ایک پاکستانی نژاد تارک وطن جو ارب پتی ہو، اس کے پاس اعزاز ی قونصل شپ ہی نہیں بلکہ ستارہ امتیاز بھی ہو، اس کی عمران خان کے ساتھ ہی نہیں بلکہ شہباز شریف سے بھی عشروں سے قریبی دوستی ہو اور اسے یتیم خانہ بنانے کے لئے اپنے ہی خریدے ہوئے قیمتی پلاٹ پر قبضے کے خلاف ماتحت عدالتوں تک سے مدد اور انصاف نہ ملے جبکہ وہ اس عدالتی نظام میں حاضری کے لئے دوکروڑ روپے خرچ کرکے بار بار آرہا ہو، عدالت سے رابطے کر رہا ہو اورعدالت میں کہا جا رہا ہو کہ وہ اس کو سننے کے لئے بھی تیار نہیں کیونکہ اس کے مقابلے میں ایک تگڑا وکیل ہے، جو اس عدالتی نظام کو سمجھتا بھی ہے اور اس پر حاوی بھی ہے تو آپ اس نظام کے بارے میں کیا کہیں گے، اس کا دفاع کیسے کریں گے، اس سے امیدیں کیسے لگائیں گے۔ میں پاکستانی نژاد معروف فرانسیسی فیشن ڈیزائنر محمووبھٹی کو بار بار کہہ رہا تھا کہ وہ پاکستان میں اپنی فلاحی اور رفاہی سرگرمیاں بند نہ کریں مگر میرے پاس کوئی دلیل نہیں تھی کہ کیوں؟
محمود بھٹی، جدوجہد اور کامیابی کی ایک بے مثال داستان ہے۔ وہ اس کی بھی عملی تفسیر ہیں کہ عزت، دولت، شہرت اور کامیابی اسے ملی جو وطن چھوڑ گیا۔ پاکستان کی کل آبادی کا اس وقت اکہتر فیصد وہ ہے جسے ہم یوتھ کی کیٹیگری میں رکھ سکتے ہیں۔ اسی یوتھ نے کل پاکستان سنبھالنا ہے۔ اسی یوتھ کو جدوجہد اور کامیابی کی محمود بھٹی جیسی داستانیں سنانے کی ضرورت ہے، جی ہاں، اس داستان کواداروں میں پڑھایا جانا چاہئے مگر ہم اس داستان کو خوار کر رہے ہیں۔
یہ تیس برس سے زیادہ پرانی بات ہے جب محمود بھٹی نے پاکستان چھوڑا تھا اور فرانس چلے گئے تھے۔ انہوں نے وہاں پر سخت محنت کی اور نہ صر ف فیشن انڈسٹری میں اپنا مقام بنایا بلکہ پیسہ بھی بہت کمایا۔ ان کا لاہور میں گھر آرٹ گیلری محسوس ہوتا ہے۔ ان کا ڈیفنس میں نیشنل ہسپتال ملک کے بہترین اورمہنگے ترین پرائیویٹ ہسپتالوں میں سے ایک ہے۔ بہت سارے لوگ یہ دلچسپ نکتہ نظر اختیار کرتے ہیں کہ ایک مہنگا اور پرائیویٹ ہسپتال ملک یا عوام کی خدمت کیسے ہوگیا۔ بظاہر یہ سوال ٹھوس اور جاندار محسوس ہوتا ہے مگر اس کا جواب اتنا ہی دلچسپ اور اہم ہے۔ تارکین وطن کا پاکستان میں انویسٹ کیا گیا ایک ایک روپیہ اہم اور قیمتی ہے، پاکستان اور پاکستانیوں کی خدمت ہے۔
یہ بات الگ ہے کہ نیشنل ہسپتال میں کتنے فیصد غریبوں کا مفت علاج ہوتا ہے، اسے الگ ہی رہنے دیجئے مگر ایک ہسپتال کا بننا اور وہاں علاج کی سہولتیں فراہم ہونا بھی اہم ہے۔ وہاں وہی لوگ جاتے ہیں جو اسے افورڈ کرسکتے ہیں مگر وہ اس کے ذریعے ٹیکس ادا کر رہے ہیں، وہ اس کے ذریعے نوکریاں فراہم کررہے ہیں۔
یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم ایم ایم عالم روڈ پر بڑے بڑے ریسٹورنٹس کو دیکھتے ہیں جن کا پرہیڈ کھانا ہی تین، چار اور پانچ ہزار روپوں تک جا پہنچتا ہے تو کیا ان ریسٹورنٹس کو اس لئے بند کر دینا چاہئے کہ انہیں غریب افورڈ نہیں کرسکتے اور ان کی جگہ صر ف اور صرف ڈھابے ہی ہونے چاہئیں جہاں سو، ڈیڑھ سو روپوں میں نان چنے ہی کھائے جا سکتے ہوں جبکہ وہ ریسٹورنٹس ہزاروں نہیں لاکھوں کو ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ روزگار اور کاروبار فراہم کررہے ہیں۔ اس تصور کی حمایت کوئی بے وقوف اور احمق ہی کر سکتا ہے۔
بات کسی اور طرف نکل گئی مگر یہاں مجھے پھر ثاقب نثار بھی یاد آ گئے۔ وہ بھی ان کے ہسپتال پر حملہ آور ہوئے تھے اور برتن بجاتے ہوئے بہت مشہور ہوئے تھے۔ موصوف نے فرانس کے مشہور اور کامیاب فیشن ڈیزائنر سے پوچھا تھا کہ یہ تم نے کپڑے کس قسم کے پہن رکھے ہیں، اللہ اللہ۔ محمود بھٹی بتا رہے تھے کہ وہ مایوس ہوچکے، تنگ آ چکے۔ انہوں نے خود یتیمی کاٹی ہے لہٰذا انہوں نے ملتان روڈ پر یتیم خانے کے لئے ایک بڑا پلاٹ خریدا۔ اس پلاٹ کی پاور آف اٹارنی جنہیں دی گئی وہ اور ان کی اہلیہ اس کے مالک بن بیٹھے۔
