Friday, 29 November 2024
  1.  Home/
  2. Guest/
  3. Aabi Tanaza Aur Sindh Tas Moahida

Aabi Tanaza Aur Sindh Tas Moahida

کچھ موضوعات کے بارے میں لکھتے ہوئے میرا خون کھولنا شروع ہوجاتا ہے۔ خوف لاحق رہتا ہے کہ دماغ کی شریان نہ پھٹ جائے۔ بلڈ پریشر ویسے ہی چند ہفتے قبل قابو سے باہر ہوگیا تھا۔ طبیبوں نے سختی سے ہدایت دی کہ خواہ مخواہ کے ذہنی دبائو کو مدعو نہ کروں۔ کونے میں بیٹھ کر دہی کھاتا رہوں۔ بدھ کی شام مگر حماقت کا ارتکاب ہوگیا۔ حکومت نے پارلیمان کا مشترکہ اجلاس بلارکھا تھا۔ کمر اور آنکھوں کے مسائل کی وجہ سے گاڑی چلا نہیں سکتا۔ پارلیمان نہ جاسکنے کے باعث چند دنوں سے "دی نیشن" کے لئے پریس گیلری لکھنا بھی چھوڑ رکھا ہے۔

1985ء سے کئی برسوں تک پارلیمانی کارروائی کا مشاہدہ مگر میری ذمہ داری رہی ہے۔ بتدریج یہ مشاہدہ علت کی صورت اختیار کرگیا۔ اس کے ہاتھوں مجبور ہوکر بدھ کی شام لیپ ٹاپ کھول لیا اور پارلیمان کی ویب سائٹ پر میسر "لائیو سٹریم" کی بدولت جاننے کی کوشش کی کہ وہاں کیا چل رہا ہے۔ اجلاس سے قبل بہت طمطراق سے اطلاع ہمیں یہ دی گئی تھی کہ مذکورہ اجلاس کے دوران کشمیری عوام سے یکجہتی کے اظہار کے لئے ایوان سے "مشترکہ قرارداد" بھی منظور کروائی جائے گی۔

باہمی اختلافات بھلاکر 1985ء سے تقریباََ ہر برس حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے ایسی بے تحاشہ قراردادیں منظوری کی ہیں۔ مسئلہ کشمیر حل ہونے کے بجائے لیکن مزید الجھتا چلا گیا۔ بالآخر اگست 2019ء بھی ہوگیا جب نریندر مودی کی حکومت نے بھارتی آئین کی شق 370کو ڈھٹائی سے غیر مؤثر بنادیا۔ ریاست جموں کشمیر کی "جداگانہ" اور کسی حد تک "خودمختار"شناخت یک لخت مٹادی گئی۔ اسے دوٹکڑوں میں بانٹ دیا گیا ہے۔ لداخ اور جموں کشمیر اس کے بعد "یونین ٹیریٹری"ٹھہرائے جانے کی وجہ سے اب براہ راست دلی کی عملداری میں ہیں۔ وہاں منتخب"صوبائی اسمبلیوں" یا حکومتوں کو دکھاوے کیلئے بھی وجود میں نہیں آنے دیا جارہا۔

بھارتی حکومت نے جب ان یکطرفہ اقدامات کا اعلان کیا تو ہمارے ہاں"عالم اسلام کے واحد ترجمان" تصور ہوتے عمران خان صاحب کی حکومت تھی۔ انہوں نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کے عوام ہفتے میں کم از اکم ایک بار آدھے گھنٹے کو اپنے گھروں سے باہر آکر کشمیری عوام سے یکجہتی کا اظہار کریں گے۔ مجوزہ اظہار بھی تاہم ایک ہی بارہوا۔ اس کے بعد عمران حکومت پاکستان کے "چور اور لٹیرے" سیاستدانوں کو عبرت کا نشان بنانے میں مصروف ہوگئی۔ انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے کئی مہینوں تک وادیٔ کشمیر کے باسیوں نے خود کو دنیا کی وسیع تر جیل میں محصور ہوا محسوس کیا۔

سچی بات یہ بھی ہے کہ آرٹیکل 370کی تنسیخ کے بعد ہمارے اخبارات اور ٹی وی چینلوں میں مقبوضہ کشمیر پر نازل ہوئی نئی مصیبتوں کو اتنی جگہ بھی نہیں ملی جتنی مثال کے طورپر "نیویارک ٹائمز" جیسے اخبارات نے فراہم کی۔ اپریل 2022ء میں البتہ پاکستان میں"رجیم چینج" ہوگئی۔ عمران خان صاحب اس کے بعد مستقلاََ "ہم کوئی غلام ہیں؟" کا سوال اٹھاتے چلے جارہے ہیں۔ کشمیریوں کی "غلامی" اس کی بدولت ہماری توجہ کی مستحق نہیں رہی۔

