Thursday, 31 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Tehreek Chalne Se Bhi Pehle Khatam

Tehreek Chalne Se Bhi Pehle Khatam

تحریک انصاف کے بانی عمران خان اپنے تئیں اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بن رہے تھے مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنی وزارت عظمیٰ کے جانے سے آج تک مقتدر حلقوں سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ ان کی یہ آخری کوشش اس وقت کامیاب ہوئی تھی جب ان کے دندان ساز رہنما ایوان صدرمیں موجود تھے اور انہوں نے مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت کا غلط استعمال کرتے ہوئے اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو عمران خان سے ایک غیر آئینی اور غیر اخلاقی ملاقات پر مجبور کیا تھا۔

عمران خان اس وقت اونچی ہواؤں میں تھے اور سمجھتے تھے کہ پوری دنیا ان کے نیچے لگی ہوئی ہے۔ ان کی یہ غلط فہمی نو مئی کی شام تک رہی کہ وہ اپنے کلٹ کے ذریعے فوج کے دفاتر تک پر قبضہ کر سکتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ مہینوں سے ایک کمیٹی بنائے ہوئے بیٹھے ہیں جو فوج سے بات چیت کرنا چاہتی ہے مگر سپہ سالار کا عزم ہے کہ وہ اپنے آئینی کردار کے سوا کوئی دوسرا کردارادا نہیں کرے گا، وہ کسی صحافی یا کسی پراپرٹی ڈیلر سے بھی ملاقات نہیں کرے گا۔

یہ درست ہے کہ فکری اور عملی مغالطے پیدا کرکے عمران خان اینڈ کمپنی نے عوام کی ایک بڑی تعداد کو گمراہ کر لیا ہے مگر یہ بھی درست ہے کہ وہ سوشل میڈیا کی پیالی میں طوفان اٹھانے کے سوا کچھ بھی نہیں کر سکے۔ وہ نہ اپنی وزارت عظمیٰ بچا سکے اور نہ ہی تمام تر مزاحمت کے باوجود خود کو گرفتاری سے۔ وہ اپنے لانگ مارچ سے جان چکے ہیں کہ عوام ان کے ساتھ باہر نکلنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ان کے ساتھ صرف چند ہزار کا وہ کلٹ ہے جس کے ذریعے وہ اسلام آباد کی سڑکوں پرآگ بھی لگوا سکتے ہیں اورنو مئی کی حماقت بھی۔ انہوں نے پوری کوشش کی کہ امریکا سے مدد لے سکیں اور وہاں لابنگ فرمیں بھی ہائر کیں مگر کوئی فائدہ نہیں لے سکے۔ انہوں نے ریاست کے روایتی مخالفین کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔

یہ اعصاب کی جنگ تھی جس میں فوج کے سربراہ تمام تر دباؤاور ہرزہ سرائیوں کے باوجود کامیاب رہے۔ اب عمران ناکامی اور مایوسی اس حالت میں پہنچ چکے ہیں کہ آئینی، جمہوری اور سیاسی حکومت کو کٹھ پتلی کہنے کے بعداسی سے مذاکرات پر آمادہ ہو گئے ہیں۔ ان کی سیاسی جھولی اتنی خالی ہے کہ جب انہوں نے بائیس برس کی جدوجہد کے بعد اقتدار لیا تھا تو ان کے پاس اپنی پارٹی کا ایک بھی ایسا اہل بندہ نہیں تھاجو آدھے پاکستان یعنی پنجاب کی ایڈمنسٹریشن سنبھال سکے۔ انہوں نے نواز لیگ کے ایک سابق ٹاؤن ناظم کے حوالے پورا صوبہ کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ خیبرپختونخوا میں محمود خان بھی بُزدار پلس ہی تھا اور اب ستائیس برس بعد بھی ان کی سیاسی جھولی اتنی خالی ہے کہ حکومت سے مذاکرات کرنے کے لئے ان کے پاس اپنی پارٹی کا ایک بھی بندہ نہیں ہے اور تمام تر اختیارات محمود خان اچکزئی کو دے دئیے ہیں۔

پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ایکٹیویسٹ طویل عرصے سے شور مچا رہے ہیں کہ کوئی تحریک چلائی جائے مگرعملی زندگی میں رہنے والے جانتے ہیں کہ یہ پی ٹی آئی کے لئے ممکن نہیں ہے۔ عمران خان کو بھی حقیقت کا پوری طرح ادراک ہے مگر وہ اپنی غلطی ماننے کے لئے آج بھی تیار نہیں ہیں۔ یہ جو بار بار کہا جاتا ہے کہ خان ڈٹا ہوا ہے اس کی حقیقت یہ ہے کہ مقتدر حلقے نہ عمران خان سے بات کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی عمران خان کی مجوزہ ڈیل میں کوئی گارنٹر بننے کے لئے تیار ہے۔

