یہ بات سمجھنے کے لئے انسان کا کاروباری، عملی اور منطقی ذہن رکھنا بہت ضروری ہے کہ ہمیں اپنے کسی بھی شعبے میں کاروبار کو کم یا معطل ہونے سے بچانا ہے کہ کاروبارچلتے رہیں گے تو حکومتوں کو ٹیکس اور عوام کو روزگار ملتے رہیں گے لیکن جہاں آپ پہیہ روک دیں گے وہاں ریاست مجموعی طور پر نقصان برداشت کرے گی، جی ہاں، ریاست نہ صرف حکومت ہوتی ہے اور نہ ہی صرف عوام، یہ دونوں سے مل کر بنتی ہے اورمیں عمران خان کی حکومت کی تمام تر نااہلی اور کرپشن کے باوجود سمجھتا ہوں کہ اس دور میں ٹیکسٹائل اور ہاؤسنگ کے شعبے نے اپنی سانس بحال کی، بہت سارے لوگوں کے گھروں کے چولہے بجھنے سے بچائے اور حکومتی ریونیو میں قابل قدر اضافہ کیا۔ کیا میں شہباز شریف سے امید رکھ سکتاہوں کہ وہ مسلم لیگ نون کی حکومت کو ہماری معیشت کے ان دو بنیادی شعبوں کی تباہی کے ساتھ بریکٹ نہ کریں؟
مفتاح اسماعیل کی وزارت خزانہ نے ایک مرتبہ پھر ہاؤسنگ سیکٹر پر بے پناہ ٹیکسوں کا بوجھ ہی نہیں لادا بلکہ غیر مرئی طور پر سرمایہ کاری کو بھی مشکل بنا دیا ہے۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں کہ رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کو روکا جانا چاہئے تاکہ ایسے دوسرے شعبوں میں روپیہ لگے جہاں سے براہ راست جی ڈی پی بڑھے اور عوام کو روزگار ملے۔ یہ بات کتابی طور پر درست ہے مگر عملی طور پر غلط ہے کہ ہماری کرپٹ بیوروکریسی کے ہوتے ہوئے کسی بھی ایسے سرمایہ دار کے لئے جو کوئی آسان اور محفوظ سرمایہ کاری کو ڈھونڈ رہا ہو فیکٹری یا کارخانہ لگانا تو ایک طرف کوئی دکان تک بنانا ممکن نہیں۔ میرے محترم صحافی دوست جن کے صاحبزادے اس وقت لاہور کے نیم پوش ایریا میں میڈیکل سٹور کی ایک فرنچائز آؤٹ لیٹ چلا رہے ہیں وہ بتا رہے تھے کہ ڈرگ اورلیبر انسپکٹرز تو ایک طر ف رہے وہ پی ایچ اے تک کو بھتہ دینے پر مجبور ہیں۔ میں نے حیرانی سے پوچھا کہ میڈیکل سٹور سے پی ایچ اے کا کیا تعلق، جواب ملا، بورڈوں کے نام پر لے جاتے ہیں ورنہ تنگ کرتے ہیں۔ میں ایک بنیادی بات سمجھانا چاہتا ہوں کہ ہر اس روپے سے جو کسی کے پاس گھر میں چھپا ہوا پڑا ہو یا وہ دوبئی اور ترکی سمیت کسی بھی ملک میں بھیج دیا گیا ہر وہ روپیہ بہتر ہے جو ملک میں موجود ہو اور چاہے بینک میں رکھا گیا ہو کہ وہ بھی بالواسطہ طور پر کاروبار میں ہی استعمال ہو رہا ہے۔ اب بینک میں رکھے ہوئے ہر اس روپے سے وہ روپیہ بہتر ہے کسی کاروبار میں براہ راست لگا دیا گیا ہو اور اس کے بعد ہی ہم درجہ بندی کر سکتے ہیں کہ کون ساکاروبار بہتر ہے۔
رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری روکنے کی دوسری دلیل بظاہر خوش کن مگر درحقیقت تباہ کن ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگر آپ رئیل اسٹیٹ کی حوصلہ شکنی کریں گے تو عوام کو پلاٹ سستے ملیں گے۔ یہ ایک گمراہ کن تصور ہے کہ آپ کاروبار کو روکیں، یہ معاشی ترقی کو روکنے کا طریقہ ہے۔ عوام کو سستے پلاٹ ملتے رہیں گے بس یہ ہو گا کہ انہیں نئی سکیموں میں جانا پڑے گا جبکہ پرانی سکیمیں منافع کے ساتھ سرمایہ کار کو ہی نہیں بلکہ حکومت کو بھی ٹرانسفر سمیت ہر شعبے میں ریونیو فراہم کرتی رہیں گی۔ کسی بھی حکومت کی اصل کامیابی یہ ہوتی ہے کہ وہ کتنا ریونیو جنریٹ کرتی ہے کہ اسی جنریشن کی بنیاد پر وہ قرضوں پر انحصار کم کر سکتی ہے اور ملکی ترقی کے منصوبے بنا سکتی ہے۔ کسی بڑے معاشی دانشور کو چھوڑئیے لاہور کے کسی پراپرٹی ڈیلر سے ہی پوچھ لیجئے کہ جب اسحق ڈار صاحب نے ٹیکس ڈبل کردئیے تو اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ لاہور کی وہ ہاؤسنگ اتھارٹی جہاں روزانہ ڈیڑھ، دو سو پلاٹس یا فائلیں ٹرانسفر ہو رہی تھیں ان کی تعداد دس سے پندر ہ پر آگئی یعنی نوے فیصد کمی۔ اب آپ سادہ سا اندازہ لگائیں کہ آپ نے ٹرانسفر پر وفاقی اور صوبائی ٹیکس پچاس ہزار سے بڑھا کے ایک لاکھ کر دئیے تو پچاس ہزار کے ساتھ آپ کوروزانہ کا ایک کروڑسے بھی زیادہ ٹیکس مل رہا تھا وہاں آپ پندرہ بیس لاکھ روپوں پر آ گئے۔ پہلے سے ٹیکس دینے والوں کو نچوڑنے کے بجائے کاروبار کو بڑھانا اور ٹیکس بیس کو بڑھانا کتنا فائدہ مند ہے، یہ کامن سینس کی بات کوئی ایف بی آر کا تنخواہ دار سرکاری بابو نہیں بتائے گا۔
سمجھنے کی بات تو یہ بھی ہے کہ جب رئیل اسٹیٹ کا سیکٹر چلتا ہے تو اس کے ساتھ پچاس دوسری صنعتیں چلتی ہیں جیسے سیمنٹ بجری سٹیل برکس شیشے وغیرہ کے کارخانے، بیسیوں چھوٹے چھوٹے دھندے کرنے والوں کو کام ملتا ہے جیسے رنگ کرنے والے، لکڑی کا کام کرنے والے، ویلڈنگ کا کام کرنے والے وغیرہ وغیرہ۔ اسی کے ساتھ ٹرکوں سے پک اپس تک چلتی ہیں جو پٹرول پر ٹیکس دیتی ہیں جو سڑکوں پر ٹیکس دیتی ہیں۔ ایک اور دلیل دی جاتی ہے کہ رئیل اسٹیٹ سیکٹر بڑے شہروں کے ساتھ ہماری زرخیز زمینوں کو کھا رہا ہے اور یہ بات اس ملک کے لوگ کر رہے ہیں جس کے پاس ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں اور کروڑوں ایکڑ بے آباد اور ویران پڑے ہیں۔ آپ یہاں سے ٹیکس جنریٹ کیجئے، لوگوں کو روزگار دیجئے اوراس کے ساتھ ہی غیر آباد، بنجر اور غیر ہموار زمینوں کو آباد کرنے کے میگا پراجیکٹ کا آغاز کر دیجئے۔ اس سے ڈبل فائدہ ہو گا کہ ایک طرف وہ مالکان پیسے لے کر کاروبار کی طرف آئیں گے اور دوسری طرف آپ نئے کاشتکار بنائیں گے، نئے علاقے آباد کریں گے۔
