"نئے سال" کے حوالے سے میرا رویہ ڈھٹائی کی حد تک لاتعلقی والا ہے۔ کسی بھی سال کی یکم جنوری کو کیلنڈر کی ایک اور تاریخ ہی سمجھتا ہوں۔ برسوں کے معمول کے مطابق صبح اُٹھا ہوں۔ اخبار میں چھپے کالم کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا ہے اور یہ کالم لکھنا شروع ہوگیا ہوں۔"رسم دُنیا، موقعہ اوردستور" کی اہمیت کو مگر نظرانداز نہیں کر سکتا۔ آپ میں سے جو لوگ بھی نئے سال کی آمد کو سنجیدگی سے لیتے ہیں ان کے لئے ربّ کریم سے اس برس ڈھیروں خوشیوں کی فریاد کرتا ہوں۔
ذاتی اعتبار سے گزشتہ برس میری زندگی کے مشکل ترین سالوں میں سے ایک رہا۔ معاشی حوالوں سے خود کو دیوار سے لگا محسوس کررہا ہوں۔ صحافت کی اجتماعی پژمردگی کے بارے میں دل کڑھتا رہتا ہے۔ ان حالات میں اگرچہ "کچھ لوگ پہچانے" گئے ہیں۔ ساتھ ہی مگر چند دوستوں کے خلوص کا شدت سے ادراک بھی ہوا۔ احسان مندی کے بوجھ تلے دب گیا ہوں۔
ارادہ باندھا تھا کہ نئے سال کے پہلے دن ماتم کنائی کے بجائے کسی ایسے موضوع پر توجہ دوں گا جو میری دانست میں آفتوں کے اس دور میں "اچھے دنوں " کی نوید سنارہا ہے۔ اس موضوع پر غور کرتے ہوئے انتہائی دیانت داری سے دریافت یہ کیا ہے کہ بھارتی مسلمانوں کی نئی نسل نے مودی سرکار کی مزاحمت کرتے ہوئے دُنیا کو یہ پیغام دیا ہے کہ "اکثریت کی حاکمیت Majoritarianism" کے جنون میں مبتلا آمروں سے نجات ممکن ہے۔ مذہبی انتہا پسندی اور وحشیانہ نسل پرستی انسانوں کو جانوروں کے غول کی صورت دینے میں ناکام رہے گی۔ جی کو مزید خوش کرنے والی حقیقت یہ بھی ہے کہ بھارتی مسلمانوں کی جانب سے برپا ہوئی مزاحمت کی قائدانہ پیش قدمی مردوں کے بجائے عورتوں کا مقدر ہوئی۔
دلی کی جامعہ ملیہ کی دھان پان دِکھتی بچیوں نے پولیس کی لاٹھیوں کے مقابلے میں ڈھال کا کردار ادا کیا۔ کیمروں کے روبرو اپنے خیالات کا برجستہ اظہار کرتے ہوئے "مسلم عورت" کا ایک قطعاََ نیا Brand متعارف کروایا ہے۔ وہ "برقعوں میں دبکی مخلوق"نظر نہیں آئیں۔ اپنی گفتگو میں انشاء اللہ اور الحمداللہ کہتے ہوئے بھی جدید ریاست میں آئین کی اہمیت کو اجاگر کرتی رہیں۔ شہریوں کے بنیادی حقوق کو ہر صورت حاصل کرنے کے عہد کے ساتھ۔ ان بچیوں کو نام نہاد "مغربی سرمایے" سے چلائی کسی NGO نے Women Empowerment وغیرہ کی تربیت نہیں دی ہے۔ ان کی سوچ بے ساختہ ہے۔ احتجاج کا انداز انتہائی پرامن مگر بے پناہ تخلیقی ہے۔
