مجھ سے بہت سارے دوست پوچھتے ہیں کہ بہت سارے غیر معروف اورناتجربہ کار چہرے نیشنل چینلز پر بیٹھے ہوئے ہیں، تم کیوں سٹی چینل پر ہو تو میرا جواب ایک مسکراہٹ کے ساتھ یہی ہوتا ہے کہ اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا۔ سٹی فارٹی ٹو کے پرائم ٹائم لائیو کرنٹ افئیرز شو کی کامیابی کے ساتھ میرے ساتھ سٹی چینل اور ایشوز کو باندھ دیا گیا ہے مگر دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ سٹی چینلز پر مجھے وہ مسائل اٹھانے اور حل کروانے کے مواقع ملے جو نیشنل چینلز پر نہ ملتے۔
بطورصحافی اگر دیکھوں تو مختلف طبقات کے مسائل پر پروگرام کسی بھی سیاسی پروگرام سے کہیں زیادہ مشکل ہوتے ہیں۔ ان کا کانٹینٹ بنانا اور چلانا کہیں زیادہ ٹیکنیکل اور دشوار ہوتا ہے۔ انہیں صرف متعلقہ لوگ ہی دیکھتے اور اہمیت دیتے ہیں جبکہ سیاسی پروگراموں میں نواز شریف، عمران خان یا کسی بھی دوسرے پر تنقید سے آپ ہٹ ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی کسی کو گالی دے دے تو سپر ہٹ۔
میں ہمیشہ سے پروگرام کے کانٹینٹ اور اس کی پاپولیریٹی میں توازن کا قائل ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ اگر آپ چھاپے ماریں، سرکاری اہلکاروں سے بدتمیزی کریں یا ناجائز تعلقات وغیرہ کی چسکے لیتی ہوئی کہانیاں بیان کریں تو آپ کی سوشل میڈیا کی ویور شپ بہت بڑھ سکتی ہے مگر میری نظر میں صحافت کچھ اور ہے۔
میں نے یہ بھی کر کے دیکھا اور نتائج لئے ہیں۔ جب میں نے نیوز نائیٹ میں ہی پولیس سمیت سرکاری گاڑیوں سے پٹرول چوری کرنے کے بیچنے کی سٹوری کی تھی تواس کی مختلف حصوں کے ویوز پچیس سے تیس ملین تک پہنچ گئے تھے۔ معاشرتی برائیوں کی نشاندہی بھی صحافت ہے مگر میرا ایمان ہے کہ اس سے کہیں زیادہ اہم لوگوں کے مسائل ہیں۔
مجھے لاہور رنگ پر نیوز نائیٹ کرتے ہوئے جہاں اپنی کامیابیوں اورناکامیوں کو دیکھنا ہے وہاں مجھے نئی بات میڈیا نیٹ ورک کے چئیرمین چودھری عبدالرحمان، مینیجنگ ڈائریکٹر چودھری عبدالخالق، پراجیکٹ ہیڈ ہمایوں سلیم اور پروگرامنگ ہیڈ راؤ انعام کا بھی شکریہ ادا کرنا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ عوامی مسائل کے حل کے لئے آواز بلند کرنے کی مخالفت نہیں کی چاہے اس کی ریٹنگ کم ہی کیوں نہ آرہی ہو۔
چودھری عبدالرحمان اکثر کہتے ہیں کہ ہم نے جرنلزم کے ذریعے اپنے ہیروز کو ہیروز کہنا ہے اور ولن کو ولن دکھانا ہے اورمیں سمجھتا ہوں کہ نیوز نائیٹ، نے جس طرح یہ کام کیا ہے اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ہے۔
میں لاہور رنگ کی پانچویں سالگرہ پر دیکھ رہا تھا کہ ہمارے دفتر کے باہر سینکڑوں کی تعداد میں شہر کے غریب محنت کش تھے، یہ عوامی رکشہ یونین سے تعلق رکھنے والے رکشہ اور دوسری ٹرانسپورٹ کے ڈرائیور تھے۔ میں جناب مجید غوری اور ان کے ساتھیوں کا شکریہ ادا کر رہا تھا کہ انہوں نے ہماری محبت کا جواب محبت سے دیا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ لاہور رنگ لاہور کے غریبوں کی آواز بن گیا ہے۔
مجھے اس موقعے پر وہ کینسر کے مریض یادآرہے تھے جن کی ادویات بار بار بند کی گئیں اور ہم نے ان کے لئے دل کی گہرائیوں سے آواز بلند کی یہاں تک کہ اس وقت کی وزیر صحت ہمارے ساتھ ناراض ہوگئیں مگر کیا وزیروں، مشیروں کی ناراضی اہمیت رکھتی ہے، میری نظر میں تونہیں رکھتی۔ یہی وجہ ہے کہ جب پیف سکولوں کی تباہی کی جا رہی تھی یا پرائیویٹ سکولوں کو بندرکھ کے انہیں برباد کیا جا رہا تھا، جب سرکاری سکولوں کے ٹیچرز یا لیب اٹینڈنٹس سمیت دیگر طبقات کے ساتھ زیادتی کی جارہی تھی تو ہم نے وزیر تعلیم کی ناراضی کا بھی خیال نہیں کیا اور ان کی آواز بنے۔
