Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Janab Wazir e Azam, Ye Log Ghabra Gaye Hain

Janab Wazir e Azam, Ye Log Ghabra Gaye Hain

میرے لئے پریس کلب پہنچنا مشکل ہو گیا تھا کہ ڈیوس روڈ، مسلم لیگ ہاوس تک بلاک تھی۔ مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ شادی ہالز ایسوسی ایشن کا احتجاج چھوٹا موٹا نہیں ہے۔ مختلف علاقوں سے شادی ہالز مالکان اور کارکنوں کے جلوس آ رہے تھے۔ میں یہ گواہی دے سکتا ہوں کہ یہ لاک ڈاون کے آغاز سے لے کر اب تک بے روزگاری اور بھوک کے خلاف ہونے والا یہ سب سے بڑا احتجاج تھا جس میں سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں محنت کش شامل تھے۔ جب احتجاج کا اگلا سرا پنجاب اسمبلی کو چھو چکا تھا تو پچھلا سرا پریس کلب کے پاس تھا۔ متاثر ہ لوگوں کی تعداد کا اندازہ اس سے لگائیں کہ اب قصبوں کی سطح پر بھی ایک سے زائد شادی گھر موجود ہیں اور کسی بھی ایک شادی گھر سے پچاس سے زائد ہی افراد کا روزگار وابستہ ہو گا اور یہ پچاس افراد نہیں بلکہ پچاس خاندان ہوں گے۔

جب ایک شادی ہوتی ہے تو بے شمار کاروبار چلتے ہیں۔ آپ جہیز کو لعنت کہتے ہیں اور میں بھی کہتا ہوں مگر اس لعنت کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ نیا گھر بناتے ہوئے جب سامان کی خریداری کی جاتی ہے تو اس سے بے شمار صنعتیں چلتی ہیں۔ فریج، ٹی وی، ائیرکنڈیشنر خریدے جاتے ہیں۔ چلیں آپ لڑکی والوں پر یہ خرچ نہیں ڈالنا چاہتے کیونکہ آپ ایک اچھے آدمی ہیں تو اس کے باوجود بہت ساری خریداری لڑکے والوں کی طرف سے بھی ہوتی ہے۔ شادیوں کے سیزن میں عیدوں کی طرح درزیوں کے پاس نیا کام پکڑنے کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اب گھروں میں شادیوں کا رواج ختم ہو گیا کہ میزبان بھی مہمان کی طرح شادی ہالوں میں جاتے، کھاپی کے آجاتے ہیں۔ بیوٹی پارلرز والوں کو رزق ملتا ہے۔ ہر نکاح پر نکاح خواں بھی کئی ہزار روپے تک لے جاتا ہے۔ کوکنگ کے کام سے ایک دو نہیں بلکہ درجنوں افراد منسلک ہوتے ہیں۔ شادیوں ویڈیو اور فوٹو گرافی ایک علیحدہ صنعت بن چکی ہے۔ پیسوں والے ڈی جے بلواتے ہیں۔ پھولوں کی آرائش کی انڈسٹری الگ بن رہی ہے۔ درجنوں ویٹرز ہوتے ہیں جو محنت کش ہوتے ہیں، اللہ کے دوست ہوتے ہیں۔ وہ آپ کو کھانا سرو کرتے ہیں۔ جب آپ بوٹیاں نچوڑ کے واپس چلے جاتے ہیں تو وہ برتن دھوتے ہیں اور کپڑے دھوتے ہیں۔ کارڈ چھپوائے جاتے ہیں۔ بگھیاں اور گاڑیاں سجائی جاتی ہیں۔ بینڈ باجے بجائے جاتے ہیں۔ میراثی اوربھانڈ اپنا حصہ لے کر جاتے ہیں، ان سب کی گنتی نہیں ہوسکتی مگرشادی اور تقریبات سے متعلقہ کاموں سے کم از کم ستر لاکھ افرد کا روزگار وابستہ ہے۔

میں کورونا پر حفاظتی تدابیر کا مخالف نہیں ہوں مگر دوسری طرف خود عمران خان کہتے ہیں کہ کورونا لاک ڈاون نے غریب کا چولہا ٹھنڈ ا کر دیا ہے، اس کو فاقوں تک پہنچا دیا ہے مگر معذرت کے ساتھ، ان کا یہ بیان بھی دوسرے بہت سارے بیانات کی طرح محض بیان ہی ہے۔ آپ سندھ کی بات نہ کریں مگر کیا پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتیں ان کے بیانات کو اہمیت دیتی ہیں۔ وہ جس روز کہتے ہیں کہ لاک ڈاون نہیں ہوگا اور اس سے اگلے روز ہی لاک ڈاون ہوجاتا ہے۔ عمران خان کہتے ہیں اور بار بار کہتے ہیں کہ گھبرانا نہیں ہے مگر میں نے دیکھا ہے کہ ان ستر لاکھ افراد نے اب گھبرانا ہی شروع نہیں کیا بلکہ بات گھبرانے سے آگے بڑھ گئی ہے۔ ان میں سے بہت سارے رونے لگے ہیں، چیخنے لگے ہیں، بددعائیں دینے لگے ہیں اور شائد اگلا قدم اجتماعی خود کشیوں کا ہی رہ گیا ہے۔ یہ درست ہے کہ اس طبقے کی بے روزگاری کی آواز میرے پروگرام میں سب سے پہلے ڈی جے بٹ نے ہی اٹھائی تھی، جی ہاں، وہی ڈی جے بٹ جو دھرنے میں پی ٹی آئی کے میوزک اور ساونڈ کے منتظم تھے اور اس ویڈیو کے ذکر پر باقاعدہ رو پڑے تھے جو ایک باپ کی طرف سے اپنے تین بچوں کو غربت کے باعث پھانسی دینے کی وائرل ہوئی تھی۔ وہ اب بھی آواز تو اٹھاتے ہیں مگر وہ بے روزگاری کے خلاف پنجاب کی تاریخ کے اس سب سے بڑے احتجاج میں شامل نہیں تھے کہ اس سے کورونا کا مرض ایسے پھیل سکتا ہے، اس احتجاج کو پیپلز پارٹی کی پشت پناہی ہوسکتی ہے اور سڑکیں بلاک نہیں کر نی چاہئیں۔ میں نے احتجاج میں شامل بہت ساروں سے پوچھا کہ آپ کو کورونا سے مرتے ہوئے ڈر نہیں لگتا تو ان کا جواب تھا کہ بھوک سے مرتے ہوئے لگتا ہے۔ میں نے کہا کہ مجھے بہت سارے دانشورکہتے ہیں کہ ہمارے ہاں کورونا سے تو اموات ہوئی ہیں مگر بھوک سے نہیں ہوسکتیں تو ان کا کہنا تھا کہ ان سے کہو کہ جیب میں ایک روپیہ نہ ہواور وہ روزانہ اس بے بسی اور لاچاری کی حالت میں بطورباپ جب اپنی اولاد کا سامنا کریں تو کیا یہ مرجانے سے بھی برا نہیں ہے؟