دلی میں ان دنوں 120برس کے بعد سردترین موسم آیا ہے۔ اس موسم میں بھی ہزاروں کی تعداد میں ہر عمر اور طبقے کی عورتیں اس شہر کے "شاہین باغ" میں کمسن اور شیرخوار بچوں سمیت 18دنوں سے مسلسل دھرنا دئیے ہوئے ہیں۔ جابجا اجتماعی کچن بنادئیے گئے ہیں۔ وہاں بریانی کی دیگیں ہیں۔ گرم چائے ہمہ وقت مٹھائی سمیت میسر ہے۔ بلقیس نامی ایک خاتون بھی اس دھرنے میں موجود ہے۔ عمر اس کی 80 سال ہے۔ اپنی گفتگو سے خالصتاََ گھریلوعورت نظر آتی ہے جس نے شاید کسی سکول میں ایک دن بھی صرف نہیں کیا ہوگا۔ کمال اعتماد سے اس خاتون نے دلی میں کم از کم ہزار برس سے آباد مسلمانوں سے "کاغذات" طلب کرنے والوں کو ٹھینگا دکھایا۔ فرطِ جذبات سے میراپتھر ہوا دل بھی موم ہوگیا۔ آنکھوں سے آنسو چھلک پڑے۔
بھارتی مسلمانوں کی بچیاں اور بلقیس جیسی خواتین جو تاریخ بنارہی ہیں اسے ذہن میں رکھتے ہوئے اپنے ریگولر اور سوشل میڈیا پر نگاہ ڈالتا ہوں تو وہاں چھائی ٹک ٹاک والی چسکہ فروشی سے گھن آتی ہے۔ اس کے ذریعے ہم "پاکستانی عورت" کا ایک ناقابل برداشت Model متعارف کروارہے ہیں۔ جو سیاست دان اس چسکہ فروشی کی زد میں آئے ہیں ذاتی طور پر مجھے ان سے کوئی ہمدردی نہیں۔ ان میں سے کم از کم ایک فرد اس کالم میں مستقلاََ میرے پھکڑپن کا نشانہ بھی رہا۔ ان کی خجالت نے مگر پریشان کردیا ہے۔ ہمیں اپنی عورتوں کے اس Brand کو فروغ دینا ہوگا جو جامعہ ملیہ کی بچیوں اور شاہین باغ میں بچوں سمیت بیٹھی خواتین نے متعارف کروایا ہے۔
میں اس Brand کی مزید تفصیلات بیان کرنے تک آج کے کالم میں محدود رہنا چاہ رہا تھا۔ بدھ کی صبح چھپے کالم میں مہنگائی کا تذکرہ کرتے ہوئے لیکن تیل کے بڑھتے ہوئے نرخوں کا ذکر ہوا تھا۔ اس تناظر میں عراق کی بات بھی ہوئی۔ مجھے خدشہ تھا کہ امریکی طیاروں نے جس انداز میں ایران کی Proxy تصور ہوتی ایک تنظیم کے 24 لوگوں کو فضائی بمباری کا نشانہ بنایا ہے اس کا "بدلہ" لیا جائے گا۔ مجھے ہرگز خبر نہیں تھی کہ اس جانب سے بہت تیزی سے بڑھا جائے گا۔
منگل کے دن بغداد میں قائم امریکی سفارت خانے کے باہر مظاہرین جمع ہونا شروع ہوگئے۔ عراق کی حکومت گزشتہ کئی دنوں سے مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف جمع ہوتے پرامن مظاہرین کو براہِ راست گولیوں کا نشانہ بنارہی ہے۔ بغداد کی "ریڈزون" سے گزرکر امریکی سفارت خانے تک پہنچنے والے مظاہرین کو روکنے کی مگر دکھاوے والی کاوش بھی نہیں ہوئی۔ چند ہی گھنٹوں میں سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر سیلاب کی صورت وائرل ہوگئیں جنہوں نے بے تحاشہ افراد کو یہ سوچنے پر مجبور کیا کہ شاید تہران اور لیبیا کے بن غازی میں موجود امریکی سفارت خانوں پر حملوں کی تاریخ دہرائی جانے والی ہے۔ امریکی حکومت اور عوام کو اشتعال دلانے کے لئے سب سے زیادہ وہ تصویر وائرل ہوئی جس میں امریکی فوجی وردیاں پہنے اسلحہ سمیت "شیشے کے گھر" میں محصور نظر آئے۔ اس تصویر کا حوالہ دیتے ہوئے ٹرمپ کے بہت ہی قریبی تصور ہوتے امریکی سینیٹر لنڈسی گراہم نے جارحانہ ٹویٹس لکھے۔ امریکی صدر کو شدت سے اُکسایا کہ امریکی سفارت خانے پر "حملے" کا بدلہ ایران کی تیل پیداکرنے والی تنصیبات پر حملے کے ذریعے لیا جائے۔
ٹرمپ کی آنکھ کھلی تو اس نے بغداد کی تازہ ترین صورتحال کے بجائے اپنے خلاف آئی مواخذے کی تحریک کے بارے میں طنزیہ ٹویٹس لکھنا شروع کر دئیے۔ ان ٹویٹس نے اس کے مخالفین کو یہ کہانی پھیلانے میں آسانی فراہم کی کہ شاید وہ بغداد میں امریکی سفارت خانے پر "حملے" کی بابت بے خبر ہے۔ اپنے سیاسی مخالفین کیخلاف چند ٹویٹس لکھنے کے بعد گالف کھیلنے چلا گیا ہے۔
اپنے بارے میں پھیلائی کہانیوں کے بارے میں کافی دیر تک مکارانہ بے اعتنائی دکھانے کے بعد بالآخر امریکی صدر نے جارحانہ رعونت کے ساتھ اپنے "باخبر" ہونے کا یقین دلایا۔ امریکی افواج کے تازہ دم دستے اب عراق بھیج دئیے گئے ہیں۔ یہ Special OPs کے لئے تیار ہوئے دستے ہیں۔ نظر بظاہر وہ عراق میں موجود امریکی سفارت خانے سے متعلقہ عمارتوں اور فوجی اڈوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لئے بھیجے گئے ہیں۔ ان کی آمد مگر عراقی عوام کو مزید اشتعال دلارہی ہے۔ ان کی اکثریت یہ محسوس کرنا شروع ہوگئی ہے کہ ان کی سرزمین کو ایران کے خلاف پراکسی جنگ کے ذریعے مزید تباہ وبرباد کرنے کے جواز تراشے جارہے ہیں۔
سفارت کاری کی فریقین کی جانب سے اپنائے طیش وغضب کی بدولت فی الوقت کوئی گنجائش نظر نہیں آرہی۔ امریکہ اور ایران اب بھی ایک دوسرے کیساتھ براہِ راست جنگ سے گریز کے خواہاں نظر آرہے ہیں۔ صورتحال مگر انگریزی زبان میں بیان کردہ بہت Fluid ہے۔ ایسے میں شطرنج کی چالوں جیسے فوجی آپریشن غالباََ فریقین کو مطمئن نہیں کرپائیں گے۔ اس دہائی کا پہلا دن میرے وسوسوں بھرے دل کو لہذا مشرقِ وسطیٰ میں ایک اور خوفناک جنگ کیلئے تیار کررہا ہے۔ اعصاب شکن تنائو کا یہ عالم تیل کے نرخوں میں مزید اضافہ لائے گا اور ایک بھرپور جنگ کی صورت میں پاکستان جیسے ممالک کیلئے تیل کی فراہمی بھی تقریباََ ناممکن ہوجائے گی۔ میرے منہ میں خاک مگر 2020 کا پہلا دن مجھے پاکستان میں مہنگائی میں شدید ترین اضافے کیلئے تیار کررہا ہے۔ نئے سال کی "مبارک" دینے سے لہذا خوف آرہا ہے۔