ہم نے میڈیکل پروفیشن اور ایجوکیشن کی تباہی پر بھی آواز بلند کی اور سب سے زیادہ اس پر پروگرام کئے۔ ہم ڈاکٹروں، نرسوں اورپیرامیڈکس کے ساتھ ساتھ مریضوں کی آواز بھی بنے جن کی کوئی نمائندہ تنظیم تک نہیں ہے۔ ہمارا پروگرام واحد تھا جس نے درجہ چہارم کے ملازمین کی تنخواہوں اور مستقل ملازمت کے لئے بات کی اور اس سے بھی آگے جب پنجاب حکومت نے اپنے طاقتور اور من پسند افسران کو تنخواہوں میں ڈیڑھ سو فیصد اضافہ دے دیا اور دوسری طرف عام سرکاری ملازمین مہنگائی کے ہاتھوں پس کر رہ گئے تو انصاف کے نام پر حکومت کرنے والوں کی ناانصافی کے خلاف ہم نے اپنے پروگرام کا بہت بڑا وقت ایپکا کے لئے مختص کر دیا اورجب حکومت پر دباو بڑھا تو وہ باقی سرکاری ملازمین کو بھی الاؤنس دینے پر مجبور ہوئی۔
مجھے اپنے شہر کے سیاسی کارکن بہت پسند ہیں چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو۔ میں نے ہمیشہ ان کے لئے آواز بلند کی ہے۔ یہ ہمت اور شعور والے لوگ ہیں مگر سیاسی جماعتوں کی طاقتور لیڈر شپ ہمیشہ ان کے ساتھ زیادتی کرتی ہے۔ ان سے بیگار لی جاتی ہے اور جب اقتدار میں شئیرنگ کا سوال اٹھتاہے تو انہیں نظرانداز کر دیا جاتا ہے سو ہم نے ہمیشہ انہیں عزت اور اختیار دینے کی بات کی، ان کے ساتھ ریکارڈ پروگرام کئے۔
میں دیکھ رہا تھا کہ لاہور بھر سے تاجر ہمارے لےے کیک لا رہے تھے اور ان میں تاجروں کا قائد اعظم گروپ تو سو پاونڈ کا کیک بنوا کے لے آیا۔ تاجر ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہیں اور جب تک ہم تاجر کو اہمیت نہیں دیں گے ہم خوشحال نہیں ہوسکیں گے۔ نیوز نائیٹ لاہور کی ہر مارکیٹ اور ہر تاجر کی آواز بنا ہے اور مجھے خوشی ہورہی تھی کہ ہمارے تاجر بھائیوں نے ہماری اس محبت کو بھرپور انداز میں لوٹایا اور یہی وجہ تھی کہ ہم نے سکرین پر لکھا کہ ہم ہی تو ہیں لاہور سے اور لاہور ہمارا ہے۔
یہ نیوز نائیٹ ہی ہے جسے پٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن ہو، شوگر ڈیلرز ایسوس ایشن ہو، ایل پی جی ڈسٹڑی بیوٹرز ایسوسی ایشن ہو یاپولٹری ایسوسی ایشن ہو ہر کوئی سچ بتانے کے لئے اپنا ساتھی اور دوست سمجھتا ہے اور یہی ہماری سب سے بڑی کامیابی ہے۔
یہ ہمارے لئے فخر کی بات تھی کہ ہماری سالگرہ کی تقریب میں (پنجاب اسمبلی کے ٹوٹنے کا اہم ترین دن ہونے کے باوجود) گورنر پنجاب بلیغ الرحمان بھی موجود تھے اور میرے تلخ و شیریں سوالات کا جواب دے رہے تھے۔ لاہور ہی نہیں بلکہ ملک بھر میں جمہوری جدوجہد اور سیاسی کارکنوں کی پہچان خواجہ سعد رفیق نے خصوصی وقت دیا اور بہت دیر تک اپنے دل کی باتیں ہمارے ساتھ آن سکرین شئیر کرتے رہے۔ مسلم لیگ نون کے ارکان اسمبلی کے ساتھ ساتھ ہمارے ساتھ سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ اورسپیکر پنجاب اسمبلی سبطین خان بھی خصوصی طور پر رہے۔
ہماری پاک فوج کا ترجمان آئی ایس پی آر ہو یا ڈی جی اینٹی کرپشن او ر سی ٹی او سمیت ہمارے سرکاری افسران ہوں، ان سب نے لاہور رنگ کی پانچویں سالگرہ پر ہمیں جو عزت بخشی اس پر اللہ رب العزت کا شکر اور لاہور کے ہر خاص و عام کا جتنا بھی شکریہ ادا کیا جائے وہ کم ہے۔ میں ذاتی طور پر سمجھتا ہوں کہ ہم نے جو محبت لاہور کو دی وہ زندہ دلان لاہور نے بہت ساری مٹھاس کے ساتھ ہمیں واپس لوٹا دی۔
اب لاہور رنگ پورے پنجاب کی آواز ہے اور ہم اپنے اہل وطن کو یقین دلاتے ہیں کہ ہم صحافت کو عبادت سمجھ کر کرتے رہیں گے۔ آپ کے آنسو پونچھتے رہیں گے۔ آپ کی راہوں سے کانٹے چنتے رہیں گے۔ آپ کے زخموں پر مرہم رکھتے رہیں گے۔ آپ کے لئے ہم اپنا گلا پھاڑتے رہیں گے چاہے کوئی سنے یا نہ سنے، ہم اپنا فرض ادا کرتے رہیں گے، انشااللہ۔