جمعرات کی صبح چھپے کالم میں بیان کیا تھا کہ طالبان نے طویل انتظار کے بعد جو حکومت تشکیل دی ہے اس میں فقط ایک غیر پشتون شامل ہے۔ نام ان کا قاری فصیح ہے اور وہ کابل میں طالبان کے فاتحانہ داخلے سے قبل شمالی علاقوں پر کنٹرول کی کوششوں میں سرگرم رہے تھے۔ یہ کالم پڑھنے کے بعد ایک مہربان قاری نے تصحیح فرمائی ہے کہ وہ پی ایچ ڈی کے طالب علم ہیں اور بلال صاحب کی بدولت علم ہوا ہے کہ طالبان حکومت میں قاری فصیح کے علاوہ ایک اور قاری دین محمد کو بھی وزارت تعلیم کا منصب ملا ہے۔ علاوہ ازیں قاری عبدالسلام جو نائب وزیر اعظم دوئم بنائے گئے ہیں پشتون نہیں بلکہ ازبک ہیں۔ ان کی فرمائی تصیح کا شکر گزار ہوں۔ یہ حقیقت مگر اپنی جگہ برقرار ہے کہ منگل کے روز بنائی حکومت میں ہزارہ برادری کا کوئی نمائندہ شامل نہیں۔
افغانستان پر مسلسل نگاہ رکھنے والے کئی تبصرہ نگاروں کا خیال ہے کہ ایران کے لئے منگل کے روز تشکیل پائی حکومت کو تسلیم کرنا دشوار ہوگا۔ بنیادی وجہ اس کی یہ بتائی جارہی ہے کہ ایران مذکورہ حکومت میں اپنے ہم مسلک افغانوں کی نمائندگی کا خواہاں بھی تھا۔ میں ذاتی طورپر اس سوچ سے متفق نہیں۔ یہ بات درست ہے کہ ایران نے شیعہ مسلک کو اپنا ریاستی عقیدہ بنارکھا ہے۔ دیگر ممالک کے ساتھ تعلقات بڑھانے یا ان سے دوری اختیار کرنے کے لئے ایران مگر مسلکی سوچ کو ترجیح نہیں دیتا۔ کئی اعتبار سے ماضی کی تاریخ کو ذہن میں رکھتا ہے۔
مثال کے طورپر آذربائیجان ہے۔ وہ ماضی میں ایرانی سلطنتوں کا حصہ رہا ہے۔ ایران کا قریب ترین ہمسایہ بھی ہے۔ آذری آج کے ایران میں بھی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ تاریخی شہر تبریز ان کا گڑھ شمار ہوتا ہے۔ سوویت یونین کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد آذربائیجان مگر جب آزاد ریاست ہوا تو اس کے تعلقات مسیحی اکثریت والے آرمینیا سے کشیدہ سے کشیدہ تر ہونا شروع ہوگئے۔ آرمینیا نے نگورنو کا رباخ کے علاقے پر قبضہ کرلیا جو تاریخی اعتبار سے آذربائیجان کا حصہ رہا تھا۔ وہاں صدیوں سے مقیم آذری بولنے والوں کو فوجی قوت کے وحشیانہ استعمال سے نقل مکانی کو مجبور کیا گیا۔ 1990کی دہائی میں ایسے لاکھوں افراد آذربائیجان کے مہاجر کمپیوں میں بدحالی کی زندگی گزاررہے تھے۔ مجھے دوبار ان کے مصائب کو برسرزمین جاکر مشاہدے کا موقعہ ملا تھا۔
مصیبت کی اس گھڑی میں ایران تاہم آرمینیا کا طرفدار رہا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ آذری افراد کی بے پناہ اکثریت شیعہ مسلک سے تعلق تو رکھتی ہے مگر ثقافتی اعتبار سے خود کو ترک تصور کرتی ہے۔ ایران کو یہ خدشہ بھی لاحق تھا کہ تیل کی دولت سے مالا مال آذر بائیجان اگر ایک مستحکم اور خوشحال ملک میں تبدیل ہوگیا تو ایران میں مقیم آذری بولنے والے "عظیم تر آذرئیجان" کے خواب دیکھنا شروع ہوجائیں گے۔ پاکستان کے بلوچستان کے بارے میں بھی ایران ایسا ہی محسوس کرتا ہے۔
آذربائیجان نے مگر نہایت صبر واستقامت سے اچھے وقت کا انتظار کیا۔ ایران کے بدترین دشمن اسرائیل سے گہرے مراسم استوار کئے۔ اس کی مدد سے جدید ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کی۔ ترکی تو اس کا دیرینہ حلیف تھا اور پاکستان بھی آذربائیجان میں بہت مقبول ہے۔ خود کو مستحکم کرنے کے بعدگزشتہ برس آذربائیجان نے جدید ترین جنگی ہتھیاروں کے ذریعے آرمینیا کے قبضے میں موجود آذری علاقوں کو آزاد کروالیا ہے۔
