Tuesday, 24 December 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Lesco Ki Nijkari Karo

Lesco Ki Nijkari Karo

لیسکو سے مراد صرف لاہور الیکٹرک سپلائی کمپنی نہیں بلکہ تمام ڈسکوز ہیں، لیسکو کا نام اس لئے استعمال کیا کیونکہ یہ میرے شہر کی بجلی فراہم کرنے والی کمپنی ہے ورنہ گیپکو ہویا فیپکو، حیسکو یا فیسکو ہر جگہ حالات بہت خراب ہیں۔ میں ایک طویل عرصے تک بجلی فراہم کرنے والی کمپنیوں کی نجکاری کے اسی طرح خلاف رہا ہوں جس طرح پی آئی اے اور ریلوے کی۔ دلیل یہ ہوتی تھی کہ یہ میرے ملک کے اثاثے ہیں اور کوئی ملکی یا غیر ملکی سرمایہ دا ر آئے گا اور میرے اثاثے لے جائے گا۔

دوسری دلیل یہ ہو تی تھی کہ ٹھیکیدار آئے گا تو وہ خدمات مہنگی کر دے گااو ر تیسری دلیل یہ کہ ملازمین کی نوکریاں داؤ پر لگ جائیں گی مگر گزشتہ رات میرے تمام خیالات تبدیل ہو گئے۔ مجھے لگا کہ میں سرکاری مال پر پلنے والے سانڈوں، نااہلوں اورنوسربازوں کا مقدمہ لڑ رہا ہوں۔ میں قائل ہوگیا کہ سرکاری تنخواہ لینے والے اور نوکریوں کے سرکاری تحفظ رکھنے والے کبھی پروفیشنل ازم کے ساتھ کام کر ہی نہیں سکتے۔ حکومتوں کا کام یہ نہیں کہ وہ کاروبار کرتی رہیں۔ ان کاکام یہ ہے کہ وہ ریگولیشنز بنائیں اور کمپنیوں کو کاروبار کرنے کے مواقعے دیں۔

پیر کی شب آنے والی آندھی نے موسم خوشگوا ر کر دیا تھا مگر ہوا یہی کہ اس ہوانے بہت سارے فیڈر ٹرپ کروا دئیے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ لاہور پر بہت زیادہ ترقیاتی فنڈز لگتے ہیں مگر حالات یہ ہیں کہ لاہور میں چڑیا بھی مُوت جائے تو بجلی بند ہوجاتی ہے۔ میں ڈی ایچ اے ایسٹ کا کسٹمر ہوں اوریہ سب ڈویژن ان میں شامل ہے جو سب سے زیادہ بل دینے والی ہیں۔ مجھے یہ کہنے میں عار نہیں کہ آزاد کشمیر کے تین روپے یونٹ سے لے کر خیبرپختونخوا کے بدمعاشی کے ساتھ بجلی چوری کرنے والوں کا بل بھی میں ہی دیتا ہوں۔

حکومت کبھی لائن لاسز اور کبھی فیول ایڈجسٹمنٹ چارجز کے نام پر میری جیب پر ڈاکہ ڈالتی ہے اوراس کے ساتھ ہی خیبرپختونخوا میں اٹھارہ سال تک کے بقایا جات کی معافی کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ یہ بے شرمی اور بدمعاشی کی انتہا ہے۔ ہر کمپنی اپنے اچھے کسٹمرز کا خیال رکھتی ہے مگر جیسے ہی بجلی جانے کے ایک، ڈیڑھ گھنٹے بعد واپس آئی تو ایک فیز اڑ چکا تھا۔ جن لوگوں کے تھری فیز میٹرز ہیں وہ جانتے ہیں کہ ایک فیز کے جانے کا مطلب کیا ہوتا ہے یعنی بجلی آبھی رہی ہوتی ہے اور نہیں بھی آ رہی ہوتی۔ عام طور پر گرڈ سے یا ٹرانسفارمر سے صرف ایک ڈی، کے سیٹ کرنے سے بجلی کی فراہمی بحال ہوجاتی ہے مگر سوال یہ ہے کہ یہ کام کون کرے، کتنی دیر میں کرے۔

میرے لئے آسان ہوتا ہے کہ لیسکو کے کسی عہدیدار یا یونین رہنماؤں کو فون کروں، وہ متعلقہ ایکسیئن یا ایس ڈی او سے کہیں اور کوئی نہ کوئی لائن مین آجائے مگر میں نے سوچا کہ میں ٹی وی پر بیٹھ کے ان کے حق میں بڑے بڑے بھاشن دیتا ہوں تو مجھے بھی بطور خریدار دیکھنا چاہئے کہ کمپنی کا رویہ کیا ہے۔ یہ عمومی رویہ ہے کہ سب دفاتر میں شکایات والا نمبر کریڈل سے اتار کے نیچے رکھا ہوتا ہے اور بہت ساری جگہوں پر یہ بہانہ ہے کہ ہمارے پاس اتنا سٹاف ہی نہیں کہ شکایت کے فون پر بٹھا سکیں۔

میں نے سب سے پہلے ان کے یونیورسل ایکسس والے فون نمبر ملانے کی کوشش کی تو وہ ناقابل رسائی تھے یعنی وہ کنیکٹ ہی نہیں ہو رہے تھے۔ اس کے بعد دوسرا مرحلہ آن لائن ویب پورٹل سی سی ایم ایس کا تھا اور حیرت انگیز طورپر وہ بھی ڈاؤن تھا یعنی وہ صفحہ ہی نہیں کھل رہا تھا۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ بارش کی وجہ سے شکایات کرنے والوں کا لوڈ زیادہ ہوگیا ہو مگر اس کی بنیاد پر ساری رات ہی سروس دستیاب نہ ہو تو اس کی کیا توجیہہ ہوسکتی ہے۔

