دین اسلام کی بنیاد توحید کے بعد جس اساسی عقیدے پر قائم ہے وہ ہے نبی آخرالزماں پر نبوت اور رسالت کے مقدس سلسلے کی تکمیل ہوجانا۔ آپ ﷺ کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم ہوگیا ہے ہمیشہ کے لیے، خطبہ حجۃالوداع کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے فرما دیا ہے" آج میں نے تمہارے لیے تمہارا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لیے اسلام کو (بطور) دین (یعنی مکمل نظام حیات کی حیثیت سے) پسند کرلیا۔ (سورۃ المائدہ 3)
نبی کریم احمد مجتبیٰ حضرت محمدﷺ نے فرمایا "مجھ سے پہلے انبیا کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے گھر تعمیر کیا اور اس کی سجاوٹ اور بناوٹ میں چار چاند لگا دیے لیکن ایک گوشے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی لوگوں نے دیکھ کر خوشی کا اظہار کیا لیکن ایک اینٹ کی کمی کا بھی دکھ بیان کیا کہ یہ اینٹ بھی کیوں نہ رکھ دی گئی؟ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا، پس میں ہی وہ آخری اینٹ ہوں، میں ہی خاتم النبین ہوں۔ " حضرت محمد ﷺ کے آخری نبی ہونے پر ایک سو آیات واضح طور پر دلالت کرتی ہیں اور دو سو دس احادیث مبارکہ واضح طور پر مسئلہ ختم نبوت پر موجود ہیں۔ مسئلہ ختم نبوت دین اسلام کا واحد بنیادی مسئلہ ہے۔
دین کے باقی مسائل اس کے گرد گھومتے ہیں کلمہ طیبہ کی روح مسئلہ ختم نبوت ہے اور کلمہ طیبہ کا دل بھی مسئلہ ختم نبوت ہے۔ مسئلہ ختم نبوت دین اسلام کا واحد بنیادی مسئلہ ہے۔ ہر زمانے میں جھوٹی نبوت کا دعویٰ کرنے والے پیدا ہوئے ہیں اور انھوں نے لوگوں کوگمراہ کرنے کی کوشش کی ہے، جن کے ایمان کمزور اور دنیا پرست تھے اور آج بھی وہی دور ہے، ایسے مسلمانوں کو روپے پیسے کا لالچ دے کر غیر مسلم آسانی سے بنایا جاتا ہے، اور وہ محض تعیشات زندگی کی خاطر اپنے آپ کو برباد کرلیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی لوگوں کے بارے میں فرمایا ہے:
ترجمہ: "اے ایمان والو! جو شخص تم میں سے اپنے دین سے پھر جائے تو اللہ تعالیٰ بہت جلد ایسی قوم پیدا کردے گا جس سے اللہ تعالیٰ کو محبت ہوگی اور ان کو اپنے خالق سے محبت ہوگی، ان کی مہربانی مسلمانوں کے ساتھ ہوگی اور کافروں پر تیز ہوں گے اور ان سے جہاد کریں گے، اللہ کی راہ میں اور وہ لوگ کسی کے ملامت کرنے والے کی برائی کا خیال نہیں کریں گے۔ " مطلب یہ کہ وہ اللہ اور اس کے رسول پاک ﷺ کی محبت سے سرشار ہوکر دین کی حفاظت فرمائیں گے۔
رسول پاک ﷺ کی وفات کے بعد فتنہ ارتداد پھیلا اور لوگ مرتد ہوئے، انھی مرتدوں میں جھوٹے دعوے دار بھی تھے جو نبوت کا دعویٰ کرتے تھے، ان میں سر فہرست مسلیمہ بن کذاب تھا، نجد اور یمامہ کا علاقہ اس کے قبضے میں تھا، حضرت ابو بکر صدیقؓ کا دور خلافت تھا، آپؓ نے تخت و تاج ختم نبوت پر ڈاکہ زنی کو برداشت نہیں کیا چنانچہ اس ناپاک جسارت کے خاتمے کے لیے آپؓ نے صحابہ کرام کو اکٹھا کیا اور سب سے پہلا اجماع اسی موقع پر کیا گیا اور حضرت ابو بکرؓ نے پہلا لشکر مکہ مکرمہ سے روانہ کیا۔ تاکہ مدعی نبوت کو قتل کیا جائے، عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ و دفاع کے لیے جتنی جنگیں لڑی گئیں اسلام کی تاریخ میں پہلی جنگ جو سیدنا صدیق اکبرؓ کے عہد خلافت میں مسیلمہ بن کذاب کے خلاف یمامہ کے میدان میں لڑی گئی، اس ایک جنگ میں شہید ہونے والے صحابہ کرامؓ کی تعداد بارہ سو تھی جن میں سے 700 حافظ قرآن اور عالم دین تھے۔
