انٹرنیٹ کی بدولت لوگوں تک اپناپیغام پہنچانے کے لئے جدید ترین ٹیکنالوجی نے جو راہیں متعارف کروائی ہیں مجھے ان کی ککھ سمجھ نہیں۔ برسوں سے یہ معمول بنارکھا ہے کہ صبح اُٹھنے کے بعد لیپ ٹاپ کھولتا ہوں۔"نوائے وقت" کی ویب سائٹ پر جاکر اپناچھپا ہوا کالم پڑھنے کے بعد اسے فیس بک اور ٹویٹر کے ذریعے قارئین سے شیئر کردیتا ہوں۔ پیر کی سہ پہر سے مگر کئی لوگ شکوہ کرنا شروع ہوگئے ہیں کہ وہ میرا شیئر کیا ہوا لنک کھولتے ہیں تو کالم کا عنوان اور میری تصویر آجاتی ہے۔ ان کے نیچے چند اشتہارات۔ کالم کا مواد مگر پڑھنے کو نہیں ملتا۔
میرے ذاتی استعمال میں ایک بہت ہی پرانے ماڈل کا جو آئی فون ہے اس کے ذریعے مذکورہ لنک تک پہنچاتو قارئین کی شکایت بجا نظر آئی۔ اس کا "حل" میرے پاس مگر موجود نہیں تھا۔ منگل کی صبح اُٹھ کر بھی لیپ ٹاپ کے ذریعے ہی چھپا ہوا کالم پڑھا۔ اسے فیس بک اورٹویٹر پر شیئر کردیا۔ بیشتر افراد مگر اسے Accessنہیں کرپائے۔ میرے ذاتی فون پر بھی یہی مسئلہ رہا۔ قارئین سے معافی کی درخواست ہی کرسکتا ہوں۔
ان کی جانب سے جو شکایات آئیں اس سے دل کو اگرچہ یہ اطمینان ہوا کہ مہربانوں کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جو میرے لکھے کو پڑھنے کے قابل سمجھتی ہے۔ میرے کالم تک رسائی نہ ملے تو جھلاجاتی ہے۔ اس اطمینان کے بعد میرے جھکی ذہن میں لیکن خیال یہ بھی آیا ہے کہ دورِ حاضر کے مجھ جیسے بے ہنر لکھاری کے لئے بھی یہ کافی نہیں کہ وہ کالم لکھ کر اخبار کے دفتر بھجوادے۔ وہ چھپ جائے تو ادارہ جانے اور اس کے قارئین۔ چھپے ہوئے کالم کو بھی اسے لکھنے والے کے لئے ازخود "مارکیٹ" کرنا بہت ضروری ہے۔ لکھنا کافی نہیں۔ اخبار میں چھپنا بھی اہم نہیں رہا۔ سوشل میڈیا کے جدید ترین ذرائع کے استعمال سے لکھے اور چھپے ہوئے کالم کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا اہم ترین ہوچکا ہے۔ کئی اعتبار سے بلکہ کلیدی۔
اپنے ہی لکھے ہوئے کالموں کی ایسی "تشہیر" سے مجھ جیسے پرانی وضع کے لوگ گھبراتے ہیں۔ مذکورہ اندازِ تشہیر کئی حوالوں سے ستائش کی تمنا کا اظہار کرتی ہوئی خودپسندی تصور کی جاتی ہے۔ کمیونی کیشن کے گرو مگر دورِ حاضر کو Digital Narcissism کا دور پکاررہے ہیں۔ ٹویٹر کے "ڈھول" کو مسلسل بجاتے ہوئے ٹرمپ جیسا خود پسند اگرچہ امریکہ جیسی سپرطاقت کا صدر منتخب ہوگیا۔ قناعت والی گوشہ نشینی کی لکھنے کے ذریعے رزق کمانے والوں کے لئے اب گنجائش باقی نہیں رہی۔ جو بھی لکھو نہایت ڈھٹائی سے انٹرنیٹ کی بدولت زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی تگ ودو میں مصروف رہنا صحافت کے شعبے میں زندہ رہنے کے لئے بلکہ لازمی ہوگیا ہے۔ شایداسی لئے میرے کئی دوستوں نے اپنے یوٹیوب چینل بھی شروع کردئیے ہیں۔ کئی مہینوں سے مجھ پر بھی شدید دبائو ہے کہ اپنا یوٹیوب چینل شروع کروں۔ سنا ہے کہ یہ"چل" جائے تو معقول رقم بھی گوگل کے توسط سے ملنا شروع ہوجاتی ہے۔
