(اگر آپ ٹرانس جینڈر بل پر اپنی رائے قائم کر چکے اور اس مظلوم طبقے کے لئے ہونے والی قانون سازی کو اسلام کے خلاف سازش قرار دے چکے تو اس تحریر کو پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ شکریہ)
سوال: کیاٹرانس جینڈر بل ہم جنس پرستوں کو شادیاں کرنے کی راہ دیتا ہے؟
جواب: اس بل کوآئے ہوئے چار برس گزر گئے۔ ہم ایک اسلامی اور روایتی سوچ رکھنے والے معاشرے میں رہتے ہیں۔ اگر ایسے واقعات ہوتے تو یقینی طور پرخاندان اور محلے والے خاموش نہ رہتے اور یہ بات میڈیا پر بھی آتی۔ اگر ایسے پانچ، سات واقعات بھی رپورٹ نہیں ہوئے تو باقی سب وہم ہے، گمان ہے، قیاس آرائی ہے۔
سوال: نہیں، نہیں، سینیٹ میں دئیے ہوئے جواب میں اس وقت کے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے کہا کہ تیس ہزار افراد نے جنس تبدیل کروائی، مرد سے عورت اور عورت سے مرد بنے؟
جواب: میں دو برس پنجاب اسمبلی پریس گیلری کمیٹی کا صدراور دو برس سیکرٹری رہا اور جانتا ہوں کہ اسمبلیوں میں جواب کتنے مضحکہ خیز آتے ہیں، بہرحال، اگر یہ جواب درست بھی ہے تو سوال ہے کہ چار برسوں میں کروڑوں شناختی کارڈنئے بنے یا ان کی تجدید ہوئی تو کیا ان میں غلطیاں نہیں ہوئی ہوں گے، تیس ہزار غلط اندراج کا درست ہونا بعید از قیاس نہیں۔ دوسرے جنس کی تبدیلی کی خبریں اب عمومی بات ہیں۔ جب ہم اپنی خوراکیں دیکھتے ہیں، میڈیا کے اثرات دیکھتے ہیں تو ہارمونز کا مرض ہونا کوئی بڑی بات نہیں۔ اب اگر ایک مرد عورت بن جائے یا عورت مرد بن جائے توکیا اس تبدیلی کا اندراج نہیں ہونا چاہئے، بالکل ہونا چاہئے۔
سوال: کیا یہ بل ہم جنس پرستوں کو راہ دینے کے لئے نہیں؟
جواب: نہیں، یہ اس مظلوم اور پسے ہوئے طبقے کے حقوق کی بات کرتا ہے جس کو قدرت نے محروم رکھا۔ کیا آپ مکمل توانا مرد ہیں یا خوبرو بھرپورعورت ہیں تو کیا یہ آپ کا کمال ہے اور اگر کوئی خواجہ سرا پیدا ہو گیا ہے تو اس میں اس کا کیا جرم ہے، کیا قصور ہے کہ اسے تعلیم، صحت، نوکری اور دیگر بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا جائے؟ اس کے لئے ان نادرا میں اندراج ضروری ہے اور اس اندراج کے لئے قانون بھی۔ یہ اسی کے لئے ہے کہ آپ خواجہ سراوں کی توہین نہ کریں، اس پر آپ کو سز ا ملے گی۔ پورے قانون کو متنازعہ بنانا بہت بڑا ظلم ہے۔ اعتراض قانون کی تیسری شق پر ہے جس میں سیلف پریسیوڈ آئیڈنٹیٹی دی گئی ہے۔
سوال: ہاں، ہاں، یہی تو غلط ہے کہ کوئی خود بتائے کہ اس کی جنس کیا ہے؟
جواب: ایک مرد یا عورت جب شناختی کارڈ کے دفتر جاتے ہیں تو کیا وہ خود نہیں بتاتے کہ ان کی جنس کیا ہے۔ کیا آپ کسی مرد کو کہتے ہیں کہ وہ مکمل مرد ہونے کا میڈیکل کروا کے لائے تو پھر خواجہ سراوں کو وہ حق کیوں نہیں دیتے جو آپ خود لے کے بیٹھے ہوئے ہو۔
سوال: ہماری جنس پر شک نہیں، ان کا معاملہ متنازع ہے سو اس لئے کیا نہ کہا جائے کہ ثبوت لاو؟
جواب: بالکل درست، آپ نادرا کے دفتر چلے جائیں اور وہاں جا کر کہیں کہ آپ مرد سے عورت ہونا چاہتے ہیں اگر وہ ثبوت اور ڈاکومنٹس کے بغیر کر دیں تو میں آپ کا دعویٰ مان لوں گا۔
سوال: نہیں نہیں، آپ ٹرانس جینڈر ایکٹ اٹھائیں اور کلاز تھری پڑھیں، اس میں لکھا ہوا ہے کہ کوئی پرسن، بھی اپنی جنس نادرا میں جا کے تبدیل کروا سکتا ہے، کیا نہیں لکھا؟
