ڈاکٹر محبوب الحق مرحوم نے بہت محنت اور لگن سے عالمی سطح پر بطور ماہر معاشیات اپنا مقام بنایا تھا۔ جنرل ضیا کی سرپرستی میں حکومت کا حصہ بنے تو اکثر میرے پھکڑپن کی زد میں رہتے۔ کچھ دنوں تک تلملانے کے بعد انہوں نے میرے "ذرائع" کا سراغ لگانا شروع کردیا۔ بالآخر اس نتیجے پر پہنچے کہ میں کسی کاروباری یا افسرشاہی پر مشتمل گروہ کا کارندہ نہیں ہوں۔ جو ذہن میں آئے گھما پھرا کر لکھ دیتا ہوں اور "سنسر" سے بچنے کے لئے اکثر استعاروں کو ذریعہ اظہار بناتا ہوں۔ حسین اتفاق یہ بھی ہوا کہ بعدازاں میں ان کے گورنمنٹ کالج لاہور میں ساتھی رہے ڈاکٹر محمد سلیم جیلانی کا داماد بھی ہوگیا۔ میری شادی کی تقریب میں وہ بہت چاؤ سے شریک ہوئے۔ میری بیوی کو رخصت کرتے وقت ان کی آنکھ نم بھی ہوئی تھی۔
برسوں گز رگئے۔ اپنے انتقال سے چند ماہ قبل مجھے ایک مارکیٹ میں دیکھا تو اپنے ہاں چائے کو لے گئے۔ ان کے ساتھ تنہائی میں گزارے دو گھنٹوں کے دوران میں نے "رموزسلطنت"کے بارے میں بہت کچھ سیکھا۔ مرحوم میری "خبر" نکالنے کی صلاحیت کے مخلص معترف تھے۔ مذکورہ ملاقات کے دوران مگر یہ دعویٰ کرتے ہوئے انہوں نے مجھے چونکا دیاکہ دنیا بھر کے مشہور ترین رپورٹروں کو بھی حتمی فیصلہ ساز جو سوچ رہے ہوتے ہیں اس کا دس فی صد سے زیادہ علم نہیں ہوتا۔ فوری طورپر ان کا یہ دعویٰ مجھے اشرافی رعونت کا اظہار محسوس ہوا۔ عملی صحافت کی مزید دہائیاں بھگتنے کے بعد مگر دریافت ہوا کہ مرحوم کا دعویٰ درست تھا۔
ڈاکٹر صاحب کا بیان کردہ دعویٰ گزشتہ چند ہفتوں سے مجھے مسلسل یاد آتا رہا ہے۔ وجہ اس کی "تعیناتی" کی بابت اٹھا شوروغوغا تھا جس نے روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائے تقریباََ ہر "ذہن ساز" کو "باخبر" بنارکھا تھا۔ جو ہیجان برپا تھا اس میں حصہ ڈالنے سے میں نے گریز کیا۔ فیصلہ کن حلقوں تک عدم رسائی میرے گریز کا حقیقی جواز تھا۔ حتمی فیصلہ ساز واٹس ایپ کے ذریعے "اندر کی خبر" فراہم نہیں کرتے۔ ان سے بالمشافہ ملاقات بھی ہوجائے تو دل میں رکھی بات کھل کر بیان نہیں کرتے۔ میں نے یہ حقیقت تواتر سے اس کالم میں یاد دلانا شروع کردی۔ چند مخلص دوست مگر اس سے پریشان ہوگئے۔ مجھے سمجھانے کی کوشش کی کہ ایوان ہائے اقتدار تک عدم رسائی کا مسلسل اعتراف مجھے "بے وقعت" بنادے گا۔ قارئین مجھے گوشہ نشین اور دنیا سے بے خبر شخص تصور کرتے ہوئے نظرانداز کرنا شروع کردیں گے۔ وقت کا تقاضہ ہے کہ "تھوڑا رُعب شوب" والا بھرم برقرار رکھا جائے۔