یوٹیوب پر بے تحاشہ Hits لینے والے کئی چینلوں کا بغور جائزہ لیا تو انداز ہ ہوا کہ بے پرکی یاوہ گوئی اس میدان میں بہت کامیاب رہتی ہے۔ میں نے مگر ساری زندگی قواعد وضوابط کا احترام کرتی صحافت کی ہے۔ بوڑھا گھوڑا ایک انگریزی محاورے کے مطابق نئے کرتب سیکھ نہیں سکتا۔"کرتب" دکھانے کا مجھے ویسے بھی شوق نہیں رہا۔ جو دیکھتا ہوں اسے ہوبہوبیان کرتے ہوئے تھوڑا تجزیہ کرنے کی جسارت کرتا ہوں۔
کچھ سوالات ہیں جو ذہن میں اٹک جاتے ہیں۔ ان کے جوابات ڈھونڈتے ہوئے گفتگو کرو تو شاید یوٹیوب وغیرہ پر "بورنگ" محسوس ہو۔ ہمارے ہاں مثال کے طورپر کئی برسوں سے یہ دعویٰ ہورہا ہے کہ عدلیہ بحالی جیسی تحاریک "ازخود" رونما نہیں ہوتیں۔ اشرافیہ کا کوئی سازشی گروہ ان کی "سرپرستی" کرتا ہے۔ افتخار چودھری کی بطور چیف جسٹس بحالی کے لئے جو تحریک چلی اس کے بارے میں بے تحاشہ پڑھے لکھے لوگ بھی اصرار کرتے ہیں وہ درحقیقت جنرل مشرف کو کمزور کرنے کی "سازش" تھی۔ وہ نہ ہوتی تو شاید جنرل صاحب نومبر2007 میں بھی وردی اُتارنے کو تیار نہ ہوتے۔ 2008 کے انتخابات کے بعدبھی کم از کم مزید پانچ برس وردی سمیت اس ملک کے صدر ہوتے۔
عدلیہ بحالی والی تحریک کے بارے میں ذاتی طورپرکبھی Excited محسوس نہیں کیا۔ اس کے ابتدائی مراحل کو لیکن بہت قریب سے دیکھا ہے۔ اپریل 2007 میں افتخار چودھری کی جو تصویر ایوانِ صدر میں بیٹھے ہوئے منظرنامہ پر آئی تو میں اس دن لاہور میں تھا۔ طلعت حسین نے مجھے قائل کیا کہ اس برس متوقع انتخابات کو نظر میں رکھتے ہوئے ٹی وی پر کچھ کیا جائے۔ میں اس ضمن میں سوچے پروگرام کا "پائلٹ" تیار کرنے لاہور میں تھا۔ زمان پارک میں چودھری اعتزاز احسن کے گھر سے اس پروگرام کا آغاز ہونا تھا۔ میں چودھری صاحب کے ہاں پہنچا تو ہماری بہت ہی محترم بشریٰ بھابھی گاڑی نکال کر کہیں جارہی تھیں۔ مجھے دیکھتے ہی انہوں نے کہا کہ "آج ہماری تاریخ کا منحوس ترین دن ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی ایسی بے توقیری کبھی دیکھنے کو نہیں ملی"۔ اعتزاز صاحب بھی ٹی وی سکرینوں پر بارہا دہرائی تصویر کے بارے میں بہت پریشان تھے۔
