میں تو اس وقت بھی کنوینس تھا، جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد آ رہی تھی، کہ ان کے اقتدار کی کہانی ختم ہوچکی ہے مگر میرے بہت سارے دوست اصرار کرتے تھے کہ خان صاحب کو ایک منصوبہ بندی کے تحت اقتدار سے نکالا جا رہا ہے تاکہ دوتہائی اکثریت سے واپس لایا جاسکے۔
جب ہم ذاتی خواہشات، تجربات، خوف یا علم کی بنیاد پر تصورات پر گھڑتے ہیں تو پھر ان پر مکالمہ نہیں ہوسکتا، سو میں خاموش ہوجاتا تھا لیکن اب وہ تمام دوست جو عملی شخصیت تھے یا علمی، وہ بھی قائل ہوگئے ہیں کہ عمران خان بازی ہار چکے ہیں۔
وہ صرف اس پر کنفیوژ ہیں کہ وہ اپنے بیانیے سے عوام میں جو مقبولیت حاصل کر رہے ہیں، وہ انہیں اب بھی پے بیک، کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور میں اس بات پر صرف اس حد تک یقین رکھتا ہوں کہ حقیقی خبریں یا تجزئیے کی صلاحیت نہ رکھنے والوں کو آج بھی عمران خان ایسی باتوں سے امپریس کر سکتے ہیں کہ کیا ہم کوئی غلام ہیں اور یہ کہ انہیں امریکا نے نکالا کیونکہ وہ اپنی قوم کی آزادی اور خودمختاری کی علامت بن گئے تھے۔
میں نے تو لوگوں کو یہ دلیل دیتے ہوئے بھی دیکھا کہ عمران خان انہیں سستی بجلی اور سستا پٹرول دے رہے تھے۔ آپ ان لوگوں سے کیا مکالمہ کر سکتے ہیں جو یہ بھی نہ جانتے ہوں کہ وہ یہ رعایتیں اپنی ذاتی جیب سے نہیں دے رہے تھے بلکہ ریاست کی بقا کی قیمت پر اپنی سیاست کا بازار گرم کر رہے تھے۔
عمران خان اور ان کے ساتھی بہت ہوشیاری کے ساتھ یہ تاثر دیتے رہے کہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کے ایک طاقتور دھڑے کی حمایت حاصل ہے۔ ان کے یوٹیوبر حواری کہانیاں گھڑتے اور عوام میں پھیلاتے رہے مگر وہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں فوج کے ڈسپلن، اتحاد اور یکجہتی کو بھول گئے۔ یہاں پر تین سے چار مارشل لا لگے اور ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ ہر مارشل لا پر سیاستدان تو دھڑوں میں تقسیم ہوئے مگر فوج ایک مرتبہ بھی نہیں ہوئی۔ جمہوریت پسند اس پر جو مرضی واویلا کرتے رہیں مگر فوج کا یہ ڈسپلن اور اتحاد یقینی طور پر ادارے کی بہت بڑی خوبی ہے۔
اب یہ تمام افواہیں اس وقت دم توڑ گئیں جب تاریخ میں پہلی مرتبہ آئی ایس آئی کے سربراہ نے آئی ایس پی آر کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کی اور لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے کے دو طاقتور افسران نے ادارے کا موقف پوری طرح واضح کر دیا۔ میں آپ کو پورے یقین اور اعتماد کے ساتھ بتا سکتا ہوں کہ عمران خان کی اقتدار سے رخصتی ہرگز، ہرگز چند افسران کی پسند ناپسند کا معاملہ نہیں تھا بلکہ یہ پاکستان کے بطور ریاست معاشی طور پر قائم رہنے اور خارجہ تعلقات کے بحران کا ناگزیر نتیجہ تھا۔ میں پاک فوج کو سیاست میں مداخلت کا حق نہ بھی دوں تویہ اختیار نہیں چھین سکتا کہ وہ پاکستان کی سالمیت اور بقا کے لئے ایک بڑے ذمے دارکی حیثیت رکھتی ہے۔
عمران خان، امریکا ہی نہیں ترکی، چین، سعودی عرب، یو اے ای سمیت ایسے بہت سارے ممالک کے لئے ناقابل قبول بلکہ ناقابل ملاقات تک ہو گئے تھے جنہیں ہم عالمی برادری میں اپنا دوست یا حلیف کہہ سکتے ہیں۔ عمران خان نے حماقت کی اور وہ جوبائیڈن کے خلاف ٹرمپ کی انتخابی مہم میں شریک ہو گئے۔ انہوں نے افغانستان کے معاملے پر غیر ذمے داری کامظاہرہ کیا۔ انہوں نے سعودی حکمرانوں کے بارے میں ایسا رویہ اختیار کیا جوانتہائی احمقانہ تھا جیسے سعودی طیارے میں بیٹھ کے ہی ولی عہد کے بارے میں ہرزہ سرائی اور توہین آمیز گفتگو، جیسے ان کی آمد پر مساج کے نام پر گھٹیا ترین پیشکش، جیسے ان کے سامنے خود کو کرکٹ کے ہیرو کے طور پرپیش کرتے ہوئے انہیں اپنے فینز کی طرح ٹریٹ کرنا۔