جواب: بالکل پرسن ہی لکھا ہے تو آپ کروا کے دکھا دیجئے، بغیر ریزن اور ثبوت کے نہیں ہوسکے گی اوردوسری بات یہ قانون آپ کے لئے نہیں ہے بلکہ یہ حصہ انٹرسیکٹ کے لئے بھی نہیں یہ صرف ٹرانس جینڈرز کے لئے ہے جن کی جنس پیدائش کے وقت غلط لکھی گئی ہو یا تبدیل ہو گئی ہو۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے مسیحی برادری کے لئے شادی بیاہ کا قانون بنے اور کہا جائے کہ کوئی پرسن اپنی وائف کو طلاق نہیں دے سکے گا۔ اب وہ پرسن یقینی طور پر مسیحی برادری کا ہی ہو گا کوئی مسلمان مرد یا عورت اس بنیاد پر دعویٰ نہیں کرسکتے اوراسی کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بل ٹرانس جینڈرز کے لئے ہے جن کی میڈیکل ہسٹری ہو گی۔
سوال: کیا آپ میڈیکل ہسٹری اور چیک اپ کے خلاف ہیں؟
جواب:، میرے خلاف ہونے یا نہ ہونے سے کیا ہوتا ہے، وہ کمیونٹی اسے اپنی توہین سمجھتی ہے کہ صرف اس پر یہ شرط لاگو ہو۔ وہ پہلے ہی دکھی اور محروم طبقہ ہے اسے مزید ذلیل نہیں کیاجانا چاہیے اور دوسرے عملی طور پر نادرا میڈیکل ہسٹری کے بغیر ایسے کیس لیتا ہی نہیں۔ نادرا کا ادارہ تو نام کے ہجے تبدیل کرنے ہوں تو نا ک رگڑوا دیتا ہے، آپ جنس تبدیل کرنے کی بات کرتے ہیں۔
سوال: تو آپ کیا کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں ہم جنس پرستی ہے ہی نہیں؟
جواب: میں نے کب کہا کہ نہیں ہے مگر وہ نہ نکاح کے چکر میں پڑتے ہیں اور نہ شناختی کارڈ کے۔ یہ جہاں ہے وہاں والے ہی سب سے زیادہ شور مچا رہے ہیں۔ کیا انہوں نے کبھی اپنے مفتی عبدالعزیزوں کے بارے بات کی۔ کیا انہوں نے کبھی اپنے مدارس کے ساتھ ساتھ ہاسٹلوں کے گھناونے کلچر بارے بات کی۔ وہاں کی بات نہیں کرتے جہاں بچوں پر جنسی تشدد ہوتا ہے اور اس کی سینکڑوں مثالیں ہیں جبکہ مرد کی مرد سے اور عورت کی عورت سے شادی کی کتنی مثالیں ہیں؟
سوال: اگر یہ سب کچھ ایسے نہیں تو شور کیوں مچا ہو اہے؟
جواب: یہ ایک فرسٹریٹڈ سیاسی گروہ ہے جو توجہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔ اسلام کے تحفظ اور مغرب کے مخالف نعرے سے زیادہ توجہ اور کسے مل سکتی ہے۔ یہاں تو عمران خان جیسے رہنما ریاست مدینہ کا نعرہ لگادیتے ہیں تاکہ توجہ ملے۔ یہ ایک آزمودہ اور مقبول طریقہ کار ہے۔
سوال: رہنے دیجئے، اگر کوئی ایسی بات نہ ہو تو نواز لیگ کی حکومت کیوں سرنڈر کرے، اس میں غلطی کو تسلیم کرے؟
جواب: ایک ایسی حکومت کیوں نہ فورا دباو قبول کرے جو اس سے پہلے ایسی سازش کا سامنا کر چکی۔ اس کا وزیراعظم مسجد کے اندر جوتا کھا چکا، اس کے ایک وفاقی وزیر کو گولی ماری جا چکی اور دوسرے کے منہ پر سیاہی پھینکی جا چکی۔ تب بھی ایسے ہی تھا کہ جب قادیانیوں کا شناختی کارڈ الگ ہو گیا، ان کی شناخت، پہچان اور سرکاری کاغذات الگ ہو گئے تو پھر ارکان اسمبلی کے کاغذات میں الگ حلف نامے کی کیا ضرورت ہے اور اگر کوئی الیکشن لڑنے کے لئے جھوٹ بولنا چاہے تو وہ پہلے جھوٹا حلف نامہ دے کر مسلم شناختی کارڈ بنوائے گا مگر کیا اس وقت کسی نے بات سنی، منطق اور دلیل کو راہ دی؟
سوال: آپ کیا چاہتے ہیں، میڈیکل سرٹیفیکیٹ نہ ہو؟
جواب: میں نے بتایا کہ یہ پہلے سے ہے، آپ نادرا میں میڈیکل ہسٹری کے بغیر جنس تبدیل کروا ہی نہیں سکتے۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ اس مظلوم اور محروم طبقے کے لئے جو قانون سازی ہوئی ہے اسے متنازعہ نہ بنایا جائے۔ اس کی بددعائیں نہ لی جائیں، اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ہر وقت اسلام کو خطرے میں ظاہر نہ کیا جائے۔ اصل خطرے میں وہ ہیں جن کی نسلیں اقتدار سے باہر گزر گئیں اور اب بھی سار ا پنڈ بھی مرجائے تو ان کے چوہدری بننے کا کوئی امکان نہیں۔