یہ بات ایک سے زائدذرائع سے باہر آ چکی کہ انتیس نومبر کی اہم ترین تقرری کے موقعے پر یہ حالات پیدا ہو گئے تھے کہ مارشل لا لگنے والا تھا۔ ملک کی اہم ترین در ودیوار سے سرگوشیاں کرتے ہوئے میری معلومات میں اضافہ ہوا کہ کسی نے یہ جرات تو نہیں کی کہ اہم ترین تقرری کا اختیار رکھنے والی آئینی شخصیت کے پاس براہ راست مارشل لا کی دھمکی پہنچائی جاتی مگریہ بات کوبہ کو پھیلا دی گئی کہ اگر ایسا نہ ہوا تو پھر ویسا ہوگا۔
عمران خان سب کچھ نہ درست سمجھتے ہیں نہ درست کہتے ہیں مگر اتنی بات ضرور ہے کہ گیم ڈبل بھی ہو رہی تھی اور بڑی بھی ہو رہی تھی۔ یہ ایوان وزیراعظم میں بیٹھے ہوئے مفاہمت کی سیاست کے حامی شہباز شریف کے لئے بہت بڑا چیلنج تھا۔ مجھے وفاقی حکومت کی ایک تگڑی شخصیت نے فروٹ چاٹ، دہی بھلے اور شامی کباب کھلاتے ہوئے قہقہہ لگا کے بتایا کہ اگر یہاں شہباز شریف نہ ہوتے تو مارشل لا لگ گیا ہوتا۔ شہباز شریف نے کسی کو احساس ہی نہیں ہونے دیا کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔
میرا بھی اہم ترین شخصیت کی طرح یہی خیال ہے کہ اس مرتبہ اہم ترین تقرری کا معاملہ ماضی کے معاملات کی طرح سیدھا سادا نہیں تھا۔ میاں نواز شریف بھی بہت ساری تقرریاں کر چکے مگر انہیں صرف ایک ادارے سے معاملہ کرنا ہوتا تھا مگر شہباز شریف کے لئے یہ چومکھی لڑائی تھی۔ وہ نواز شریف کی طرح پارٹی اور حکومت میں آل ان آل نہیں تھے۔ انہیں اپنے بھائی سے بھی وفاداری نبھانی تھی، وہ بھائی جس کو چھوڑنے پر انہیں پرویز مشرف ہی نہیں بلکہ قمر جاوید باجوہ نے بھی وزارت عظمیٰ دے دینی تھی مگر صرف اپنے باپ کی طرح محترم بھائی کی محبت میں انہوں نے ہر مرتبہ وہ عہدہ ٹھکرایا جس کے لئے وہ اپنی محنت اور دیانت سے اہلیت ثابت کرچکے تھے۔
میں نے بہت پہلے بھی لکھا تھا کہ نواز لیگ کے جاتی امرا کے خود کش حملہ آوروں کو سوچنا چاہئے کہ وہ جب شہباز شریف پر حملے کرتے ہیں تو وہ کس بھائی پر کرتے ہیں۔ وہ بھائی جس نے اپنی حکمت اور صلاحیت سے اپنے بڑے بھائی کو کوٹ لکھپت کی جیل سے نکالا اور لندن بھجوادیا کہ ان کا بدترین مخالف چیختا چلاتا اور اپنے زخم چاٹتا ہی رہ گیا۔ وہ بھائی جس نے اپنی بھتیجی کواڈیالہ جیل سے نکالا اور عزت کے ساتھ واپس سہولت والے اپنے گھر میں پہنچا دیا۔ لوگ برادران یوسف کی بات کرتے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ اگر آپ کو اس کے تضادمیں کوئی مثال چاہئے تو شہباز شریف کا نام لیجئے، بھائی صرف یوسف کے ہی نہیں تھے، بھائی نواز شریف کا بھی ہے، اسے بھی یاد رکھئیے۔
میں نے کہا کہ یہ چومکھی لڑائی تھی، اس میں شہباز شریف نے فوج کے ادارے میں ہی اپنا فیصلہ نہیں منوانا تھا بلکہ اپنے اتحادیوں کو بھی راضی اورخوش رکھنا تھا اور پھر بڑا بھائی، اسے کیسے نظرانداز کیا جا سکتا تھا، اتحادیوں میں آصف علی زرداری نے مہربانی کی کہ اپنے دئیے ہوئے نام پر اصرار نہیں کیا یا کہہ لیجئے کہ پھڈا نہیں کیا کیونکہ وہ پھڈا کرنے والے سیاستدان ہیں ہی نہیں۔
مولانا فضل الرحما ن کے پاس کچھ لوگ پہنچے تو انہوں نے کہا کہ وہ اس فیصلے کے ساتھ ہو ں گے جو نواز شریف او رشہباز شریف کا فیصلہ ہوگا اوریہاں ایسی جماعتوں کو بھی مطمئن رکھنا تھا کیونکہ وہ لابنگ میں تھیں جن کے پاس ایک رکن تھا۔ ہم صحافی شہباز شریف کو پنجاب میں بہترین ایڈمنسٹریٹر کے طور پر تو جانتے اور مانتے ہی ہیں مگر جان اور مان لیجئے کہ وہ اتنے ہی بڑے سیاستدان بھی ہیں۔
