Wednesday, 30 October 2024
  1.  Home/
  2. Nai Baat/
  3. Wazir e Azam Afshan Latif Ki Baatein Sunen

Wazir e Azam Afshan Latif Ki Baatein Sunen

میرے سابق وزیراعظم عمران خان کے ذاتی اور سیاسی کردار بارے بہت سارے تحفظات ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جن کا ذکرڈاکٹر اسرار احمد، حکیم سعیداور عبدالستار ایدھی جیسی معتبر شخصیات نے کیا اور کچھ ا س سے ہٹ کر بھی اور بڑھ کربھی جیسے سوشل ویلفیئر ڈپیارٹمنٹ پنجاب کی گولڈ میڈلسٹ افسر، کاشانہ گرین ٹائون لاہور کی سابق سپرنٹنڈنٹ افشاں لطیف کے الزامات۔

وہ سابق وزیراعظم عمران خان، ان کی اہلیہ بشریٰ مانیکا، کٹھ پتلی وزیراعلیٰ عثمان بزدار اور کچھ سابق وزراء کے حوالے سے جو انکشافات کرتی ہیں وہ دل دہلا دینے والے ہیں۔ وہ کہتی ہیں عثمان بُزدار یتیم اور لاوارث بچیوں کی پناہ گاہ کاشانہ کو بغیر کسی پروٹوکول اور شیڈول کے رات کو چھُپ چھُپا کے وزٹ کرتا تھا اور اس کا سٹاف بھی۔ اس کی سی سی ٹی وی ویڈیوز موجود ہیں اور تحقیقات کے نتیجے میں ثبوت بھی۔

کاشانہ سے معصوم لڑکیاں نکاح کے نام پر غائب کی جاتی تھیں۔ دو درجن کے قریب لڑکیاں نکاح کے نام پر غائب کی گئیں مگر سرکاری ریکارڈ میں نہ ان کے شوہروں کے ایڈریسز ہیں اور نہ ہی شادیوں کی تصاویر۔ وہ اس سلسلے میں ایک لڑکی کائنات کی اندوہناک کہانی تصویروں کے ساتھ بیان کرتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ اس لڑکی کو چائلڈ پروٹیکشن بیوروکی مدد سے لے جایا گیا۔

لاہور کے ایک تھانے میں رکھا اور بشریٰ بی بی کو پہنچایا گیا، جی ہاں، وہی بشریٰ بی بی جن کا کالا جادُو بہت مشہور ہے اور اس کالے جادُو پر ایک حافظ (حافظ عاصم منیر) نے ہی اپنے وظیفوں سے قابو پایا ہے ورنہ اس نے عمران خان جیسے شاطر شخص کے ذریعے پوری ریاست کو نیچے لگا رکھا تھا۔ اس لڑکی کی لاش جب، افشاں لطیف کے مطابق، بنی گالہ سے واپس آئی تھی تواس میں سے اس کا دل، کلیجہ جیسے اعضا غائب تھے۔ افشاں کے پاس پوسٹمارٹم رپورٹ موجود ہے جس کے مطابق اس لڑکی کے کلیجے کو نکالا ہی نہیں بلکہ باقاعدہ چبایا گیا کہ اس کے کچھ حصے اور ذرات اس کی باڈی میں موجود تھے، استغفراللہ، کیسی خوفناک بات ہے۔

وزیراعظم شہباز شریف بہت مدلل، ٹھوس اور منطقی بات کرنے والے ہیں۔ وہ ہوائی باتیں نہیں کرتے۔ انہوں نے بیان دیاتھا کہ بشریٰ بی بی کے کالے جادو کے لئے بنی گالہ کی پہاڑی پر منوں گوشت جلایا جاتا تھا اور ان کے مطابق یہ گوشت مرغیوں کا ہوتا تھا مگر افشاں لطیف کے پاس اس سے ہٹ کے خوفناک انکشافات موجود ہیں۔ ایک تو وہ الزام عائد کرتی ہیں کہ جنسی ہوس کے لئے بھی لڑکیاں سپلائی ہوتی تھیں یعنی وہ کاشانہ سے بنی گالہ جاتی تھیں اور پھر غائب ہوجاتی تھیں، واللہ اعلم، وہ اس میں بہت سارے افسران کے نام بھی لیتی ہیں جو اس خوفناک سکینڈل پر ڈر کے مارے چُپ ہیں مگر اس سے پہلے وہ اس کا حصہ تھے۔

میں وزیراعظم کے گوشت جلانے والے بیان کو آگے بڑھاتے ہوئے افشاں کے خوفناک الزام کو شامل کروں گا کہ بات صرف جنسی اورجادوئی حوالوں سے کاشانہ کی بچیوں کی ہی نہیں بلکہ جون 2019ء میں یتیم اور لاوارث چھوٹے بچوں کے ادارے گہوارہ سے مبینہ طور پر پچیس بچے بھی غائب کئے گئے اور بنی گالہ پہنچائے گئے۔ افشاں لطیف اس سلسلے میں گہوار ہ کا پورا ریکارڈ اور فائلز وغیرہ بھی لئے پھرتی ہے اور الزام لگاتی ہے کہ بشریٰ بی بی نے اپنے کالے جادو کے لئے مرغیوں کے گوشت کو نہیں بلکہ ان بچوں کو جلایا تھا۔ استغفار۔