بیرون ملک پاکستانیوں کو سب سے بڑا مسئلہ ہی ان کی جائیدادوں پر قبضہ ہے۔ وہ عدالت گئے، اب تک عدالتی پیشیوں کو بھگتنے کے لئے ہی وہ دو کروڑ روپے خرچ کر چکے ہیں مگر ان کو عدالت میں سنا بھی نہیں جا رہا سووہ تنگ آ چکے۔ ان کی بات نے مجھے دکھ دیا، وہ کہہ رہے تھے کہ پاکستان پچانوے فیصد فراڈیوں کا ملک ہے۔ یہاں فراڈ کرنے والے کو ہی عزت او ر طاقت ملتی ہے۔ وہ بتا رہے تھے کہ عمران خان اور شہباز شریف سے ان کی ذاتی دوستی ہے۔
وہ عمران خان کی جمائما سے شادی میں بھی شامل تھے اور اب بھی ان کا وزیراعظم شہباز شریف سے رابطہ ہے مگر اس کے باوجود انہیں انصاف نہیں مل رہا۔ انہوں نے اس ملک کے ستارہ امتیاز کو چاٹنا ہے یا قونصل جنرل ہونے کو۔ وہ سب کچھ واپس کر رہے ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اس وقت جو سینکڑوں سکالرشپس دے رہے ہیں، انہیں بند کررہے ہیں۔
وہ ڈیفنس میں ایک جدید ترین فیشن یونیورسٹی بھی بنانے جا رہے تھے اور اب اس منصوبے سے بھی دستبردار ہو رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ پنجاب یونیورسٹی میں سکالرشپس کی تقریب ان کی پاکستان میں رفاہی اور فلاحی سرگرمیوں کے حوالے سے آخری تقریب ہوگی کیونکہ وہ اس کا وعدہ کر چکے ہیں اور وہ دسمبر سے نیشنل ہسپتال میں مفت علاج کی سہولت بھی بند کر رہے ہیں۔
میرا محمود بھٹی سے کہنا یہی تھا کہ اگر سسٹم کی خرابی کی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے تو اس کا شکار عام، غریب پاکستانی بھی ہیں۔ آپ خود سوچیں کہ صرف ایک طاقتور وکیل کی وجہ سے آپ کو عدالت میں سنا نہیں جاتا اور جج کا اس کے باوجود صاف انکار ہوتا ہے کہ آپ اسے بتاتے ہیں کہ آپ فرانس سے صرف جج سے بات کرنے اور اپنا مقدمہ خود سنانے کے لئے آئے ہیں تو یہاں عام آدمی کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ ایسے میں پاکستان کو آپ کی اور آپ جیسے اور بہت ساروں کی ضرورت ہے جو یہاں سرمایہ کاری کریں، یہاں ملازمتیں فراہم کریں، اپنے پیسوں سے لوگوں کی مدد کریں، انہیں تعلیم دیں۔ ابھی مجھے کوئی امید نہیں کہ پاکستان کے اس گلے سڑے نظام میں کوئی بہتری ہوگی لہٰذا آپ اپنا فیصلہ بدلیں۔
میں نے دیکھا کہ میرے دلائل، اس سسٹم کی وجہ سے سخت توہین محسوس کرنے والے محمود بھٹی کی مایوسی اور انکار پر اثرانداز نہیں ہورہے تھے۔ محمود بھٹی اسی روز زمان پارک میں عمران خان سے ملاقات کر کے اور ان کی عیادت کر کے آئے تھے۔ میں نے مشورہ دیا کہ آپ کا وزیراعظم شہباز شریف سے رابطہ ہوا ہے، اگرچہ وہ ان دنوں آرمی چیف کی تقرری سمیت دیگر اہم ترین معاملات میں بہت مصروف ہیں مگر آپ ملاقات کرلیں، جواب میں سوال تھا، اس سے کیا فرق پڑے گا، کیا مجھے انصاف مل جائے گا تو میرے پاس کا بھی کوئی جواب اوریقین دہانی نہیں تھی۔
مجھے لگتا ہے کہ پاکستان ابھی بہت سارے برس ایسے ہی چلے گا۔ ہمارے لوگ اپنے وطن کی محبت میں یہاں آتے رہیں گے اور یہاں سے فراڈ کا شکار ہو کے اور بے عزتی کروا کے واپس جاتے رہیں گے۔ میرا مشورہ اور خواہش ہے کہ محمود بھٹی کو یہاں سکالرشپس بھی دینے چاہئیں، یہاں یتیم خانہ بھی بنانا چاہئے، غریبوں کو مفت علاج کی سہولت بھی دینی چاہئے اورایسی فیشن یونیورسٹی بھی بنانی چاہئے جس کے فارغ التحصیل ہزاروں محمود بھٹی بن جائیں مگر وہ ایک اور ہی فیصلہ کئے بیٹھے ہیں۔
پیارے قارئین آپ پاکستان کے نظام کو بہتر طور پر جانتے اور سمجھتے ہیں، بتائیے، کیا محمود بھٹی کا فیصلہ درست ہے؟