Saturday, 02 November 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Pervez Rasheed Ki Gawahi

Pervez Rasheed Ki Gawahi

میری پرویز رشید کے لئے گواہی اس لئے معتبر سمجھئے گا کہ میں عشروں تک ا ن کے معاملات دیکھنے اور ان سے معاملات کرنے کے بعد یہ گواہی دے رہا ہوں، چلیں، ایک لمحے کے لئے میرے معاملات، مشاہدات اوراچھے برے ہوتے تعلقات ایک طرف رہنے دیجئے، آپ ایمانداری سے بتائیے، ایک شخص طاقتور وزیراعظم پر سیاسی، فکری، نظریاتی ہی نہیں ذاتی اور خاندانی اثرورسوخ رکھتا ہو اور وہ تین مرکزی اور نجانے کتنی صوبائی حکومتوں میں برسراقتدار رہنے کے باوجود کرائے کے گھر میں رہتا ہو تو اس کے درویش ہونے کی گواہی بنتی ہے یا نہیں کہ میں اس ریاست میں رہتا ہوں جہاں وزیراعظم تو ایک طرف رہے، ارکان قومی وصوبائی اسمبلی کے چمچے کڑچھے کروڑ اور ارب پتی ہوجاتے ہیں، ایک ایک ڈیل میں ا تنی اتنی کمیشن اکٹھی کر لیتے ہیں کہ کئی کئی نسلیں کھا، اڑا سکتی ہیں تو ایسے میں سیاست کے شوق میں اپنی فردوس مارکیٹ والی پائپ فیکٹری تک گنوادینے والا پرویز رشید ایک بہت مختلف، بہت اعلیٰ مثال نہیں ہے؟

چلیں، میں آپ کو شروع میں ہی بتاتا چلوں کہ میرے کچھ عرصے سے پرویز رشید صاحب سے تعلقات کچھ اچھے نہیں ہیں اور مجھے اس کی وجہ علم ہے، آپ کو بھی بتا دیتا ہوں، میر اگمان ہے کہ وہ ان کالموں اور ان میں دی گئی رائے کی وجہ سے مجھ سے نالاں ہیں جو آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں نواز لیگ کے الیکشن ہارنے کے بعد میں نے لکھے۔ یہ درست ہے کہ بہت ساری باتیں بہت زیادہ سخت تھیں بالخصوص مریم نواز کے حوالے سے، جنہیں وہ اپنی بیٹی کی طرح سمجھتے ہیں۔

پرویز رشید کی اہمیت اور طاقت دیکھئے کہ میاں نواز شریف بیرون ملک جاتے ہیں تو اپنی جان سے پیاری بیٹی ان کی سیاسی ہی نہیں بلکہ ذاتی سرپرستی میں چھوڑ جاتے ہیں اور پرویز رشید، مریم نواز کی اسی طرح حفاظت کرتے ہیں جیسے باپ بیٹی کی، بہرحال، میں یہ سمجھتا ہوں کہ مجھے ان کی پسند ناپسند کے لئے اپنی دیانتدارانہ رائے نہیں بدلنی چاہئے، ہاں، لفظوں کے انتخاب اور فقروں کی بناوٹ میں مزید محتاط ہونا چاہئے مگر کیا آپ اسی پرویز رشید کے اخلاق اور کردار کو دیکھیں گے کہ وہ اس کے باوجود میری فون کال بھی لیتے ہیں اور ٹیکسٹ کا جواب بھی دیتے ہیں چاہے لہجہ جتنا مرضی فارمل ہو، پہلے جیسا نہ ہو مگر مجھے تو اپنا فرض ادا کرنا ہے، اپنی گواہی دینی ہے۔

میں نے کہا، پرویز رشید سیاست کے درویش ہیں تو کہنے کے لئے میرے پاس بہت سارے حوالے ہیں، واقعات ہیں۔ میری پرویز رشید صاحب سے سلام دعا اس وقت ہوئی تھی جب ضیا شاہد صاحب کو مسلم لیگ نون سے خداحافظ کہا گیا تھا، اللہ بخشے، ضیا شاہد مرحوم سمجھتے تھے کہ اس کے ذمے دار پرویز رشید ہیں اور وہ کسی کو معاف کرنے کے عادی نہیں تھے۔

میں ان کے اخبار میں ایک رپورٹر تھا اور میرے پاس مسلم لیگ ن کی بیٹ تھی۔ مسلم لیگ کی تمام خبریں پرویز رشید کے پاس ہی ہوتی تھیں اوراس سے آپ میری ڈیوٹی کی نزاکت سمجھ سکتے ہیں۔ پرویز رشید نے اپنے بارے بہت کچھ شائع ہونے کے باوجود مجھے کبھی پروفیشنل حوالے سے شرمندہ نہیں ہونے دیا۔ پھر میں نے انہیں پرویز مشرف کے مارشل لا کے ابتدائی دنوں میں دیکھا۔