دوسرے اہم ترین یہ ہے کہ جب خرابی ہوگی تب ہی صارفین رابطہ کریں گے لہٰذا یہ کوئی دلیل نہیں کہ ہماراسسٹم اس وجہ سے بیٹھ گیا کہ لوگ رابطہ کر رہے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نہ صرف بدترین سروسز فراہم کر رہے تھے بلکہ رہنمائی کرنے کے لئے بھی کوئی موجود نہیں تھا۔ میں نے اس کے بعد بل سے ایکسیئن اور ایس ڈی او کے نمبرز ٹرائی کرنے شروع کئے مگر ان میں سے ایک نمبر بند مل رہا تھا اور دوسرا اٹینڈ ہی نہیں ہو رہا تھا۔ ایک نمبر واٹس ایپ پر موجود تھا جس پر شکایت لکھ کر بھیجی مگر اس کا بارہ سے سولہ گھنٹے بعد بھی کوئی رپلائی نہیں تھا یوں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ اسی بدترین صورتحال میں سونے کی کوشش کی جائے۔

میں لیسکو کے ملازمین کی باتیں سنتا ہوں تو وہ کہتے ہیں کہ سٹاف کی بہت زیادہ کمی ہے مگر دوسری طرف اصل بات یہ ہے کہ لائن مین جیسی ٹیکنیکل سیٹوں پر یونین نے اپنے نان ٹیکنیکل بندے بھرتی کروا رکھے ہیں جو کام کے ہیں نہ کاج کے مگردشمن اناج کے ہیں۔ ملازمین کی آدھی کمی اسی طرح پوری ہوسکتی ہے کہ نان ٹیکنیکل سفارشی بھرتی کو نکال باہر کیا جائے اور اسی کو ملازمت دی جائے جو ٹیکنیکل کام جانتا ہو اور کام کرنا بھی چاہتا ہو۔

لیسکو کے سٹاف کو یہ کمال حاصل ہے کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں خرچہ ضرور لے کر آتے ہیں اور اگر کسی جگہ سے خرچہ نہ ملے تووہاں دوبارہ جاتے ہی نہیں۔ کچھ روز پہلے ایک لائن مین کو بجلی فراہمی بندہونے پر یونین رہنماؤں کی سفارش پر بلایا۔ اس نے ڈی لگائی جو دو منٹ کا کام تھا۔ مجھ سے اس نے کچھ نہیں کہا مگر بعد میں سوسائٹی کے گارڈز کے سر پر سوار ہوگیا کہ جب بلایا ہے تو خرچہ بھی دو اور پھر وہ ہزار کا نوٹ لے کر ہی گیا۔ لیسکو کی یہ صورتحال ہے کہ آپ نے میٹر لگوانا ہے یا کوئی بھی دوسرا کام کروانا ہے اس کی رشوت کے فکس چارجز ہیں۔ ان میں سے بیشتر چور بلکہ ڈاکو ہیں۔ یہ خود بجلی چوری کرواتے ہیں اور اگر کسی کو شبہ ہے تو اب بھی میں لاہور میں ایسے بہت سارے علاقوں میں لے جاتا ہوں جہاں ان کے مہینے لگے ہوئے ہیں۔

میں جس علاقے میں پہلے رہتا تھا وہ ایک گنجان آباد علاقہ تھا اور چوک میں ایک بہت بڑا ٹرانسفارمر لگا ہوا تھا۔ کیا آپ یقین کریں گے ایک مرتبہ رات گئے بجلی چلی گئی اور جب لوگ صبح نماز کے لئے باہر نکلے تو دیکھاکہ کئی ٹن وزنی ٹرانسفارمر ہی غائب تھا، وہ چوری ہو چکا تھا۔

آپ خود سوچیں کہ کیا ایک عام آدمی ٹرانسفارمر چوری کر سکتا تھا یا اسے چوری کرکے استعمال کرسکتا تھا، ہرگز نہیں، کچھ عشرے پہلے یہی کام پی ٹی سی ایل کے لائن مینوں کابھی ہوتا تھا اور وہ فون خراب ہونے پر اپنی جگہ گریڈ بائیس کے افسر ہوتے تھے مگر پھرپی ٹی سی ایل کی نجکاری ہوگئی اورمقابلے پر موبائل کمپنیاں بھی آ گئیں اور اب پی ٹی سی ایل کا نیٹ دو مرتبہ خراب ہوجائے تو لائن مین اپنا فون نمبر دے جاتا ہے کہ برائے مہربانی کمپلینٹ کرنے کی بجائے ڈائریکٹ مجھے بتا دیجئے گا میں آ کے ٹھیک کردوں گا اوراس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ اب حکومت کے داماد نہیں رہے۔

یہ بکوا س ہے کہ سرکاری اثاثے کوئی سرمایہ دار لے جائے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ زمینوں سے کھمبوں تک یہی رہیں گے ہوگا صرف یہ کہ پھر ان کی ویب سائٹس چلنا شرو ع ہوجائیں گی۔ شکایات کے ازالے شروع ہوجائیں گے۔ ہڈحرام اور چور اہلکار کام کرنے پر مجبور ہوجائیں گے۔ ویسے بھی رفتہ رفتہ سب سولر پر جارہے ہیں۔ یہ بجلی والی کمپنیاں آؤٹ ڈیٹڈ ہوتی جا رہی ہیں۔ حکومت فوری طور پر اس بوجھ سے جان چھڑوائے۔ اس سے قومی نقصان بھی کم ہوگا اور کارکردگی بھی بہتر ہوگی۔