو تو اس کی کہی ہوئی باتوں سے مت کرو، اس کے ساتھ سفر کرکے دیکھو، ا س کے ساتھ معاملہ کرکے دیکھو۔ یہ بُت ٹوٹنے کا آغاز تھا۔ بُت تو اس وقت بھی ٹوٹے تھے جب میں نے اپنی صحافت کا آغاز کرتے ہوئے ایک فارم بھرتے وقت جس کالم نگار کو اپنا آئیڈیل لکھا تھا مجھے علم ہوا کہ اس کی کوئی شام شراب کے بغیر گزرتی ہی نہیں ہے۔

    مجھے سٹی فارٹی ٹو کا پرائم ٹائم شو کرتے ہوئے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا کہ آواری میں حافظ سعید کی دعوت افطار میں نماز مغرب کے بعد میں ان کے ساتھ کھانے کی میز پر جا بیٹھا تھا۔ مجھے خوشی محسوس ہو رہی تھی کہ میں دین کے ایک بڑے دانشور کے ساتھ ہمکلام ہو رہا ہوں۔ وہ بہت بڑے افسر بھی تھے اور انہوں نے مجھ سے فرینک ہوتے ہوئے پہلا سوال ہی یہ پوچھا تھا کہ اگر میں کسی لڑکی کے ساتھ کچھ کرنا چاہوں تو اس کے لئے شہر میں سب سے محفوظ جگہ کون سی ہے۔ مجھے اس سوال کی توقع تھی اور نہ اس بارے سوچا تھا۔

    میرے گھر اور ہوٹل جیسے دئیے ہوئے تمام جواب انہوں نے بے وقوفانہ قرار دے کر مسترد کر دئیے اور مجھے بتایا کہ شہر میں سب سے محفوظ جگہ لوئر مال پر ان کابہت سارے طاقتور سرکاری دفاتر میں گھرا ہوا سرکاری دفتر ہے کہ جہاں تمام دوسری جگہوں پر پولیس مجھے کچھ ایسا ویسا کرتے ہوئے پکڑ لے گی مگر وہاں وہ میری حفاظت کرے گی۔ میں اس وقت ان کا نورانی چہرہ دیکھتا ہی رہ گیا تھا۔

    میں اپنے رب سے ڈرتا ہوں کہ میں اس کے محبوب ﷺ سے کوئی جھوٹی بات منسوب کروں اور اس کا مقصد صرف اور صرف دنیاوی فائدہ یا کسی کی خوشامد ہو۔ بات رمضان المبارک کی ہو رہی ہے تو پی سی بی کی طر ف سے لاہور کے پنچ ستارہ ہوٹل میں چھبیسویں روزے کی دعوت افطار تھی۔ انہوں نے سینئر صحافیوں کو ایک تھوڑے سے اونچے میز پر جگہ دے رکھی تھی۔ چھبیسویں روزے کی افطار کا مطلب ہے کہ وہ ستائیسویں کی شب تھی۔ افطار کے وقت دانش کے ایک نام نہاد مینار نے ایک اخبار کے ایڈیٹر، نامور مرحوم صحافی کے بارے الم غلم بکنا شروع کر دیا۔

    اس وقت اس اخبار کے چیف رپورٹر بھی اسی میز پر موجود تھے۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ دانش کا مینار اس شام بھی نشے میں دھت تھا اور ہاتھا پائی کرتے ہوئے کوئی سو، دوسو شرکاء کے سامنے گتھم گتھا ہوگیا تھا، زمین پر گر گیا تھا۔ سو اب مجھے حیرانی نہیں ہوتی جب بہت ساروں سے سنتا ہوں کہ کسی جگہ پر خواتین کو نوکری کے وقت بتا دیا جاتا ہے کہ ڈیوٹی تین دن آن سکرین ہوگی اور تین دن آف سکرین، ایک روز چھٹی ہوگی۔