اپنی پریشانی پر قابو پاتے ہوئے مگر بہت اشتیاق سے میرے اور کیمرے والوں کے ساتھ اپنے قومی اسمبلی کے حلقے میں گئے۔ ہمیں جاندار فوٹیج دلوانے میں بھرپور حصہ لیا۔ اس انٹرویو کے بعد وہ اسلام آباد پہنچ گئے اور کئی مہینوں تک شہر شہر جاتے افتخار چودھری کے "ڈرائیور" رہے۔
صحافیانہ تجربے اور مشاہدات کی بدولت میں آج بھی یہ دعویٰ کرنے پر مصر ہوں کہ 3 نومبر 2007 کی "ایمرجنسی پلس" لگانے کے بعد جنرل مشرف نے عدلیہ بحالی تحریک پر قابو پالیا تھا۔"ایمرجنسی پلس" کی بدولت مجھ جیسے صحافی بھی ٹی وی سکرینوں سے غائب ہوگئے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے اندوہناک قتل کے باوجود مگر کوئی "انقلابی تحریک" نہیں چلی۔ انتخابات ہوئے۔ ان کے نتیجے میں یوسف رضا گیلانی وزیر اعظم منتخب ہوئے تو اپنے عہدے کا حلف لینے سے قبل ہی انہوں نے گھروں میں نظربند ہوئے ججوں کی رہائی کا اعلان کردیا۔ اس "رہائی" کی بدولت ہمیں یاد آیا کہ افتخار چودھری سمیت کئی جج گھروں میں گزشتہ کئی ہفتوں سے نظر بند تھے۔ سکرینوں سے غائب ہوئے صحافی مگر اس کے باوجود واپس نہ آئے۔ ان کی عدم موجودگی یاد کرتے ہوئے آصف علی زرداری نے صدر منتخب ہونے سے قبل ایک بیان کے ذریعے PEMRA کو "متنبہ" کیا کہ وہ یہ سمجھنے کی کوشش کرے کہ پاکستان میں "جمہوریت لوٹ آئی ہے۔ نصرت جاوید جیسے صحافیوں کو سکرینوں پر رونما ہونے سے نہ روکا جائے"۔ آصف زرداری کے اس بیان کے باوجود ٹی وی اداروں نے سکرینوں سے غائب کئے صحافیوں کو "بازیاب" کرنے میں کافی وقت لگایا۔
عدلیہ بحالی والی تحریک واقعتا اشرافیہ میں موجود کسی سازشی گروہ کی جنرل مشرف کے خلاف "سازش" ہوتی تو شاید مذکورہ بالا مراحل دیکھنے کی نوبت نہ آتی۔ مشرف سے استعفیٰ لینے کے بعد صدر پاکستان منتخب ہوکر آصف علی زرداری بھی کئی مہینوں تک افتخار چودھری کو ان کے منصب پر بحال کرنے کو آمادہ نہیں تھے۔ چودھری صاحب کے حامی وکلاء اور صحافی اپنے تئیں انہیں بحال نہیں کرواپائے۔ بالآخر لاہور سے نواز شریف صاحب نے چودھری صاحب کو بحال کروانے کے لئے اسلام آباد تک لانگ مارچ کے ذریعے پہنچنے کا فیصلہ کیا۔ ان کا قافلہ ابھی گوجرانوالہ ہی پہنچا تھا کہ "بحالی" کااعلان ہوگیا۔
یہ الگ قصہ ہے کہ "بحال" ہوئے افتخارچودھری نے بالآخر انہیں نظربندی سے رہا کرنے والے یوسف رضا گیلانی کو توہینِ عدالت کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے وزارتِ عظمیٰ سے فارغ کردیا۔ پیپلز پارٹی کی حکومت کو ازخود نوٹسوں کے ذریعے استحکام اور چین کا ایک دن بھی نصیب نہ ہونے دیا۔ عدلیہ بحالی کی تحریک اور اس کے "ثمرات" کا جائزہ لینے کے لئے "سازشی تھیوری" میری دانست میں کافی نہیں ہے۔ بہت خلوص اور تخلیقی تحقیق کے ذریعے اس کا بھرپور جائزہ لینا ہوگا۔