صحافیوں کو اتوار کے دن "خبر" کبھی کبھارہی ملتی ہے۔ اسی باعث متحرک رپورٹر اس روز چھٹی کو بضد رہتے ہیں۔ گزشتہ اتوار تاہم چیف جسٹس عمر عطابندیال صاحب نے لاہور میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے رونق لگادی۔ ان کے خطاب کی بابت میں اگرچہ قطعاََ لاعلم تھا۔ ٹیلی فون مگر کھڑکنا شروع ہوگیا۔ واٹس ایپ اور ٹویٹر کے ذریعے سوالات بھی آئے۔ شناسا مہربان اب تک یہ سمجھ ہی نہیں پائے ہیں کہ میں رپورٹنگ سے عرصہ ہوا کنارہ کشی اختیار کرچکا ہوں۔ ہمہ وقت "باخبر" رہنے کی علت لاحق نہیں رہی۔ غالب کی طرح "ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا" والی عادت اپنارکھی ہے۔
بہرحال بہت اصرار ہوا تو اتوار کی رات سونے سے قبل چیف جسٹس صاحب کے لاہور میں ہوئے خطاب کے چوندے چوندے نکات سوشل میڈیا پر لگائی مختلف کلپس کے ذریعے سن لئے۔ مذکورہ کلپس کو مختلف افراد نے اپنی خواہشات کی تسکین کے لئے سیاق وسباق سے ہٹ کر سوشل میڈیا پر ڈالا تھا۔ ایک گروہ مصر تھا کہ چیف جسٹس صاحب "آئین کے تحفظ" کی خاطر "کسی بھی حد تک جانے" کا ارادہ باندھ چکے ہیں۔ ان کا مخالف گروہ مگر جسٹس کارنیلئس کے ذکر کو "بے بسی" کا اظہار گردانتا رہا۔
جو "صحافت" میری نسل کو سکھائی گئی تھی وہ کسی بھی جج کے کسی تقریب سے ہوئے خطاب کی محض رپورٹنگ کا تقاضہ کرتی ہے۔ اس پر تبصرہ آرائی سے گریز جبلت کا حصہ بنادیا جاتا تھا۔ یہ کالم ویسے بھی میں"اخبار" کے لئے لکھتا ہوں۔ "اخبار" نکالنے اور چلانے کے لئے حکومت سے "ڈیکلریشن" حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس ڈیکلریشن کی وجہ سے چند حدیں ہیں جنہیں پار کریں تو آپ کی ذات ہی نہیں بلکہ ادارے کو بھی اجتماعی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یوٹیوب چینل پرحق گوئی فرمانے والے اس ضمن میں البتہ خوش نصیب ہیں۔ ان کی جانب سے چیف صاحب کے خطاب کی جو تشریحات ہوئی ہیں موبائل فون پر سنیں اور جو حق گو آپ کے دل ودماغ میں پہلے سے موجود خواہشات وتعصبات کی تائید کرتا سنائی دے اس کے گرانقدر خیالات کو شیئر کا بٹن دباکر دیگر لوگوں تک پہنچادیں۔
یوٹیوب کے توسط سے ملی "تشریحات" کے مابین زمین وآسمان کے فرق کے باوجود ان سب میں ایک بات پر اتفاق سنائی دیا اور وہ یہ کہ جس دن میں یہ کالم لکھ رہا ہوں یعنی پیر سے شروع ہوا ہفتہ ہماری سیاست میں بھونچال لائے گا۔ ممکنہ "بھونچال" کی تصدیق چودھری پرویز الٰہی صاحب نے بھی فرمادی ہے جن کی نگاہ میں"اس ہفتے" فیصلہ ہوجائے گا۔ ظاہر ہے جس "فیصلے"کی توقع وہ باندھے ہوئے ہیں ان کے لئے "خیر" کی خبر ہی لائے گا وگرنہ وہ اعتماد بھرے لہجے میں اس کی نوید نہ سناتے۔
چیف جسٹس صاحب کے اتوار کے دن ہوئے خطاب سے قطع نظر وطن عزیز میں گزشتہ کئی دنوں سے "آئین کا تحفظ"فقط اس بات سے نتھی کردیا گیا ہے کہ 14مئی کے روز پنجاب اسمبلی کی تشکیل کے لئے انتخاب کا انعقاد ہوگا یا نہیں۔ ہمارا تحریری آئین واضح انداز میں تقاضہ کرتا ہے کہ جب کوئی اسمبلی تحلیل ہوجائے تو اس کی تحلیل کے "نوے دنوں کے اندر" نئی اسمبلی کی تشکیل کے لئے انتخاب ہونا چاہیے۔ اسمبلی مگر پنجاب ہی کی تحلیل نہیں ہوئی۔ خیبرپختونخواہ بھی"پاکستان" ہے۔ وہاں کی صوبائی اسمبلی بھی سابق وزیر اعلیٰ محمود خان نے عمران خان کے حکم پر تحلیل کردی تھی۔ وہاں"نوے روز کے اندر" انتخاب کا ذکر کیوں نہیں ہورہا۔