امیر وں سے بہتر کون جانتا ہے کہ جب جیب میں نوٹ اور پیٹ میں روٹی ہو سب اچھا لگتا ہے مگرغربت اور بھوک سب رنگ، سب خوشیاں چھین لیتی ہیں۔ شادی ہالوں کو بند ہوئے چار ماہ گزر گئے۔ ہماری تو مڈل کلاس کے پاس بھی اتنے پیسے نہیں ہوتے کہ وہ بغیر کمائی کے ایک سو بیس دن گزار سکیں، مہینے بعد جیبیں خالی ہوجاتی ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ خالد ادریس بٹ نے ہمت اور جرات کے ساتھ قیادت کا مظاہرہ کیا۔ وہ گورنر پنجاب سمیت بہت ساروں سے ملے مگر ہر جگہ وعدے تھے، جھوٹے اور پھوکے وعدے۔ میری نظر میں پی ٹی آئی کے منشور اور کنٹینر سے کی گئی تقریروں جیسے وعدے۔ وہ بتاتے ہیں کہ شادی ہالوں میں تنخواہیں ور بل دینے کے پیسے نہیں رہے، مارکیوں کے پلاٹوں کے لاکھوں روپے ماہانہ کے کرائے نہیں دے پا رہے۔ میرے پروگرام میں میاں محمد الیاس اس پر پوری بریفنگ دے چکے ہیں کہ مہمانوں میں فاصلہ رکھا جا سکتا ہے، بُوفے کی جگہ ٹیبلز پر کھانے کی فراہمی ہوسکتی ہے، سینی ٹائزرز کا استعمال ہو سکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ یوں بھی شادی ہالوں میں لوگ نہا دھو کے، صاف ستھرے ہو کے آتے ہیں مگر یوں لگتا ہے کہ حکومت شادی ہال بند کر کے بھول گئی ہے۔ وہ بھول گئی ہے کہ یہاں کام کرنے والوں کے ساتھ بھی پیٹ لگے ہوئے ہیں اور یہ پیٹ اسی طرح کھانا مانگتے ہیں جس طرح ان ارکان اسمبلی کے مانگتے ہیں جن کی تنخواہوں میں اضافہ کر دیا گیا یا ان ناراض ارکان کی طرح جن کو اسی کرونا میں سینکڑوں کی تعداد میں مدعو کر کے کھلایا پلایا گیا کیونکہ ان میں سے بہت ساروں کی ناراضی ختم کرنا تھا جس کے لئے اطلاعات کے مطابق وزیراعظم ہرکسی میز پر خود گئے۔ جب ایوان وزیراعظم میں عشائیہ ہوسکتا ہے تو باقی جگہوں پر کیوں پابندیاں ہیں۔ کیا کورونا بھی عوام ہے جس کا ایوان وزیراعظم میں داخلہ بندہے؟

آپ نے بازار، کارخانے اور پبلک ٹرانسپورٹ سب کھول دئیے اور آپ خودکہتے ہیں کہ اس مرض کے سیریس مریضوں کی تعداد آدھی رہ گئی ہے۔ جب ان سب کے کھولنے سے کوئی قیامت نہیں ٹوٹ پڑی تو شادی ہال کھولنے سے بھی آسمان نہیں گر پڑے گا۔ اس وقت خود حکومت کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ہسپتالوں کے بیڈز خالی پڑے ہیں۔ آپ کا بنایا ہو ا فیلڈ ہسپتال ویران پڑا ہے تو آپ ان لاکھوں بلکہ کروڑوں لوگوں کی بددعائیں کیوں لیتے ہیں جنہوں نے آپ کے سامنے اب ہاتھ باندھنے شروع کر دئیے ہیں۔ برملا کہنا شروع کر دیا ہے کہ نہیں نہیں، خان صاحب اب نہیں، اب ہم بری طرح گھبرا گئے ہیں، اسد عمر اور میاں اسلم اقبال سمیت اپنے وزیروں مشیروں سے بھی کہیں کہ آپ کے ویژن کو فالو کریں، آپ کی باتوں کی لاج رکھیں، اگر آپ کے پیروکار ہیں۔