مارشل لائی قوتیں جتنی شریف فیملی سے نالاں اور خوفزدہ تھیں اتنی ہی پرویز رشید سے تھیں۔ انہوں نے یہاں بھی تعلق اور وفا کی انتہا کر دی۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب ہم بیگم کلثوم نواز کے ساتھ ان کے گھر گئے تھے کیونکہ انہیں بدترین تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا اورمٹی کی پہاڑی سے نیچے گرایا گیا تھا۔ ان کے کپڑے خون اور گندگی سے لت پت تھے جب ان کی فیملی کو ان کے بارے بتایا اور دکھایا گیا تھا۔ پرویز رشید ملک سے باہر چلے گئے تھے اور ملازمت کر کے اپنا وقت گزارتے رہے۔

نواز شریف ایک مرتبہ پھر وزیراعظم بنے اور پرویز رشید طاقتور ترین وزیر اور مشیر لیکن مجال ہے کہ ان پر کسی کرپشن کا الزام لگایا جا سکا ہو۔ الزام لگایا بھی گیا تو کتنا بھونڈا کہ پی ٹی وی کی چئیرمینی کی شان سمجھے جانے والے عطاء الحق قاسمی کو اس ادارے کا چئیرمین کیوں بنایالہذا ثاقب نثاری انصاف ہوا کہ ان سے تمام تنخواہیں ہی نہیں ان کے پروگراموں کے ائیرٹائم کا کمرشل ریونیو بھی لیا جائے، وہ دوربھی کیا شرمناک سانحہ تھا۔

میں نے اس مست ملنگ آدمی کو فون کیا کہ ہمارے دوست نوید چوہدری کے کالموں کی کتاب کی تقریب رونمائی ہے۔ پرویز رشید اس وقت وفاقی وزیر اطلاعات تھے۔ موصوف اپنی بہت ہی سال پرانی گاڑی خود ڈرائیو کرتے ہوئے الحمرا پہنچ گئے۔

میں نے کہا پرویز صاحب، خدا کا خوف کریں، دہشت گردی کا دور دورہ ہے اور آپ اس طرح بغیر سیکورٹی پھرتے رہتے ہیں جب کوئی صوبائی وزیر بھی پولیس کی گاڑی کے بغیر نہیں نکلتا، خیر، میں ان کے ساتھ اسلام آباد میں بھی ایک عام سی کار میں گھوما پھرا ہوں جب ہمارے ہاں عزت اور مقام کا تعین ہی گاڑی، بنگلے سے ہوتاہے۔ مجھے ایک مرتبہ کہنے لگے کہ مجھے سرکاری گاڑیاں ملی بھی ہیں اور اپنی خریدی بھی ہیں مگر جو مزا اور خوشی مجھے نئی سائیکل خرید کے اپنی وائف کو مال روڈ پر کی سیر کرانے پر لے جانے کا آیا تھا وہ پھر کبھی نہیں آیا۔

پرویز رشید وہ شخص ہے جس نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کے رخ موڑے ہیں، ہاں، یہ درست ہے کہ مجھے ان کی پالیسی سے اختلاف ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ نواز لیگ مزاحمتی جماعت نہیں ہے، اس کا ووٹر اور بیانیہ محاذ آرائی کے ساتھ وابستہ نہیں ہے، یہ امن، تعمیر اور ترقی والی جماعت ہے۔ سو، میں کھل کے کہہ دیتا ہوں کہ پاکستانی سوسائٹی اپنی بلٹ ان خصوصیات میں اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہیں ہے لہٰذا نواز شریف کو اس راستے پر نہیں چلنا چاہئے جو نہ انہیں کچھ دے نہ ملک اور عوام کو۔ مگر اس کے باوجود میں پرویز رشید کی امانت، دیانت اور صداقت کی گواہی دے سکتا ہوں جو مالی بھی ہے اور نظریاتی بھی ہے۔

ابھی قاسمی صاحب سے طریقہ کار ادھا ر لیتے ہوئے آخر میں صرف یہی کہوں گاکہ جو لوگ پرویز رشید کو جانتے ہیں، جنہوں نے ان سے کبھی معاملہ کیا ہے، وہ کسی ایسی ویسی ویڈیو کے بہکاوے میں نہیں آسکتے جو معتبر صحافی اسد طور کے مطابق فیک ہے۔ مجھے تو اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھ کے کہنا ہے کہ یہ ویڈیو پرویز رشید کے سیاسی، نظریاتی اور قومی کردار کی ہرگز، ہرگز نفی نہیں کرسکتی۔

مجھے نہیں علم کہ یہ ویڈیو کس نے بنائی اورپھیلائی مگر یہ اس وقت آئی جب عمران خان کی فوج کی مداخلت کے ذریعے اقتدار کے بیانیے کو شکست ہو چکی، پرویز رشیدجیسا کوچ نواز شریف جیسے کھلاڑی کے ذریعے جیت چکا۔ وہ نواز شریف جو اسٹیبلشمنٹ کے پلئیر کے طور پر آیا تھا اور اسے پرویز رشید نے آئین، جمہوریت اور عوامی حقوق کا فائیٹر بنا دیا تھا۔

آج سب پرویز رشید کی سوچ اور فکر کو درست تسلیم کر تے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ہماری فوج آئینی حدود میں رہے گی، غیر سیاسی رہے گی، حکومتوں کے بنانے اور گرانے میں کردارادا نہیں کرے گی۔ قوم اور ریاست کی تاریخ کی اس بلندتاریخ ساز جگہ پر کھڑے شخص کو اس ویڈیو کی کنکری کیا کہے گی، کیا نقصان پہنچائے گی؟