میں مفتاح اسماعیل کو نہیں سمجھا سکتا مگر کیا مجھے شہباز شریف کو بھی سمجھانا پڑے گا کہ ہمیں روپے کی نقل و حرکت کو بڑھانا ہے، اسے کم نہیں کرنا، اسے روکنا نہیں ہے۔ سادہ سے مثال لیجئے کہ جب ایک شخص اپنی سرمایہ کاری پر پرافٹ کماتا ہے تو وہ دوسری جگہ سرمایہ کاری کرتا ہے یعنی مزید کاروبار اور مزید ٹیکس اوریہ سب کچھ وہ اپنی مرضی بلکہ خوشی سے کرتا ہے۔ جب ایک پراپرٹی ڈیلر ایک سودے پر پچاس ہزار یا لاکھ روپے کما لیتا ہے تو وہ اپنے سٹاف کو تنخواہیں دیتا ہے، اپنے بچوں کی فیسیں ادا کرتا ہے، بیوی کو شاپنگ کرواتا ہے اور باقی تمام شعبے بھی اس کے کمائے ہوئے پیسے سے کھاتے، کماتے ہیں۔ مجھے ایک بہت بڑے شخص نے بتایا جس کا بٹراینڈ بریڈ اسی شعبے سے ہے کہ وہ اس مرتبہ اتنی قربانی کرنے کی سکت نہیں رکھتا جتنی وہ پہلے کرتا رہا ہے کیونک اس کے پاس منافع اور بچت ہی نہیں ہے یعنی آپ نے قربانی کے کاروبار کو بھی نقصان پہنچایا۔ میں حرام کمائی کا حامی نہیں اور نہ ہی بلیک منی کا وکیل ہوں مگر میں گرے منی اوران ڈاکومینٹڈمنی کو ضرور اسی طرح اپنی ملکی ترقی کا حصہ بنتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہوں جیسے کبھی سوئٹزر لینڈ نے کیا، جیسے دوبئی نے کیا اور جیسے اب ترکی کر رہا ہے۔ یہ مت کہئے گا کہ فیٹف کی وجہ سے یہ ممکن نہیں، ہم نے رئیل اسٹیٹ میں رعایات اسی فیٹف کی شرائط کو پورا کرتے ہوئے دی ہیں اور جو سہولت عمران خان کی حکومت دے سکتی ہے وہ شہباز شریف کے لئے مشکل اور ناممکن کیوں ہے؟
آخری بات، میری خواہش ہے کہ لوگ اسی طرح آسانی سے بینکوں کے ذریعے گھروں کے مالک بنیں جیسے کینیڈا، امریکا اور یورپ میں بنتے ہیں۔ وہ کرائے کے بجائے گھر کی قسط دیں مگر افسوس ہے کہ حکومت نے اس سلسلے میں جاری سکیم کو معطل کر دیا ہے۔ اس سے بہت سارے لوگوں کا بیعانہ بھی خطرے میں پڑ گیا ہے جنہوں نے قرضہ لینے کے بعد باقی ادائیگی کرنی تھی۔ اس سکیم میں کچھ اصلاحات ضروری ہیں تو وہ جاری عمل کو روکے بغیر کی جانی چاہئیں جیسے ہمیں اب ہائی رائز بلڈنگز کی طرف جانا ہوگا۔ شہباز شریف ایک ذہین، سمجھدار اور پریکٹیکل شخصیت کا نام ہے، امید ہے وہ رئیل اسٹیٹ، ہاؤسنگ اور کنسٹرکشن کے ماہرین کے مشورے سے سرمایہ کاری کی ایک قابل تعریف اورشاندار پالیسی دیں گے اور موجودہ تباہ کن فیصلے فوری طور پر واپس لینے کا اعلان کریں گے۔