Saturday, 02 November 2024
    1.  Home/
    2. Nai Baat/
    3. Mian Muhammad Sharif Marhoom Ke Betay Ke Naam

    Mian Muhammad Sharif Marhoom Ke Betay Ke Naam

    وزیراعظم کے اسٹریٹیجک ریفارمز سیل کے سربراہ سلمان صوفی مدر ٹریسا ایوارڈ کے حامل اور خواتین کے حقوق کے لئے متحرک، میرے لئے بھائیوں کی طرح محترم ہیں، کہتے ہیں، جوائے لینڈ کو انہوں نے اس لئے نمائش کی اجازت دلوائی کیونکہ یہ آزادی اظہار رائے کا معاملہ ہے۔ وہ فلم کو نمائش کی اجازت دینے کے لئے سنسر بورڈ کو ہی حتمی بااختیار ادارہ سمجھتے ہیں اور میں یہاں اداروں کی آزادی پر شدید تحفظات رکھتا ہوں۔

    میں صحافی ہونے کی حیثیت میں آزادی اظہار رائے کا مخالف کیسے ہوسکتا ہوں مگر جب میں اپنے ارد گرد دیکھتا ہوں تو اس آزادی کے مادر پدر ہونے کا حامی بھی نہیں ہوسکتا۔ جوائے لینڈ کے ڈائریکٹر صائم صادق کہتے ہیں کہ جس نے فلم نہیں دیکھی، وہ اس پر تبصرہ کیسے کرسکتا ہے۔ بظاہر یہ بہت مضبوط اور طاقتور دلیل لگتی ہے مگر بہت بودی ہے، کمزور ہے۔

    کیا میں جب تک چوری نہ کروں مجھے چوری کا مخالف نہیں ہونا چاہئے اور جب تک شراب نہ پئیوں، زنا نہ کروں اور ڈاکہ نہ ماروں، مجھے ان سب کے خلاف بھی نہیں بولنا چاہئے۔ کیا اظہار رائے کی آزادی کا حق ہماری عزتوں، ہمارے مذہب، ہماری روایات اور اقدار سے بھی بالاتر ہے؟ جوائے لینڈ، مرد کی مرد سے محبت کی کہانی ہے اورمیں اس تعلق کا اتنا ہی مخالف ہوں جتنی قرآن نے مجھے قوم لوط کے بارے رہنمائی دی ہے، خبردار کیا ہے۔

    میرے ان تمام فلموں پر تحفظات موجود ہیں جو آسکر ایوارڈ تک پہنچتی ہیں۔ میرا سوال ہے کہ پاکستان سے وہی فلمیں اس ایوارڈ کے لئے کیوں نامزد ہوتی ہیں جو ہمارے معاشرے کے منہ پر کالک مل رہی ہوتی ہیں۔ اس سے پہلے خواتین کے چہرے پر تیزاب پھینکنے والی فلم اور اب ایک ایسے بائیولوجیکلی مرد سے دوسرے مرد کی محبت جو خود کو عورت سمجھتاہے۔

    حیرت ہے کہ اس فلم کو خواجہ سراوں کے حقوق کے بیانیے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے اور ڈاکٹر فرید احمد پراچہ کا معروف اداکار عثمان پیرزادہ سے سوال بالکل مناسب اور جائز تھا کہ اس فلم کے ذریعے خواجہ سراوں کے کن حقوق کا تحفظ کیا گیا جس کے جواب میں عثمان پیرزادہ کال کاٹتے ہوئے پروگرام سے ہی بھاگ نکلے۔ وہ اس سے پہلے تعریف کر رہے تھے کہ ٹورنٹو میں انہوں نے یہ فلم دیکھی اوراس کو جیوری کے ارکان نے دس پندرہ منٹ تک کھڑے ہو کر داد دی اور میرا سوال ہے کیوں۔

    یہ داد کیا فلم کی پروڈکشن کوالٹی کو تھی یا یہ داد ہم پر ایک کامیاب حملے کی تھی۔ کیا وجہ ہے کہ فلم کوباقاعدہ نمائش سے ہی پہلے ایل جی بی ٹی کیو کیٹیگری کا ایوارڈ بھی مل گیا، کیوں؟ وہ سوال تو درمیان میں ہی رہ گیا کہ یہ فلم خواجہ سراوں کے حقوق یا نیک نامی کا کس طرح تحفظ کرتی ہے۔

    اس میں بیبا، کو ایک ناچا ہی دکھایا گیا ہے اورا گر خواجہ سراوں کی امیج بلڈنگ ہی کرنا تھی تو اسے کوئی بزنس مین دکھا دیتے، پروفیسر، ڈاکٹر، جج یا صحافی ہی دکھا دیتے، ہم مان لیتے کہ واقعی خواجہ سراوں کے بارے میں اچھا تاثر دیا جا رہا ہے، وہی ماحول ہے اور وہی ناچے ہیں اور وہی ناجائز تعلقات ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ آرٹ اور فن کی کوئی حدود نہیں ہوتیں اور میں اس سے متفق نہیں ہوں۔