سو مذاکرات پر آمادگی یہ بات واضح کرتی ہے کہ تحریک والا کوئی آپشن ہی نہیں ہے مگر دوسری طرف دلچسپ پوزیشن یہ ہے کہ فواد چوہدری سمیت دیگر نے تحریک کے سلسلے میں مولانا فضل الرحمان پر بہت زیادہ بھروسہ کرنا شروع کر دیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ مولانا ان کے ساتھ کسی بڑی حکومت مخالف تحریک کا حصہ بنیں گے تو وہ بندوں کو باہر نکال سکیں گے مگر شہباز شریف نے یہاں بھی عمران خان کو دھوبی پٹخا دے دیا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے، وزیراعظم شہباز شریف کی مولانا فضل الرحمان کے گھر آمدبہت بڑا پولیٹیکل بریک تھرو ہے۔

میں الیکشن کے اگلے دن سے ہی کہہ رہا ہوں کہ مولانا فضل الرحمان اپنا انتہائی ردعمل دے کر غلطی کر رہے ہیں۔ وہ انتہائی سمجھدار اور کائیاں سیاستدان ہیں، وہ سیاست کے مقاصد سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ یہ درست ہے کہ ان کے بہت سارے خواب ٹوٹے ہیں جیسے وہ کے پی اور بلوچستان کی حکومتیں ہی نہیں بلکہ ایوان صدر بھی اپنے قدموں تلے دیکھ رہے تھے۔ سوان کی مایوسی غیرمنطقی نہیں تھی مگر ان کے ردعمل سے ان کا بہت بڑا نقصان کر دیا ہے۔

شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان کے درمیان ملاقات میں سیاسی مقاصد آگے بڑھانے کیلئے کمیٹی کی تشکیل پر بھی اتفاق ہوا ہے۔ میرا تجزیہ ہے کہ اگر مولانا فضل الرحمان انتخابات کے بعد اپنے روایتی سنجیدہ موقف پر رہتے تو ان کی پارٹی کے پاس اہم وزارتیں بھی آسکتی تھیں اور صوبہ خیبرپختونخوا کی گورنری بھی رہ سکتی تھی۔ انہوں نے یقینی طور پر اپنی پارٹی کا سیاسی نقصان کیا ہے کہ اب پیپلزپارٹی سے کے پی کی گورنری واپس لینا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

بہت سارے لوگ شہباز شریف کی نرم خو مگر مستقل مزاج سیاست کو سمجھنے میں ہمیشہ غلطی کرتے ہیں۔ یہ شہباز شریف ہی ہیں جن کی جادوگری سے جیل والے آج اقتدار کے ایوانوں میں اور اقتدار کے ایوانوں والے آج جیلوں میں ہیں۔ یہ بات الگ ہے کہ موخر الذکرنے نو مئی کرکے اپنے لئے جیلوں کو زیادہ سخت کر لیا ہے۔ شہباز شریف اس وقت مولانا فضل الرحمان کو جا کر ملے ہیں جس سے ایک روز پہلے ہی بجٹ آیا ہے۔ اس وقت معیشت کی جوحالت ہے اس میں ٹیکسوں کی شرح اور وصولی میں اضافہ از حد ضروری ہے مگر ایسا بجٹ اپوزیشن کے لئے حلوے کی پلیٹ ہو سکتا تھا۔

شہباز شریف نے حلوے کی اس پلیٹ سے پی ٹی آئی کے لئے فاتحہ پڑھ کے حلال کرنے والا مولوی چھین لیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی یہ واضح ہوگیا ہے کہ اچانک کوئی سکائی لیب نہ گر گیا تو الگ بات ہے ورنہ شہباز شریف جس نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اقتدارسے رخصت ہونے کے بعد آئینی اور جمہوری طریقے سے دوبارہ وزیراعظم بننے والا اعزاز اپنے نام کر لیا ہے وہاں اس تجزئیے کو بھی پکا کر دیا ہے کہ پی ٹی آئی ہو یا کوئی دوسرا وہ حکومت کو گرانے کی اہلیت اور طاقت نہیں رکھتا۔

میں اپنا ایک تجزیہ دہرا دیتا ہوں کہ ایوان صدر میں مفاہمت کے بادشاہ آصف علی زرداری ہوں، ایوان وزیراعظم میں محنت اور صلاحیت والے شہباز شریف ہوں، پاک فوج کے سپہ سالارجنرل سید عاصم منیر جیسے آئین کے پابند پروفیشنل فوجی ہوں اورقاضی فائز عیسیٰ جیسے آئین، قانون، جمہوریت پسند قاضی القضاہ ہوں تو کوئی پاکستان کی ترقی کا راستہ نہیں روک سکتا، کوئی مادر وطن کی طرف ٹیڑھی یا میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکتا۔