Monday, 23 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Hum Pagal Ho Rahe Hain?

Hum Pagal Ho Rahe Hain?

ایک سروے رپورٹ کے مطابق ہر تیسرا پاکستانی کسی نہ کس ذہنی مرض کا شکار ہے اور کوروناکے دوران ایسے مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ میں سوشل میڈیا پر دیکھتا ہوں تو یہ سروے بہت محتاط نظر آتا ہے کہ وہاں لوگوں کے درمیان تناو، غصہ اور نفرت پہلے سے کہیں زیادہ ابھر کر سامنے آ رہا ہے، یوں لگتا ہے کہ ہر فرد دوسرے کو کاٹ کھانے کو تیار بیٹھا ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی، بے روزگاری اور اس سے بھی بڑھ کر ناامیدی نے قوم کو بحثیٹ مجموعی جکڑ لیا ہے۔ ہمارے ماہانہ لاکھوں کمانے والے مشہور ترین اور بااثر ترین افراد بھی اپنی تحریروں میں کہہ رہے ہیں کہ وہ لوگ بہتر رہے جنہوں نے پاکستان چھوڑ کر کسی دوسرے ملک کی شہریت لے لی مگر وہ لوگ کیا کریں جو یہ بھی نہ کرسکیں۔ بہت برس پہلے کہی بات زیادہ وسعت اور شدت کے ساتھ واپس آ رہی ہے کہ اگر یہاں یورپ اور امریکہ کی امیگریشن کھول دی جائے تو اس دھرتی پر کوئی زندہ شخص باقی کوئی نہ بچے۔

ایک مخصوص طبقے کے سوا، جو حقیقت کی دنیا سے بہت دور رہتا ہے اور جس کے اخراجات اس کی بجائے کسی دوسرے کے ذمے ہیں چاہے وہ اس کے والدین ہیں یا وہ بھائی جان جو کسی دوسرے ملک میں کما کے انہیں ڈالر، پاونڈ یا ریال کی صورت رقم بھیج رہے ہیں اور خوش ہیں کہ دو، تین برس پہلے جہاں ایک ڈالر کے سو روپے ملتے تھے اب ایک سو ستر کے قریب مل رہے ہیں، جی ہاں، اس مخصوص طبقے کے سوا ہمارے نوجوانوں میں ذہنی بیماریاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ ان بیماریوں میں سب سے پہلے ڈپریشن ہے۔ ڈیریشن وہ بیماری ہے جو معاملات میں عدم دلچسپی اور مایوسی سے شروع ہوتی ہے اورایک شخص کو خود کشی تک لے جاتی ہے۔ سروے کے مطابق پاکستانی نوجوانوں میں ڈپریشن کا شکار چھتیس فیصد تک پہنچ چکے ہیں، یہ تعداد بہت سارے دوسرے ممالک سے کہیں زیادہ ہے۔ دوسرا مرض جذباتی صدمات کا ہے جسے پوسٹ ٹرامک سٹریس ڈس آرڈرکا نام دیا جاتا ہے۔ انسان کو زندگی میں بہت سارے صدموں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یوں بھی ہوتا ہے کہ اس کے پیارے اسے چھوڑ کر چلے جاتے ہیں مگر موجودہ صورتحال میں قابل توجہ بات یہ ہے کہ لوگوں میں حساسیت بڑھتی چلی جا رہی ہے اور وہ جذباتی صدموں کا بوجھ نہیں سہار پا رہے جو نارمل زندگی کی علامت نہیں ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ غربت، بے روزگاری، بدامنی اور جنسی ہراسگی جیسے معاملات کی وجہ سے نوجوانوں میں شیزو فرینیا کا مرض بھی بڑھ رہا ہے۔ شیزوفزینیا کے مرض میں نوجوانوں کو نہ صرف مختلف آوازیں سنائی دیتی ہیں بلکہ خوفناک شکلیں بھی دکھائی دینے لگتی ہیں اور ہمارے دیہات میں کہا جاتا ہے کہ اس پر جن چڑھ گیا ہے اوراس کے بعد لڑکے سائیں بن جاتے ہیں اور لڑکیاں ڈبہ پیروں کے ہتھے چڑھا دی جاتی ہیں۔ ہمارے ہاں جس مرض کا سب سے زیادہ سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور جس کا شکار ہمارے بڑے بڑے عہدوں پر بیٹھے ہوئے لوگ بھی ہیں وہ بائی پولر یا موڈ ڈس آرڈر ہے۔ اس مرض کا شکار بظاہر تو صحت مند اور نارمل شخص نظر آتا ہے مگر اندرونی طور پر وہ سخت انتشار اور بے سکونی کا شکار ہوتا ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اپنے موڈ پر قابو نہیں رکھ پاتا، اسے غصہ بہت چڑھتا ہے، کبھی وہ خوش ہوجاتا ہے اور کبھی مایوسی بھری باتیں کرنے لگتا ہے۔ دنیا بھر میں اڑھائی فیصد لوگ اس مرض کا شکار ہیں جبکہ ہمارے ہاں اس کی تعداد باقی مہذب دنیا سے چھ گنا زیادہ بتائی جاتی ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ موڈی ہے، بدتمیز ہے جبکہ ایسا نہیں ہوتا، وہ بے چارا ذہنی مرض کا شکار ہوتا ہے۔