میرے بچپن میں پشاور کے اس پار سرحدی علاقوں کو "علاقہ غیر"کہا جاتا تھا۔ لاہور کے کئی جرائم پیشہ لوگوں کے بارے میں یہ مشہور ہوجاتا کہ وہ قانون کی گرفت سے بچنے کے لئے وہاں"پناہ گزین" ہیں۔ صحافت کی بدولت ہی بالآخر یہ دریافت کرپایا کہ "علاقہ غیر" جرائم پیشہ افراد کی پناہ گاہ نہیں ایک تاریخی اور شاندار ثقافت کی علامت ہے۔ بالآخر اسے اب "قبائلی علاقوں" والی شناخت سے محروم کردیا گیا ہے۔ وہ خیبرپختونخواہ کے باقاعدہ اضلاع بن چکے ہیں۔ ہمارا تحریری آئین اس صوبے پر بھی لاگو ہے۔
"آئین کے تحفظ" کے لئے لہٰذا جب بھی پنجاب اسمبلی کی تشکیل کے لئے 14مئی کا ذکر ہوتا ہے تو میں بدنصیب یاد دلانے کو مجبور ہوجاتا ہوں کہ "خیبرپختونخواہ بھی تو ہے"۔ اس صوبے کا ذکر مگر عاشقان عمران کو مشتعل کردیتا ہے۔ وہ اصرار کرتے ہیں کہ 14مئی کا انتخاب ٹالنے کے لئے خیبرپختونخواہ کا ذکر موجودہ حکومت کے طرفدار صحافی کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص واقعتا محب وطن ہے۔ اس ملک کو آئین کے تحت چلانے پر ا یمان رکھتا ہے تو اسے چیف جسٹس صاحب کی حمایت میں ڈٹ کر کھڑا ہوجانا چاہیے۔
کمر کی تکلیف کی وجہ سے ان دنوں مجھ میں سیدھا کھڑا ہونے کی سکت بھی باقی نہیں رہی۔ ڈٹ کر کھڑا ہونا تو دور کی بات ہے۔ وطن عزیز کو آئین کے تحت چلانے کا خواب اگرچہ مجھے 1969ءسے کسی موذی مرض کی طرح چپکا ہوا ہے۔ میرا خواب مگر آج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہوا۔ کسی حاذق حکیم سے کوئی مجرب نسخہ حاصل کرنے کے بعد میں ڈٹ کر کھڑا ہونے کے قابل ہوبھی گیا تب بھی 14مئی کے روز انتخاب ہو نہیں پائیں گے۔ 8مئی کی صبح اٹھ کر یہ کالم لکھ رہا ہوں۔ 9مئی کی صبح یہ کالم چھپے گا تو 14مئی میں صرف پانچ دن باقی رہ جائیں گے۔ الیکشن کمیشن ان پانچ دنوں میں تین سو کے قریب حلقوں میں ووٹ ڈالنے کے لئے پولنگ اسٹیشنوں کی نشاندہی بھی نہیں کرسکتا اور پنجاب کے عوام اپنا "حق رائے دہی" پولنگ اسٹیشن جاکر ہی استعمال کرسکتے ہیں۔ آئین کے تحفظ" کے لئے ڈٹ کر کھڑے ہوجانا کسی کام نہیں آئے گا۔
اپنی بے بسی کا اعتراف کرنے کے بعد میں یہ بات دہرانے سے بھی گریز نہیں کروں گا کہ اپریل 2022ءمیں باہمی اختلافات بھلاکر یکسو ہوئی جماعتیں عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے ہٹانے کے بعد خلق خدا کا دل موہ لینے کے نسخے دریافت نہیں کرپائیں۔ ریکارڈ بناتی مہنگائی کی وجہ سے بلکہ وہ عوام کی اکثریت کو "منحوس" محسوس ہورہی ہے۔ عمران خان نے ان کی مشکلات کا جاندار سیاسی مہم سے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے۔ پنجاب اسمبلی کی قبل ا ز وقت تحلیل اس ضمن میں ان کی جانب سے چلی ایک عمدہ چال تھی۔ اس کے بعد "نوے روز کے اندر" انتخاب ہوجاتے تو ان کی جماعت آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے میں بآسانی حکومت بناسکتی تھی۔ اس حکومت کی سرپرستی میں اسلام آباد میں بیٹھے حکمرانوں کو مزید بے بس بنایا جاسکتا تھا۔
اپنی جانب بڑھتے طوفان کو بھاپنتے ہوئے عمران مخالف جماعتوں نے 14مئی کے انتخاب ٹالنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ نظر بظاہر وہ اس میں کامیاب رہے۔ "آئین کا تحفظ" تو ہو نہیں پایا مگر اس سے "انحراف" کرنے والوں کو کٹہرے میں اب بھی لایا جاسکتا ہے۔ اس تناظر میں لیکن سوچتا ہوں تو خیال یہ بھی آتا ہے 12اکتوبر1999ءکی رات پاکستان کا تحریری آئین "معطل" کردیا گیا تھا۔ تین برس تک وہ معطل ہی رہا۔ ہمارے آئین میں اس کے تحفظ کو یقینی بنانے کے لئے آرٹیکل 6بھی ڈالا گیا ہے۔ جنرل مشرف کے خلاف آئین کی یہ شق مگر لاگو نہیں ہوپائی تھی۔ مجھے یاد نہیں رہا کہ ان کے خلاف آئین ہی کے تحت قائم ہوئی خصوصی عدالت کی سزا کیسے کالعدم ٹھہرائی گئی تھی۔ "آئین کے تحفظ" کے لئے خدارا "میٹھا میٹھا ہپ ہپ اور کڑوا کڑوا تھو تھو"والی منافقت اختیار نہ کیجئے۔