مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے بعد 1973ءمیں بہت سوچ بچار کے بعد بقیہ پاکستان کے ریاستی امور چلانے کے لئے جو آئینی بندوبست تیار ہوا تھا وہ چار برسوں تک بھی برقرار نہ رہ پایا۔ جولائی 1977ءمیں جنرل ضیاءکا مارشل لاءآگیا۔ چار سال قبل تیار ہوئے آئین کو اس نے معطل کردیا۔ اس کی جگہ جس "عبوری آئین" کو متعارف کروایا گیا وہ اپنی سرشت میں کاملاََ "صدارتی"تھا۔ ریاستی فیصلہ سازی کے حتمی اختیارات اس کی بدولت فوجی وردی پہنے جنرل ضیاءکی ذات تک محدود ہوگئے۔
ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی پر لٹکانے کے بعد مذکورہ بندوبست نے یکے بعد دیگرے تمام سیاسی جماعتوں کو مفلوج بنانا شروع کردیا۔ مزاحمت دکھانے والوں کو برسرعام کوڑے لگائے گئے۔ سینکڑوں سیاسی کارکن عقوبت خانوں میں وحشیانہ تشدد کے بعد طویل مدت کے لئے جیلوں میں بھیج دئے گئے۔ وطن عزیز میں سیاسی اعتبار سے قبرستان والی خاموشی مسلط کرنے کے بعد جنرل ضیاءافغانستان کو روسی قبضے سے آزاد کروانے کے جہاد میں مصروف ہوگئے۔ نام نہاد "مہذب دنیا" نے اس ضمن میں ان کا ڈٹ کر ساتھ دیا۔ پاکستان میں آزادی اظہار اور سیاسی عمل پر لگی قدغنیں انہیں یاد ہی نہ رہیں۔ ہماری عدلیہ بھی دل وجان سے نئے بندوبست کو تقویت پہنچاتی رہی۔
دریں اثناءجنرل ضیا نے اپنی معاونت کے لئے "صالح" سیاستدانوں کی ایک نئی کھیپ تیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان سے مشاورت کے لئے مجلس شوریٰ کا قیام عمل میں لایا گیا۔ بلدیاتی انتخاب کے ذریعے ایسے ہی لوگوں کو ریاستی سرپرستی سے نوازا گیا۔ بالآخر 1985ءمیں جنرل ضیاءاور ان کے رفقاءکو خیال آیا کہ پاکستان "بدعنوان، نااہل اور شرپسند" سیاستدانوں سے پاک ہوگیاہے۔ سخت گیر مارشل لاءکی اب ضرورت نہیں رہی۔ نئے بندوبست کو "جمہوری" صورت فراہم کردینی چاہیے۔ مذکورہ سوچ کی بدولت 1985ءمیں"غیر سیاسی"بنیادوں پر انتخاب کا انعقاد ہوا۔
قومی اور صوبائی اسمبلیاں بحال کردی گئیں۔ سینٹ کا ادارہ بھی ازسرنوتشکیل دے دیا گیا۔ محمد خان جونیجو کی صورت ایک "منتخب وزیر اعظم" بھی فراہم کردیا گیا۔ اقتدار میں چند ہی ماہ گزرنے کے بعد "منتخب وزیر اعظم" کو مگر اپنے اختیارات یاد آنا شروع ہوگئے۔ موصوف اسے استعمال کرناشروع ہوگئے تو جنرل ضیاءبارہا متنبہ کرتے رہے کہ انہوں نے عوامی نمائندوں کو اقتدار میں فقط اپنا "شراکت دار" بنایا ہے۔ انہیں ریاستی فیصلہ سازی کا اختیار منتقل نہیں ہوا۔ جونیجو مرحوم اور ان کے رفقاءان کی دہرائی تنبیہ کو نظرانداز کرتے رہے۔
بالآخر مشتعل ہوکر جنرل ضیاءنے 10مئی 1988ءکو اپنے ہی تشکیل کردہ نظام کو ناکارہ قرار دیتے ہوئے مسمار کردیا۔ اس کے بعد وہ "حقیقی اسلامی نظام" متعارف کروانا چاہ رہے تھے۔ 17اگست کے فضائی حادثے نے مگر اس کی مہلت ہی نہ دی۔ بعدازاں نئے انتخاب ہوئے جس کے نتیجے میں محترمہ بے نظیر بھٹو مسلم دنیا کی پہلی اور نوجوان ترین وزیر اعظم منتخب ہوگئیں۔ محترمہ کے حلف اٹھانے سے قبل مگر ان دنوں کے آرمی چیف نے واضح انداز میں منتخب حکومت کو آگاہ کردیا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور افغانستان کے بارے میں ہماری ریاست کی پالیسیوں میں وہ مداخلت نہیں کرے گی۔
جنرل ضیاءکے فضائی حادثے سے قبل آئی ایم ایف سے پاکستان کی معیشت سنبھالنے کے عنوان سے ایک معاہدہ پر دستخط بھی ہوچکے تھے۔ مذکورہ بالاشرائط اور آئی ایم ایف کے پروگرام پر کامل عملدرآمد یقینی بنانے کے لئے ایوان صدر میں افسر شاہی کے "بابے" غلام اسحاق خان کو براجمان کرنا پڑا۔ وزارت خزانہ وی-ایس جعفری کے سپرد کردی گئی جو سرکاری نوکری سے حال ہی میں ریٹائر ہوئے "ٹیکنوکریٹ" تھے۔ آبادی کے اعتبارسے ہمارا سب سے بڑا صوبہ پنجاب بھی پیپلز پارٹی کے سپرد نہیں ہوا۔ اسے لاہور سے ابھرے ایک صنعت کار-نواز شریف- کے حوالے کردیا گیا۔
نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو کے مابین مگر مل جل کر حکومتی امور چلانے کی راہ دریافت نہ ہوپائی۔ دونوں"تخت یا تختہ"والی جنگ ہی میں مصروف رہے۔ 1985ءمیں تیار ہوا "آئینی بندوبست" لہٰذا برقرار رہا۔ اس کی وجہ سے 1990ءکی دہائی میں محترمہ اور نواز شریف اقتدار میں"باریاں" لیتے رہے۔ اصل اختیارات مگر ایوان صدر اور مقتدر کہلاتی قوتوں تک محدود رہے۔ اس بندوبست کی سرشت میں شامل تضادات کی وجہ سے 12اکتوبر1999ءمیں ایک بار پھر مارشل لاءلگا۔ سیاست کو جنرل ضیاءکی طرح قابل تعزیر بنانے کے بجائے جنرل مشر ف نے احتساب بیورو کے ذریعے سیاستدانوں کو کرپشن کی ناقابل علاج علامتیں بنانا شروع کردیا۔ ہماری عدلیہ ان کے مذکورہ مشن کی بھی دل وجان سے سہولت کار رہی۔
یہ نظام بھی تاہم چل نہیں پایا۔ اس نظام کے خلاف ٹھوس"بغاوت"مگر عدلیہ ہی سے نمودار ہوئی۔ ان دنوں کے چیف جسٹس افتخار چوہدری اس تناظر میں"انکار" کی علامت قرار پائے۔ وہ منصب سے فارغ ہوئے تو عدلیہ بحالی کی تحریک نے ریاست کو "ماں" بنانے کا عہد باندھا۔ بالآخر جنرل مشرف بھی استعفیٰ دینے کو مجبور ہوئے۔ بعدازاں افتخار چوہدری بھی اپنے منصب پر دھوم دھام سے لوٹ آئے۔ چیف جسٹس کی کرسی پر لوٹتے ہی افتخار چوہدری نے ازخود نوٹسوں کی بھرمار کے ذریعے سیاستدانوں کو جعلی ڈگریوں والے بدعنوان ثابت کرنا شروع کردیا۔
پارلیمان اس کے نتیجے میں بتدریج"چوروں لٹیروں" کی آماجگاہ نظر آنے لگی۔ اپنی بے توقیری کا سیاستدان موثر تدارک ڈھونڈنے میں ناکام رہے۔ ان کی بے بسی اور کوتاہ خیالی نے بالآخر سپریم کورٹ کو یہ قوت فراہم کی کہ وہ عوام کے براہ راست ووٹوں سے منتخب ہوئی قومی اسمبلی کے "قائد ایوان" یعنی وزیر اعظم کو محض ایک چٹھی نہ لکھنے کے جرم میں یوں فارغ کردے جیسے گھریلو ملازموں کو چٹکی بجاکر گھربھیج دیا جاتا ہے۔ آج کے کالم میں تاریخ کو طویل تمہید کی صورت بیان کرنے کا اصل مقصد یہ اصرار کرنا ہے کہ 2010ءسے ہمارے ہاں جو "آئینی بندوبست" چل رہا ہے اس میں ریاست کا سب سے بڑا "ستون" عدلیہ ہی ثابت ہوئی ہے۔ وہ ستون لیکن اب ڈگمگانا شروع ہوگیاہے۔
پیر کے روز سپریم کورٹ میں اعلیٰ عدلیہ نے عزت مآب ججوں کے مابین برملا بیان ہوئے اختلافات نے میرے اس دعوے کو ٹھوس شواہد فراہم کردئے ہیں۔ جو ہورہا ہے وہ 1985ءسے متعارف ہوئے "بندوبست" کی جڑیں کھوکھلی کررہا ہے۔ اس جانب مگر ہمارے "ذہن ساز" توجہ ہی نہیں دے رہے۔ فقط اس "آئینی" سوال کا جواب ڈھونڈنے کو مرے جارہے ہیں کہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ اسمبلیوں کے انتخاب کی تاریخ کیوں طے نہیں ہورہی۔
میرا جھکی ذہن مصر ہے کہ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدلیہ نے کسی بھی انداز میں وہ تاریخ طے بھی کردی تو ہمیں سیاسی استحکام ہرگز نصیب نہیں ہوگا۔ کئی نئے "کٹے" کھل جائیں گے جن کے نتیجے میں ابھی تک قائم رہے"آئینی بندوبست" کا برقرار رہنا ناممکن ہوجائے گا۔ اسی باعث گزشتہ کئی دنوں سے مچل رہا ہوں کہ اس کالم میں سیاست زیر بحث لانے سے گریز کروں۔
میرے اور آپ جیسے عام پاکستانیوں کی سیاسی معاملات کے بارے میں رائے اب کسی وقعت کی حامل نہیں رہی۔ ہماری ریاست کے "ستونوں" کے درمیان اختیارات کے جھگڑے ہورہے ہیں۔ ربّ کریم سے محض فریاد ہی کرسکتے ہیں کہ ان کے باہمی جھگڑے صوفی تبسم کے بیان کردہ "لڑتے لڑتے ہوگئی گم۔۔ " والے انجام کو نہ پہنچیں۔