مسئلہ یہ ہے کہ میرے سمیت کسی سے بھی یہ کہا جائے کہ آپ ذہنی مرض کا شکار ہیں تو وہ لٹھ لے کر پڑجاتا ہے کہ تم نے مجھے پاگل کہا حالانکہ موجودہ حالات و واقعات کی بنیاد پر پاگل پن کی کسی نہ کسی سٹیج پر ضرور پہنچا ہوتا ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس دور میں وطن عزیز میں صرف وہی پاگل نہیں ہے جس کی وجہ سے اس وقت باقی سب پاگل پن کا شکار ہو رہے ہیں۔ میرا تجربہ بھی ہے اور مشاہدہ بھی کہ خدا پر ایمان اور مذہب پر عمل ہمیں ان بہت سارے ذہنی امراض سے بچا سکتا ہے۔ اس کی ایک وجہ سراسر نفسیاتی ہے کہ بندہ امید رکھتا ہے کہ اس کا رب اس کی سنے گا جس سے مایوسی اور ناامیدی کی نفی ہوتی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ جب انسان بار بار وضو اور سجدہ کرتا ہے تو اس کا جسم اطمینان محسوس کرتا ہے۔ ذہنی امراض بھی جسمانی امراض کی طرح باہر کے حالات کی وجہ سے ہی ہوتے ہیں جیسے ہم نے کچھ غلط کھالیا تو جہاں جسم ڈس آرڈر کا شکار ہوا وہاں تکلیف کی وجہ سے ذہن بھی متاثر ہو گیا۔ یہی وجہ ہے کہ عمومی طور پر مریض چڑچڑے ہوجاتے ہیں۔ ہم اپنے ذہنی امراض پر قابو پاسکتے ہیں اگر ہم اپنی ان ٹیکس، کو ٹھیک کر لیں۔ یہ ان ٹیکس خوراک کی صورت میں بھی ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کی منفی باتوں کی صورت میں بھی۔ کیا آپ یقین کریں گے کہ فاسٹ فوڈ نے ہماری نوجوان نسل کو جسمانی ہی نہیں بلکہ ذہنی امراض بھی دئیے ہیں۔ آپ کا ذہن آپ کے جسم کا حصہ ہے۔ اس کا فیول وہی خوراک ہے جو آپ کھاتے ہیں۔ بری خوراک آپ کے جسم کے ساتھ ساتھ ذہن کو بھی متاثر کرتی ہے۔

لوگ کہتے ہیں کہ خوش رہیں مگر سوال یہ ہے کہ ایسے حالات میں کیسے خوش رہیں جب ملازمتیں اور کاروبار ختم ہو رہے ہوں، جب مہنگائی کا جن قابو میں ہی نہ آ رہا ہو۔ ہمارے پاس خوش رہنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ ہے کہ ہم اپنے حالات اور معاملات سے مطمئن ہوں۔ جب تک ہم مطمئن نہیں ہوں گے تب تک ہم خوش نہیں ہوسکتے۔ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا گزرا ہوا کل ہمارے آج سے بہتر تھا جبکہ خوش ہونے کے لئے ضروری ہے کہ ہماراآج ہمارے گزرے ہوئے کل سے بہتر ہو اور یہ امید موجود ہو کہ ہمارا آنے والا کل ہمارے آج سے بھی بہتر ہو گا۔ جب ملکی معیشت تباہی کا شکار ہو، جب جی ڈی پی سکڑ رہی ہو، جب گروتھ ریٹ نیچے جا رہا ہو تو عملی طور پر ان اعداد و شمار سے سٹیٹ بنک کا تعلق ہوتا ہے یا وزارت خزانہ یا وزارت تجارت کا مگر یہ حقیقت ہے ان سب سے جو سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے وہ عام آدمی ہی ہوتا ہے چاہے اسے ان اعداد وشمار کا علم ہو یا نہ ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ ایسے میں خوش کیسے رہا جائے تو اس کا جواب اوپر دیا جا چکا کہ اللہ پر توکل ہی کیا جاسکتا ہے کہ وہ بہتری کی کوئی راہ نکالے گا۔ ہم پر نا گہانی امراض سمیت اپنے سارے اپنا عذاب اٹھالے گا۔ ہمیں عافیتیں اور آسانیاں عطا کرے گا۔ واصف علی واصف نے کہا تھا کہ خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب پر خوش ہے۔ اگرہم نے اپنے نصیب پر خوش ہونے کی کوئی راہ نہ نکالی تو ہم سب ڈپریشن سے لے کر کسی بھی دوسرے ذہنی مرض کا شکار ہو سکتے ہیں اورتنہائی اختیار کر لینے سے خود کشی تک جا سکتے ہیں۔ نفسیاتی امراض کے ماہرین ہی بتا سکتے ہیں کہ اگرایسی صورتحال میں ہم اپنے دکھوں، غموں اور پریشانیوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی خاطر، اپنے موڈ میں توازن لانے کے لئے، زور، زور سے بلاوجہ قہقہے لگانے لگیں، آل از ویل، آل از ویل کے نعرے لگانے لگیں تو کیا ہم ڈپریشن سے نکل کر ٹھیک ہوجائیں گے یاہمارے ارد گرد لوگ ہمیں پاگل قرار دیتے ہوئے پاگل خانے چھوڑ آئیں گے؟