بدھ کی شام کشمیریوں سے یکجہتی کے اظہار کے بہانے ہمارے نام نہاد نمائندوں نے جو دھواں دار تقاریر فرمائیں ان میں سے ایک بھی اس حقیقت کا ادراک کرتی سنائی نہیں دی کہ ریاست جموں وکشمیر کی تاریخی شناخت مٹانے کے بعد مودی حکومت اب انگریزی محاورے والا "اگلا قدم" اٹھاچکی ہے۔ وہ اپنے ارادوں میں کامیاب ہوگئی تو قضیہ فقط ریاست جموں وکشمیر کی تاریخی شناخت تک ہی محدودنہیں رہے گا۔ 1960ء میں سندھ طاس معاہدے کے ذریعے بھارت اور پا کستان کے مابین دریائی پانی کی تقسیم کا جو بندوبست طے ہوا تھا وہ برقرار نہیں رہ پائے گا۔ وہ برقرار نہ رہا تو پاکستان کے بے تحاشہ زرعی رقبے بالآخر صدیوں سے میسر دریائی پانی سے محروم ہوجانے کے بعد کاملاََ بنجر بھی ہوسکتے ہیں۔

بھارت کا دعویٰ ہے کہ اسے بجلی کی پیداوار کے لئے ان دریائوں کا پانی استعمال کرنا بھی لازمی ہے جو سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آئے تھے۔ دریائے جہلم بھی ایسا دریا ہے جس پر "کشن گنگا" کے نام پر ہاتھ ڈالنے کی کوشش ہوئی۔ اب توجہ دریائے چناب کے پانی کی جانب ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے کشتوار ضلع میں دریائے چناب پر "راتلے ڈیم" بنانے کی تیاری ہورہی ہے۔ اس کے ذریعے 850میگاواٹ بجلی پیدا کرنا مقصودہے۔ آبی امور کی مبادیات سے نابلد افراد بھی اندازہ لگاسکتے ہیں کہ بہتے پانی کو کچھ دیر کے لئے روک کر ذخیرہ کئے بغیر بجلی کی پیداوار ممکن نہیں۔ ذخیرہ کے لئے "بند"بنایا جاتا ہے۔ بند تعمیر ہوجائے تو وہاں جمع ہوئے پانی کو تاریخی انداز میں"رواں" نہیں رکھاجاسکتا۔ پانی چھوڑنے کے وقت کا تعین وہ ملک کرتا ہے جس کی زمین پر بند بنایا گیا ہے۔

مذکورہ حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے حکومت پاکستان نے عالمی بینک سے رجوع کیا جو سندھ طاس معاہدے کے تحت دونوں ممالک کے مابین آبی پانی کی تقسیم کے حوالے سے کھڑے ہوئے کسی قضیہ کے حل کے لئے ثالثی فراہم کرنے کا ضامن ہے۔ "ثالثی" کی دو ممکنہ صورتیں ہوسکتی ہیں۔ پہلی صورت میں کوئی "غیر جانب دارماہر" پاکستان اور بھارت کی مشاورت سے ڈھونڈا جائے گا۔ وہ "ثالثی" یقینی نہ بناپائے تو "عدالت"دکھتا بندوبست بھی سندھ طاس معاہدے میں یقینی بنایا گیا ہے۔ بھارت اب 1960ء میں طے ہوئی ثالثی کی دونوں صورتوں پر معترض ہے۔

گزشتہ مہینے اس نے تحریری طورپر پاکستان کو آگاہ کیا کہ دریائی پانی کے استعمال کے حوالے سے طے ہوئے معاہدے سے بالاتر "ثالثی"کی کوئی اور صورت ڈھونڈی جائے۔ پاکستان ٹھوس وجوہات کی بنا پراس تجویز سے رضا مند نہیں ہوسکتا۔ وہ رضامند ہوگیا تو 1960ء میں طے ہوا معاہدہ بتدریج غیر مؤثر ہوسکتا ہے۔ "نئی صورت" نکالنے کی تجویز دینے کے بعد بھارت مجوزہ راتلے ڈیم پر پاکستان کے اٹھائے اعتراضات کے ازالے کے لئے سندھ طاس معاہدے میں طے ہوئے بندوبست کی دونوں صورتوں کے ذریعے قضیے کا حل ڈھونڈنے میں دلچسپی بھی نہیں دکھارہا۔

من مانی پر ڈٹا ہوا ہے لیکن ہمارے میڈیا پر اس کی جانب توجہ ہی نہیں دی جارہی۔ مزید کچھ لکھتے ہوئے میرا خون ہی کھولے گا۔ قلم یہاں روکنا ہوگا۔

About Nusrat Javed

Nusrat Javed

Nusrat Javed, is a Pakistani columnist, journalist and news anchor. He also writes columns in Urdu for Express News, Nawa e Waqt and in English for The Express Tribune.