صورتحال یہ تھی کہ ایک طرف جنرل قمرجاوید باجوہ الوداعی ملاقاتیں کررہے تھے مگر دوسری طرف خواہش تھی کہ انہیں روک لیا جائے۔ یہ خواہش اس قانون سازی نے پیدا کروائی جس میں آرمی چیف کی توسیع کو چونسٹھ برس کی عمر تک لے جایا گیا تھا اور باجوہ صاحب کے پاس کم و بیش دو برس موجود تھے کہ وہ مزید سربراہی کرسکتے۔
میں نہیں جانتا کہ بظاہر بدترین تعلقات اورناگوار ترین میڈیا مہم کے باوجود خان صاحب اور باجوہ صاحب کے درمیان رابطے اور تعلقات موجود تھے یا نہیں مگر یہ حیرت انگیز ہے کہ خان صاحب نے اسٹیبلشمنٹ کے پسندیدہ ترین اینکر کے پروگرام میں جا کے باجوہ صاحب کو اگلے انتخابات کے بعد اس وقت تک توسیع دینے کی غیر منطقی اورعجیب و غریب بات کردی تھی جب تک نیا وزیراعظم آکے فوج کے سربراہ کا چناؤ نہ کرتا۔ کیا یہ کوئی سازش تھی یا محض اتفاق جسے ہم انگریزی میں کوانسی ڈینس کہتے ہیں اور میں کہتا ہوں کہ یہ بات کوانسی ڈینس نہیں ہوسکتی۔
آئیے ایک اور مغالطہ دور کرلیں کہ باجوہ صاحب اور خان صاحب میں دوریاں ہوچکی تھیں بلکہ اصل معاملہ تو مونس الٰہی نے کلئیر کیا اور پھران کے والد صاحب نے اس پر مہر تصدیق ثبت کی، باجوہ صاحب نے تواس کی تردید تک نہیں کی۔ ہوا کچھ یوں کہ خان صاحب نے اپنے لئے تمام دوست اورمہربان ممالک جیسے سعودی عرب، امریکا، چین، ترکی، یو اے ای وغیرہ وغیرہ کے سربراہان کے دلوں اور دماغوں میں اچھے خاصے کانٹے بولئے تھے۔ اب فوج کے ایک سربراہ کے لئے ممکن ہی نہیں تھا کہ وہ اپنا وزن ایک ایسے حکمران کے پلڑے میں رکھتا جس نے دوست ممالک اور آئی ایم ایف جیسے ادارے کے ساتھ بھی ہاتھ کر دیا ہے۔
میں کہہ سکتا ہوں کہ باجوہ صاحب کا دماغ خانصاحب کے خلاف تھا مگر دل ان کے ساتھ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ جب پرویز الٰہی، خان صاحب کی صلح کے لئے متحرک ہوئے تو خان صاحب کو پرویز الٰہی کے ذریعے تین چوتھائی پاکستان کی حکومت عطا کر دی گئی۔ یہ ان کی فیاضی کی انتہا تھی۔ مجھے ایک اور بات بھی واضح کرنی ہے کہ اگر باجوہ صاحب کی کمانڈ ویسی ہی ہوتی جیسے آج سے تین برس پہلے تھی تو یقینی طور پر مارشل لا لگ جاتا مگر اب ان کی صورتحال پہلے جیسی نہیں تھی بلکہ بہت پیچیدہ ہوچکی تھی۔ اس کا اندازہ اس سے ہی لگا لیجئے کہ جہاں جنرل قمر جاوید باجوہ کو رخصت ہونا پڑا وہاں دو جرنیلوں کے مزید استعفے بھی آ گئے۔
ایک بات اور کہی جا رہی ہے کہ اگر صدر علوی سمری پر دستخط نہ کرتے اور عمران خان اس میں اپنا ایک روز پہلے دھمکی میں دیا جانے والا اڑنگا ڈال دیتے تو بھی مارشل لا لگ جاتا مگر میرے خیال میں یہ وہ وقت تھا جب تیر کمان سے نکل چکا تھا۔ اب اس تیر کو جو بھی ہاتھ میں لیتا وہ اپنے ہی ہاتھ کٹوا بیٹھتا۔ یہ مارشل لا والی کہانی اس سے پہلے کی ہے۔
عمران خان بازی ہار چکے تھے اور ان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ نئی اسٹیبلشمنٹ کے لئے جذبہ خیر سگالی دکھائیں۔ اس کا ثبوت اس سے بھی ملتا ہے کہ صدر علوی نے پہلی ملاقات کے موقعے پر فوج کے نئے سربراہ کو پیش کش کی کہ وہ ان کی بات عمران خان سے کرواتے ہیں مگر رپورٹس کے مطابق انہوں نے صاف انکار کر دیا۔
مورخ ابھی ماننے اور لکھنے سے ہچکچا رہا ہے کہ شہباز شریف نے خود کو بہترین ایڈمنسٹریٹر کے بعد بہترین سیاستدان بھی ثابت کر دیا ہے۔ سیاستدان، اپنی حکمت، فراست اور ذہانت سے معاملہ طے کرنے والے کو کہتے ہیں، راستہ نکالنے والے کو کہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی سیاست سے ہمالیہ جیسا بڑا پہاڑسرکر لیا ہے اور اب امید ہے کہ وہ مہنگائی سے جنگ میں بھی کامیاب ہوں گے، وہ پورے کالم میں ذکر کئے گئے واقعے سے کم خطرناک محاذ ہے۔