حضرت محمد ﷺ کی زندگی کی کل کمائی اور گراں قدر اثاثہ آپؐ کے صحابہ کرامؓ تھے جن کی بڑی تعداد نے اس عقیدے کے تحفظ کے لیے جام شہادت نوش کیا۔ اسلام کی باقی تمام جنگوں میں کفار کی عورتوں، بچوں، باغات اور فصلوں وغیرہ کو نقصان نہیں پہنچایا گیا لیکن اس جنگ میں حضرت ابو بکر صدیقؓ نے حضرت خالد بن ولیدؓ کو حکم دیا کہ ان مرتدین کی عورتوں، بچوں، باغات اور فصلوں کو ختم کردیا جائے اس حقیقت سے ختم نبوت کا اندازہ اچھی طرح ہوجاتا ہے۔
مسلمانوں کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنا غیر قوموں خصوصاً کفار و نصاریٰ کا وطیرہ رہا ہے، غیر مسلم انھی لوگوں کو آلہ کار بناتے ہیں اور اپنی مرضی کے کام کرواتے ہیں جو نام کے مسلمان ہوتے ہیں۔ انھیں جس سانچے میں ڈھالو ڈھل جاتے ہیں متحدہ ہندوستان میں انگریز مسلمانوں پر مظالم ڈھانے کے بعد بھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہ ہوسکے۔
مسلمانوں کا آپس میں اتحاد اور جذبہ جہاد کو جب کمزورکرنے میں ناکام ہوئے، تب انھوں نے ایک کمیشن قائم کیا اور اسے ہندوستان بھیجا تاکہ وہ حقائق معلوم کرسکیں کہ مسلمانوں کے جذبہ ایمانی میں کس طرح دراڑیں ڈالی جائیں اور ان کے اخوت و بھائی چارے کی تعلیم کو روکا جاسکے، کمیشن جب سروے کرکے واپس آیا تو اس نے رپورٹ پیش کی، رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ مسلمانوں کے دل سے جہاد کو حرام اور انگریزوں کی اطاعت کو لازمی قرار دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے کوئی شخص نبوت کا دعویٰ کرے تو مسلمانوں کی قوت بہت جلد پارہ پارہ ہوسکتی ہے۔
مفتی، عالم دین مساجد میں جمع کے خطبے میں اس حقیقت کو بار بار دہرائیں کہ وہ دین جو آقائے نامدار حضرت محمد ﷺ کی ایثار و قربانی، طائف کی گلیوں میں ہونے والے ظلم، کفار کی سازش اور پھر ہجرت مدینہ کی کامیابی کے بعد سرخرو ہوا اور دور دور تک اسلام کا ڈنکا بجنے لگا، آج وہ خطرے میں ہے یہ مسلمانوں کی آزمائش ہے۔
ٹی وی چینلز بھی اپنا کردار بخوبی ادا کرسکتے ہیں۔ آج پاکستانی قوم اسمارٹ فونز اور ٹی وی چینلز کے پروگراموں اور اشتہارات سے خوب استفادہ کر رہی ہے، جو اخلاق اور صحت کو برباد کرنے کے لیے کافی ہیں، بینا کو نابینا بنانے اور نظر کو کمزور کرنے کے لیے مددگار ہیں۔ پاکستان کے گاؤں، دیہات کے وہ لوگ جو کلمہ طیبہ سے بھی ناواقف ہیں ساتھ میں غربت کی چکی میں دن رات پس رہے ہیں ایسے لوگوں کو دولت کا لالچ دے کر بہکایا جا رہا ہے۔ حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ اسے روکے اور خوشی و خوشحالی میں سب کو شریک کرے۔