شام سنی اکثریت والا ملک ہے۔ وہ عرب ثقافت کا مضبوط ترین مرکز بھی ہے۔ ایران مگر بشار الاسد کی قیادت میں موجود حکومت کا قریب ترین حامی ومعاون ہے۔ حکومت مخالف گروہوں کے خلاف خانہ جنگی میں ایران بشارالاسد کا دل وجان سے مددگار ہے۔ اس کا تعلق یقینا علوی مسلک سے ہے۔ یہ مسلک مگر امامیہ مسلک کے قریب نہیں۔ مزید تفصیلات کی جانب بھٹکنے کے بجائے یاد فقط یہ دلانا مقصود ہے کہ کسی بھی جدید ریاست کی طرح اسلامی جمہوریہ ایران بھی دیگر ممالک سے روابط بڑھاتے ہوئے مسلکی ترجیحات کے بجائے قومی مفادات کو فوقیت دیتا ہے۔ طالبان کے ساتھ بھی اسی وجہ سے ایران نے اپنے روابط بڑھائے۔ امریکہ کو زچ کرنے کی خواہش کے علاوہ ان دونوں کو ایک مشترکہ دشمن بھی مل گیا نام جس کا داعش تنظیم ہے۔
ایران کو اس کے ایٹمی پروگرام کی وجہ سے امریکہ نے اقوام متحدہ کی مدد سے سخت گیر اقتصادی پابندیوں میں جکڑ رکھا ہے۔ اس کے تیل کو عالمی منڈ ی میں فروخت کی اجازت میسر نہیں۔ طالبان مگر افغاانستان کے ساتھ اس کی تجارت کو مزاحمت کے ایام میں بھی ممکن بناتے رہے۔ ان دنوں افغانستان کا گیس اور پیٹرول کے حوالے سے کامل انحصار ایران پر ہے۔ وہاں میسر بجلی کا وافر حصہ بھی ایران کا محتاج ہے۔ ایران کو اعتماد ہے کہ داعش کی وجہ سے ابھرے خدشات کے علاوہ ٹھوس معاشی حقائق طالبان کو ایران کے ساتھ دوستانہ روابط برقرار رکھنے کو مجبور کریں گے۔
دودن قبل ایرانی پارلیمان میں ایرانی پاسداران کے سربراہ نے وہاں خارجہ امور پر نگاہ رکھنے والی کمیٹی کو بریفنگ دی ہے۔ اس بریفنگ کے دوران ایرانی مجلس کے نمائندوں کو واضح الفاظ میں یہ بتایا گیا ہے کہ امریکہ کی شدید خواہش ہے کہ اس کے افغانستان سے انخلاء کے بعد وہاں شیعہ سنی بنیادوں پر خانہ جنگی شروع ہوجائے۔ ایران کو مبینہ سازش ہر صورت ناکام بنانا ہوگی۔ مذکورہ خواہش کے اظہار کے باوجود ایران کے میڈیا کا ایک حصہ مگر طالبان کی مذمت میں مصروف ہے۔ وادیٔ پنجشیر پر قبضہ بھی اسے پسند نہیں آیا۔ ایرانی حکومت کو اکسایا جارہا ہے کہ وہ افغانستان کے غیر پشتون شہریوں کے حقوق کے دفاع میں سخت مؤقف اختیار کرے۔ حکومت ایران فی الوقت اس کے لئے آمادہ نظر نہیں آرہی۔
افغانستان کا تذکرہ کرتے ہوئے ہم پاکستانیوں کی اکثریت یہ حقیقت بھی فراموش کردیتی ہے کہ ہم اس ملک کے واحد ہمسایہ نہیں ہیں۔ ایران اور ہم ہمسائیگی کے حوالے سے اہم ترین اس لئے ہوئے کیونکہ افغانستان کو سمندر تک رسائی حاصل نہیں۔ اس کی درآمدات وبرآمدات ہم دونوں ممالک کے زمینی راستوں کے علاوہ سمندروں کی بھی محتاج ہیں۔ تجارت کے حوالے سے نظر آنے والی اہمیت سے بالاتر ہوکر نقشے پر نگاہ ڈالیں تو ازبکستان اور تاجکستان بھی افغانستان کے اہم ترین ہمسائے نظر آئیں گے۔ ازبکستان نے منگل کے روز قائم ہوئی حکومت کے بارے میں خیر سلگالی کے جذبات کا اظہار کیا ہے۔ تاجکستان کا صدر مگر تلملائے ہوئے ہے۔ اور وجہ اسکی افغانستان کی تاجک آبادی ہے جو ملک چھوڑنے کو مجبور ہوئی تو فی الوقت تاجکستان منتقل ہونے کو ترجیح دے گی۔
تاجکستان مگر وسط ایشیاء کا غریب ترین ملک ہے۔ اس کی آبادی تقریباََ95لاکھ ہے۔ اس آبادی کی بے پناہ تعداد مگر روزگار کے لئے روس جیسے ممالک میں مقیم ہے۔ تاجکستان کی قومی آمدنی میں غیر ممالک میں کام کرنے والے تاجک 30فی صد سے زیادہ حصہ ڈالتے ہیں۔ وہ ملک جہاں کی اپنی آبادی کو روزگار کے امکانات میسر نہ ہوں افغانستان سے آئے تاجکوں کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتا۔ طالبان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے امریکہ یا اس کے حامی البتہ تاجکستان کی سرپرستی کو آمادہ ہوسکتے ہیں۔ وہاں تک پہنچنے کے لئے اگرچہ وقت درکار ہوگا۔ افغانستان کے حوالے سے ایک نئی گیم تو ہر صورت لگنا ہے۔ اس کے ممکنہ خدوخال فی الوقت مگر کم از کم میرے ذہن میں تو نہیں آرہے۔ انتظار کرنے کو مجبور محسوس کرتا ہوں۔