"صحافت" کو اگر آپ لوگوں کے دلوں میں پہلے سے موجودتعصبات وخواہشات کی تسکین کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہتے توہماری آنکھوں کے سامنے جو کچھ ہورہا ہوتا ہے اس پر سنجیدگی سے غور مستقبل کا زائچہ تیار کرنے میں بہت مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ میری دانست میں مارچ 2021ءمیں یوسف رضا گیلانی کی خفیہ رائے شماری کی بدولت قومی اسمبلی سے سینٹ میں اسلام آباد کے لئے مختص نشست کے لئے منتخب ہوجانا ایک اہم ترین واقعہ تھا۔ اس نے ٹھوس اشارہ دیا کہ عمران حکومت کے چل چلاؤ کا آغاز ہوگیا ہے۔ ہم صحافیوں کی اکثریت نے اس پر توجہ نہیں دی۔ عمران خان صاحب "سادہ" ہونے کی شہرت رکھنے کے باوجود مگر خود کو درپیش خطرات جبلی طورپر جان گئے۔ "ستے خیراں" کا ماحول اجاگر کرنے کے لئے انہوں نے "سیم پیج" والوں کو مجبورکیا کہ قومی اسمبلی سے انہیں بطوروزیر اعظم اعتماد کا ووٹ لینے میں کمک فراہم کی جائے۔ اس کے علاوہ صادق سنجرانی کو سینٹ کا دوبارہ چیئرمین بھی منتخب کروالیا۔ اس کے بعد مگر اکتوبر2021ءآگیا۔ ایک طاقتور ترین ریاستی ادارے کے سربراہ کی تعیناتی کا معاملہ وہ سیاسی مہارت سے حل نہیں کر پائے۔ اس کے بعد "اگلا موڑجدائی کا" ٹالاہی نہیں جاسکتا تھا۔
عمران خان صاحب کو اس کا بخوبی علم تھا۔ اسی باعث آئی ایم ایف کے ساتھ ہوئے معاہدے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے اپنے وزیرخزانہ شوکت ترین کے ذریعے بجلی اور پیٹرول کے نرخ منجمد کرنے کو ڈٹ گئے۔ اس کے بعد روس جاکر صدر پوٹن سے ملنے کا فیصلہ بھی کرلیا۔ ان تمام اقدامات نے انہیں"امریکی سازش" والی کہانی کو فروغ دینے میں حیران کن آسانیاں فراہم کیں۔ تحریک عدم اعتماد کی بدولت اقتدار سے محروم ہوئے تو اس کا ذمہ دار "میر جعفراور میر صادق" کو بھی ٹھہرانے لگے۔ عالمی اور مقامی اسٹیبلشمنٹ کو للکارتے ہوئے وہ عوام کی کماحقہ اکثریت کو خوددار وطن پرست ہیرو کی صورت نظر آنا شروع ہوگئے۔
ان کی جگہ لینے والی حکومت کے پاس مگر آئی ایم ایف کے روبرو ڈھیر ہونے کے علاوہ کوئی راہ باقی نہیں رہی تھی۔ اس نے "ڈھیر" ہونے کے بعد "ریاست دیوالیہ"ہونے سے بچالینے کا دعویٰ کیا۔ میرے اور آپ جیسے محدود آمدنی والوں کی زندگی اگرچہ اس کی وجہ سے اجیرن ہوگئی۔ عمران خان صاحب کی جگہ اقتدار میں آئے افراد کی سیاست کا "دیوالیہ" بھی ہوگیا۔ "دیوالیہ" کی تکرار مگر یہ حقیقت بھی اجاگر کرتی رہی کہ بہت محنت اور چاؤ سے تیار ہوا "پراجیکٹ عمران" ناکام ہوگیا ہے۔ اب "نئی گیم" لگانا ہوگی۔ "تعیناتی" کے سوال کا جواب مذکورہ حقیقت کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ہی ڈھونڈنا چاہیے تھا۔ ہم صحافیوں کی اکثریت نے مگر اس جانب کماحقہ توجہ نہیں دی۔ عمران خان صاحب البتہ انگریزی محاورے والی "بگ پکچر"کو خوب سمجھ چکے ہیں۔ اس سے نبردآزما ہونے کے لئے نئی حکمت عملی کی تلاش میں ہیں۔ مطلوبہ حکمت عملی کے بروئے کار آنے تک "تعیناتی" کا حتمی اختیارشہباز شریف صاحب کے پاس ہی رہنا تھا۔ ہمارے تحریری آئین کی شق 243اس ضمن میں کلیدی اہمیت کی حامل ہے۔ سمری آئی یا نہیں والا سوال اس تناظر میں قطعاََ فروعی تھا۔ بہرحال سمری آچکی ہے۔ اب "اگلے موڑ" کا انتظار کریں۔