میں اس کہانی کو بیان کر رہا کیونکہ میں نے ہنستا مسکرایا کاشانہ بھی دیکھا ہے۔ مجھے ایک عید پرپروگرام ریکارڈ کرنا تھا اور میں نے وہ کاشانہ کی بچیوں کے ساتھ کیا تھا۔ تب پس پردہ معاملات چل رہے تھے مگر باقاعدہ سکینڈل منظر عام پر نہیں آیا تھا۔ وہاں بہت پیاری، پیاری معصوم بچیاں تھیں، پیارے قارئین، بالکل آپ کی ہماری بیٹیوں جیسی۔

میں نے ان سے ان کے خواب پوچھے تھے تو کوئی ڈاکٹر بننا چاہتی تھی اور کوئی پائلٹ مگر وہ جنسی ہوس اور کالے جادو کی نظر ہوگئیں سوجب میں ان بچیوں کے غائب ہونے یا مرنے کے بارے سنتا ہوں تو مجھے زیادہ دُکھ ہوتاہے کیونکہ میں نے انہیں ہنستے کھیلتے دیکھا تھا۔ میں نے افشاں سے زور دے کر پوچھا کہ تم ہی اکیلی سب سے بہادر، سب سے زیادہ سچی ہو کہ اس میں لاوارث بچوں اوربچیوں کے اداروں پر بہت سارے افسران کا کنٹرول تھا۔ اس کا جواب تھا کہ بہت سارے عمران خان اور عثمان بزدار کے ایجنٹ تھے، کالے کاموں میں حصے دار، وہ کیوں بولیں گے اور اگر ڈرپوک اور بے ضمیر نہیں بول رہے تو کیا وہ بھی نہ بولے؟ میرے پاس کوئی جواب نہیں تھا لہٰذا میرا تبصرہ یہی تھا کہ اس پر تحقیقات ہونی چاہئیں۔

افشاں لطیف نے ا نکشاف کیا کہ فوج سے ہائیکورٹ تک سب کی سطح پر اس کی تحقیقات ہو چکیں اور کوئی بھی اس کے الزامات کو جھوٹ قرار نہیں دے سکا۔ اس نے مجھے یاد دلایا کہ میرے ایک کالم پر اس وقت کے وزیراعظم عمران خان کے ملٹری سیکرٹری نے مجھے فون کیا تھا اور کہا تھا کہ بشریٰ بی بی نے آپ کی تحریر پر انکوائری کا حکم دیا ہے، آپ کے پاس جوانفارمیشن اور ثبوت ہے وہ دے دیں۔

میں نے کہا کہ میں صحافی ہوں، میرے پاس جو کچھ تھا وہ نیک نیتی کے ساتھ قلم کے حوالے کر دیا، آپ سچ تک پہنچیں۔ افشاں لطیف کہتی ہیں کہ وہ تحقیقات سچ تک پہنچنے کے لئے نہیں بلکہ سچ کو دبانے کے لئے تھیں۔ ان تحقیقات کے نام پر انہیں اور ان کے شوہر کو ڈرایا دھمکایا گیا اور ایک موقعے پر پنجاب کے وزیر نے انہیں کروڑوں روپے رشوت اورنوکری کی بحالی کی پیشکش بھی کی جو انہوں نے ٹھکرا دی۔

افشاں لطیف تو ون ویمن آرمی، ہے لیکن جب میں وزیراعظم سے درخواست کرتا ہوں تویاد آتا ہے کہ اس کے شوہر نوشاد حمیدبھی ون مین آرمی، ہی تھے جب وہ شہباز شریف سیکرٹریٹ کے جاوید اشرف مرحوم کی سیاسی شہادت کے بعد انچارج بنے تھے اورمشرف جیسے آمر کی انتظامیہ کو اپنے سیاسی احتجاجی پروگراموں سے چکرا کے رکھ دیا تھاجیسے ایک دن انہوں نے او ران کے ساتھیوں نے خود کو مال روڈ پر پنجروں میں بند کرلیا اوراپنے ہاتھ ہتھکڑیوں سے پنجاب اسمبلی کے باہر جالیوں سے تالوں سے باندھ کے چابیاں پھینک کرنواز شریف زندہ باد کے نعرے لگانا شروع کر دئیے۔

اب پولیس پنجرہ اور ہتھکڑیاں توڑے توانہیں گرفتار کرے تب تک میڈیا کا شو ہو چکا تھا یا ایک مرتبہ یہ سب نواز شریف کے جھنڈے اورتصویریں لے کر لاہور کی نہر میں کُود گئے اور نعرے بازی شروع کر دی، اب پولیس نہر میں اترتی تو گرفتار کرتی۔ مجھے کہنے میں عار نہیں کہ نوشاد حمید کی کمٹ منٹ اور قربانی کسی طور پر مرد حریت پرویز رشید سے کم نہیں تھی اور مجھے حیرت ہو رہی ہے کہ پاک فوج تو ایک طرف رہی، میاں نواز شریف، شہباز شریف اور مریم بی بی ان کی بات نہیں سن رہیں، کوئی تحقیقاتی کمیشن نہیں بنا رہیں، کیوں، یہ ملکی تاریخ کاایسا بڑا اور خوفناک سکینڈل ہوگاکہ آپ توشہ خانہ اور سائفر، وائفر تک بھول جائیں گے۔