    ہم میں سے کوئی فرشتہ نہیں ہے، ہم سب سے غلطیاں ہوتی ہیں، ہم سب گناہگار ہیں مگر ہم دوسروں کے کردار کے ٹھیکیدار کیوں بن جاتے ہیں۔ ہمارے سامنے سورہ حجرات میں دئیے ہوئے اصول کیوں نہیں رہتے۔ ہم گالی دینے والے کو بہادر اور الزام لگانے والے کو جرأت مندکیوں کہتے ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ دولت سے بھی بڑ ی آزمائش عورتیں ہیں۔ کچھ برس پہلے ایک بڑے دانشور اور کالم نگار نے میرے سامنے اعتراف کیا کہ وہ ایک سیاسی جماعت کی حمایت اس لئے کر رہا ہے اس کہ نتیجے میں اس کے بہت ساری خوبصورت لڑکیوں سے ان باکس رابطے ہوتے ہیں، اتنے زیادہ کہ وہ روزانہ بھی ڈیٹ پر جائے تووہ ختم نہ ہوں او رمیں ملکی معاملات پر اس کی اپروچ سے حیران رہ گیا کہ کتنے اونچے اور اہم قومی مسائل پر اس کی فکراور رائے کی بنیاد کتنی نیچی ہے۔

    ایک وقت تھا کہ انٹیلی جینس یا عوامی رائے سے متاثر نہیں ہوتی تھی جیسے جماعت اسلامی کی قراردادیں۔ ان میں مسائل کی حقیقی نشاندہی اور ٹھوس حل پیش کیا جاتا تھا چاہے کوئی اسے پسند کرے یا نہ کرے مگر اب یہ سب عوام کے پیچھے ہیں۔ ان کے لئے ویوز، فالوئنگ اور لائیکس اسی طرح اہم ہوچکے ہیں جیسے سٹیج ڈرامے میں فنکار کے لئے کلیپ ہوتی ہے جیسے سٹیج پر کوئی بدن ہلاتی، جھکاتی اداکارہ مقبولیت کے لئے کچھ بھی کرسکتی ہے۔ پہلے عقل، دانش اور علم کا گھوڑا عوامی رائے کی گاڑی کو کھینچا کرتا تھا مگر اب گاڑی آگے ہوتی ہے اور گھوڑا پیچھے۔ افسوس، صحافت اوردانش بھی دکان بن گئی ہے کہ وہ مارکیٹ کی ڈیمانڈ کے مطابق ہی پیش کی جائے گی چاہے وہ زعفران میں لپٹا ہوا زہر ہی کیوں نہ ہو۔

    سب سے بہتر یہی ہے کہ آپ کو علم اور عقل کی روشنی سے مزین جو بیکن ہاوسز نظر آ رہے ہیں انہیں دُور سے ہی دیکھیں۔ ان کے قریب جانے کی کوشش نہ کریں۔ ان قلعوں اورمیناروں کے دروازے کھول کے ان کے اندر جھانکنے کی کوشش نہ کریں کہ اندر سے بہت سارے فلتھ ڈپو ہیں۔ ان کی وجہ شہرت ہی یہ ہے کہ اپنے ہاتھ میں ہر وقت کیچڑ کی ایک بالٹی لے کر پھر رہے ہیں کہ کہیں کوئی اجلا شخص باقی تو نہیں رہ گیا۔

    ریاست مدینہ کے نعروں میں پاکپتن اور توشہ خانہ جیسی وارداتیں ہوتی ہیں۔ یہ سب کو چور، ڈاکو اور لٹیرے کہتے ہیں، یہ عورتوں کے حوالے سے بڑے بڑے بھاشن دیتے ہیں، یہ رہنمائی کے پہاڑ بنتے ہیں مگر حقیقت میں یہ وہ شاپر بیگ ہیں جنہیں ہوا اڑا کے لے جاتی ہے۔ یہ گوجرانوالہ کی ایک ماڈل کے فون پر رات چار بجے اس کے گھر پہنچ جاتے ہیں اور پھر جو ہوتا ہے وہ آپ کو علم ہی ہے۔