    جوائے لینڈ بنیادی طور پر ناجائز تعلقات کی کہانی ہے اور اس قسم کی کہانیوں پر فلمیں عام ہیں۔ میں نے سماج اور میڈیا کے طالب علم کے طور پر نوٹ کیا ہے کہ ہماری دلچسپی بے وفائی اور جنسی موضوعات پر غیر معمولی ہے۔ آپ بطور رائٹر کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو محبت کے نام پر سیکس اورعشق کے نام پر مذہب بیچنا شروع کر دیجئے، آپ ایک چھوٹے موٹے منٹو بن جائیے اور اگر آپ اس میں مذہب کا تڑکا بھی لگا دیں تو عمیرہ احمد بھی بن سکتے ہیں۔

    یہ کہانی رانا صاحب کی فیملی کے گرد گھومتی ہے جس کے دو شادی شدہ بیٹے کلیم اور حیدر ہیں۔ حیدر کی اپنی بیوی سے نہیں بنتی اور وہ روزگار کی تلاش میں ایک تھیٹر میں ناچنے کاکام شروع کردیتا ہے اور وہیں اس کی ملاقات بیبا سے ہوتی ہے اور وہ اس میں انٹرسٹ لینا شروع کر دیتا ہے۔ بات یہاں تک پہنچتی ہے کہ اس کی بیوی اسی غم میں خود کشی کر لیتی ہے اور رانا صاحب کے اپنے تعلقات ہمسائی کے ساتھ ہوتے ہیں مگر وہ اس سے شادی نہیں کرپاتے۔

    فلم کے حامی کہتے ہیں کہ کیا یہ سب کچھ معاشرے میں نہیں ہورہا اور میں کہتا ہوں کہ معاشرے میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ سب کچھ سکرین پر نہیں دکھایا جا سکتا جیسے ہمارے ارد گرد چلتے پھرتے تمام انسان ایک مخصوص عمل کے نتیجے میں پیدا ہو رہے ہیں مگر اس مخصوص عمل کی فلمسازی کو پورنوگرافی کہتے ہیں جس پرمکمل پابندی ہے سوہر سچ بولنے کی اجازت نہیں ہوتی۔

    یہ عجیب نہیں کہ ہم ایک ایسے مرد کو جو اپنی بیوی سے بے وفائی کرتے ہوئے ایک مرد سے تعلقات قائم کر رہا ہے، اسے ہیرو دکھا رہے ہیں، اسے گلیمرائز کر رہے ہیں۔ یقین کیجئے کہ فلم کی بنیادی خیال، مناظر اور ڈائیلاگز سب کے سب ہی گندے ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ اس نے دس، بارہ منٹ کے گندے سین نکال کے اسے اجازت دی ہے اور میرا کہنا ہے کہ اس کی تھیم ہی غلیظ ہے، دکھائے جانے کے قابل نہیں ہے۔ اسے کسی طور پر بھی فیملی فلم نہیں کہا جاسکتا، بات مذہب کی بھی ہے اور سماج کی بھی، وہ سماج جس میں گندگی بڑھتی جا رہی ہے۔

    میں جوائے لینڈ کی مخالفت اس لئے کر رہا ہوں کہ فلمیں کسی بھی معاشرے کی نمائندگی کرتی ہیں اور اس پر اثرات بھی چھوڑتی ہیں جیسے ہمارے گنڈاسہ کلچر نے بدمعاشی کو فروغ دیا۔ جب ہم فلموں اور ڈراموں میں مقدس اور محترم یعنی محرم رشتوں سے ناجائز تعلقات کو دکھاتے ہیں تو گویا ایک راہ دکھاتے ہیں۔

    سارے معاشرے اپنی اقدار کے حوالے سے حساس ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ فرانس نے حجاب پہننے پر پابندی اور جرمانہ لگایا ہے تواسے ساری دنیا قبول کر رہی ہے کیونکہ یہ ان کی اقدار کے مطابق ہے۔ برطانیہ سے امریکا تک میں آپ ان کی اقدار کے منافی نہ بچوں کو سکول میں پڑھا سکتے ہیں اور نہ ہی پرچار کر سکتے ہیں تو کیا اسلامی نظریاتی مملکت خداداد میں اپنے مذہب اور اقدار کے تحفظ کے لئے بات نہیں کی جاسکتی، دلچسپ بات یہ ہے کہ ہم جیسوں کو اس پر برا بھلا کہا جا رہا ہے۔

    میں جانتا ہوں کہ وزیراعظم شہباز شریف لبرل خیالات کے حامی ہیں مگر دوسری طرف میں یہ بھی جانتا ہوں کہ وہ میاں محمد شریف جیسی دینی شخصیت کے صاحبزادے ہیں جن کی زندگی اپنی مذہبی اور معاشرتی اقدار کے تحفظ میں گزری ہے۔ مجھے اس وقت حیرت ہوئی جب ان کی حکومت نے اس فلم کی پاکستان میں نمائش کی اجازت دی۔

    بنیادی بات یہ ہے کہ یہ فلم پاکستان میں نمائش کے لئے بنی ہی نہیں تھی مگر مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ جس ملک کی فلم ہو اور اس ملک میں وہ تیس دن تک زیر نمائش نہ رہی ہو اسے آسکر میں پیش نہیں کیا جا سکتا، سو یہ سب کچھ کرنا پڑا، آہ، ہم کب تک اپنے منہ پر کالک مل کے دوسروں سے داد لیتے رہیں گے، اپنے سر پر جوتے مار کے دوسروں سے واہ واہ کرواتے رہیں گے؟