ان کی صوبائی حکومت نے ترکی کی کمپنیوں البیراک اور اوز پاک کے ساتھ جو کچھ کیا اس کے بعد ترکی ان سے بات کرنا بھی پسند نہیں کرتا تھا اور پھر چین، عمران خان کی حکومت نے محض نواز شریف کو ڈس کریڈٹ کرنے کے لئے سی پیک کو رول بیک کیا اور چین پر کرپشن اور کمیشن تک کے الزامات لگا دئیے۔ عمران خان حالیہ تاریخ کا واحد اوور سمارٹ پرائم منسٹر، ہو گا جس نے آئی ایم ایف سے قرض کا معاہدہ کیا اور آٹھ میں سے چھ قسطیں لینے کے بعد معاہدہ توڑ دیا۔ ان تمام ممالک اور عالمی اداروں کے ساتھ برے تعلقات نے ہماری معیشت کو آئی سی یو میں پہنچا دیا اور اگر عمران خان کو رخصت نہ کیا جاتا تو پاکستان ڈیفالٹ کرجاتا۔
کئی احمق اورگھونچو کہتے ہیں کہ ڈیفالٹ ہوجاتا تو کیا ہوتا۔ یہ ہوتا کہ ہمارے تمام انٹرنیشنل ایگریمنٹ ٹوٹ جاتے۔ ہم تیل تک کی درآمد سے محروم ہوجاتے۔ سڑکوں پر گاڑیاں اور کارخانے ہی بند نہ ہوجاتے بلکہ بجلی کی پیداوار بھی دو گھنٹوں تک محدود ہوجاتی۔ امپورٹ، ایکسپورٹ، ٹیکسٹائل اور اس طرح دیگر شعبوں کے کروڑوں لوگ بے روزگار ہوجاتے۔ پاک فوج نے انتہائی ذمے داری کا مظاہرہ کیا اور اس وقت کی اپوزیشن کو لیول پلئینگ فیلڈ فراہم کر دیا سوایمپائر کے نیوٹرل ہوتے ہی عمران خان پہلی ہی گیند پر آوٹ ہوگئے۔ اب معاملہ ان کی عوامی مقبولیت کا ہے اوراس بارے بھی ان کا پروپیگنڈہ کام کر رہا ہے۔
تاثر ملتا ہے کہ مہنگائی کی وجہ سے ان کی مقبولیت بڑھی ہے مگر اب تک انہوں نے اگر پنجاب کی دوصوبائی سیٹیں مزید لی ہیں تو قومی اسمبلی کی دو سیٹیں ہار بھی گئے ہیں۔ مریم نواز درست کہتی ہیں کہ وہ اپنی ہی سیٹوں کو دوبارہ جیت کے اپنی مقبولیت بڑھنے کا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں جو انتخابی میدان کی درست عکاسی نہیں ہے۔
یہ بات بھی یاد رکھئے کہ ابھی وہ اکیلے ہی میدان میں دوڑ رہے ہیں، ہانپ اور کانپ رہے ہیں جبکہ ان کے مخالف ابھی ڈریسنگ روم میں بیٹھے ان کی آنیوں جانیوں اور پھرتیوں کو دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی میدان میں مقابلہ اس وقت ہو گا جب دونوں گھوڑے بھاگیں گے اور دونوں ٹیمیں مقابلہ کریں گی۔ وہ اپنی ہی کی ہوئی گیندوں پر خود ہی چھکے لگا کے جیت کا اعلان کر رہے ہیں، وہ کیسے سپورٹس مین ہیں؟
اب آگے بڑھیں، مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ اداروں میں سے ایک ادارے کو ان سے آخر تک امیدیں رہیں مگر اب وہ ادارہ بھی زچ ہونے لگا ہے۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ وہ تمام وقت، تمام لوگوں کو تمام معاملات پر بے وقوف بنا سکتے ہیں مگر ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ پچیس مئی کے واقعات پر جس طرح ملک کی سب سے بڑی عدالت کو دھوکا دیا گیا وہ اپنی جگہ ایک بڑا معاملہ بن چکا ہے۔
عمران خان وہ لاڈلا مگر بے وقوف بچہ ثابت ہوئے ہیں کہ جس بزرگ نے ان کوچوما، چاٹا، انہوں نے اسی کی داڑھی نوچ لی اور اسی کی گود میں چھوچھو کر دیا۔ میں یہ دعویٰ ہرگز نہیں کرتا کہ عمران خان کبھی اقتدار میں واپس نہیں آ سکتے۔ پاکستان کی سیاست اور کرکٹ ٹیم کے بارے میں کوئی بھی حتمی پیشین گوئی کوئی باولا ہی کر سکتا ہے مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ وہ محض پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے لئے ناقابل قبول نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے اپنی حماقتوں سے دوست ممالک اورعالمی اداروں تک کو اپنا مخالف بنا لیا ہے اور اب ایک فلاپ لانگ مارچ نے ان کی سیاسی تقدیر پرناکامی کا ایک اور ٹھپہ لگا دیا ہے۔