ہم اپنی سوچ کو دوسروں تک پہنچانے کے لئے جو ذرائع استعمال کرتے ہیں ان کی اہمیت اور محدودات کو سمجھنے کے لئے کینیڈا میں پیدا ہوے ایک محقق نے اپنی ساری زندگی خرچ کردی۔ مارشل میک لوہان (Marshall Mcluhan) اس کا نام تھا۔ ٹیلی وژن کو Idiot Box اس کی سوچ کی وجہ سے پکارا گیا۔ بنیادی پیغام مارشل کی فکر کا مگر یہ تھا کہ "The Medium is the Message"۔
اس فقرے کا اُردو ترجمہ میرے لئے ممکن نہیں۔ سادہ الفاظ میں فقط یہ کہہ سکتا ہوں کہ مارشل کی دانست میں جو بات شعر کے ذریعے کہی جاسکتی ہے نثر کے استعمال سے کہی نہیں جاسکتی۔ ناول نگار کا دیا پیغام کسی مصور کی بنائی تصویر کے ذریعے پہنچانا ناممکن ہے۔ ہر ذریعہ ابلاغ کے مخصوص تقاضے ہوتے ہیں۔ ان تک محدود رہتے ہوئے ہی آپ کوئی بات کہہ سکتے ہیں۔ چند باتیں عوام میں مقبول ذرائع ابلاغ کے ذریعے کہی نہیں جاسکتیں۔
فیس بک اور ٹویٹر دورحاضر کے حتمی ذرائع ابلاغ میں تبدیل ہوچکے ہیں۔ ان کے اثر سے متاثر ہوکر مجھ جیسے کالم نگار کسی بھی موضوع پر لکھتے ہوے لاشعوری طورپر اس خواہش میں مبتلا ہوتے ہیں کہ لکھا گیا کالم جب سوشل میڈیا پر پوسٹ ہو تو اسے زیادہ سے زیادہ لوگ پسند کرنے کے بعد دوسروں سے Shareبھی کریں۔ اس خواہش کی وجہ سے آپ بتدریج ان موضوعات پر لکھنا ہی چھوڑدیتے ہیں جن کا ذکر ہو تو قارئین کی خاطرخواہ تعداد سوشل میڈیا پر اسے دوسروں سے شیئر نہیں کرتی۔
Share پر کالم نگاروں کے انحصار کا ذکر چلا ہے تو یہ بتانا بھی ضروری ہے کہ حال ہی میں امریکہ میں ایک تحقیق ہوئی ہے۔ اس کی بدولت دریافت یہ ہوا کہ "قارئین" کی 60 فی صد تعداد عموماََ ایسے مضامین یا کالم بھی Share کرتی ہے جو انہوں نے بذاتِ خود پڑھنے کی زحمت ہی گوارہ نہیں کی ہوتی۔ مثال کے طورپر آپ کو X نام کا ایک کالم نگار پسند ہے تو اس کے لکھے کالم کو فیس بک یا ٹویٹر پر دیکھتے ہی آپ Share یا Retweet کا بٹن دبادیتے ہیں۔ یہ فرض کرلیتے ہیں کہ میرے پسندیدہ کالم نگار نے جو بھی لکھا ہوگا وہ میرے دل کی آواز ہوگی اور اسے دوسرے لوگ بھی پڑھنا چاہیں گے۔
اس کالم کی "دانشوارانہ" تمہید کئی دنوں سے یہ سوچتے ہوئے باندھنے کو مجبور ہوا ہوں کہ ہماری صحافت اپنے میڈیم سے "مخلص" نظر نہیں آرہی۔ سوشل میڈیا کے ذریعے مقبولیت کی محتاج ہوگئی ہے۔ صحافت مگر اپنی جگہ ایک فریضہ بھی ہے۔ اس کے ذریعے آپ کو ہر صورت اس موضوع پر لکھنے کی ایک حوالے سے ضد میں مبتلا رہنا ہوگا جو آپ کی دانست میں اہم ترین ہے۔ غالبؔ کی طرح ستائش اور صلہ کی تمنا کئے بغیر شعر لکھتے رہنے والی عادت۔
صحافت کے تقاضوں کا ذکر کرنے کو مجبور محسوس کررہا ہوں کیونکہ ہمارے میڈیا میں ان دنوں افغانستان کا ذکر نہیں ہورہا۔ افغانستان کے بارے میں پاکستانی میڈیا کی بے اعتنائی اس حقیقت کے تناظر میں حیران کن ہے کہ 80 کی دہائی سے پاکستا ن کی خارجہ پالیسی ہی نہیں بلکہ ہماری سیاست اور معیشت بھی وسیع تر حوالوں سے افغانستان کی صورت حال سے جڑی رہی۔ ہمارے ہاں کئی برسوں تک مسلط رہی دہشت گردی کا بنیادی سبب بھی افغانستان سے متعلقہ معاملات ہی رہے۔ 70ہزار سے زائد معصوم اور بے گناہ پاکستانی شہری اس کا نشانہ بنے۔ ہماری معیشت کو اربوں روپوں کا نقصان ہوا۔ پاکستان کے Image کو بھی افغانستان کی بدولت جائز اور ناجائز وجوہات کی بنا پر ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا۔
عمران حکومت اگست 2018 میں برسرِ اقتدار آئی تو چند ماہ گزرنے کے بعد امید بندھی کہ ٹرمپ افغانستان سے اپنی افواج نکالنے کو بے چین ہے۔ افغانستان میں اپنی ترجیحات کا امن حاصل کرنے کے لئے اسے پاکستان کی مدد درکار تھی۔ پاکستان نے اس ضمن میں اہم کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ طالبان اور زلمے خلیل زاد کے درمیان مذاکرات شروع ہوگئے۔ حکومتِ پاکستان کا وسیع تر تناظر میں "شکریہ" ادا کرنے کے لئے ٹرمپ انتظامیہ نے بہت چائو سے عمران خان صاحب کو اپنے ملک مدعو بھی کرلیا۔ وائٹ ہائو س میں ان کی محبت بھری پذیرائی دیکھنے کو ملی 22جولائی کے روز عمران خان صاحب کو اپنے دائیں ہاتھ بٹھاکر ڈونلڈٹرمپ نے اپنی جانب سے مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے ثالث کا کردار ادا کرنے کی خواہش کا اعلان بھی کردیا۔ ہم بہت خوش ہوئے۔
ہمیں گماں تھا کہ نریندرمودی بھارتی وزیر اعظم کے منصب پر لوٹنے کے بعد پاکستان کے بارے میں معقولیت بھرا رویہ اپنائے گا۔ اس کے ساتھ امن کے مذاکرات شروع ہوگئے تو دونوں ممالک میں تجارت میں بھی تیزی آجائے گی۔ کرتارپور راہداری کے آغاز کے ساتھ پاکستان اور بھارت کے شہریوں کے لئے ایک دوسرے سے ملنا ملانا شروع ہوجائے گا۔ افغانستان میں طالبان سے امریکہ کا امن معاہدہ ہوگیا تو "نیا افغانستان" پاکستان کے زمینی راستوں سے بھارت اور دیگر ممالک کے ساتھ کاروبار بڑھانا شروع ہوجائے گا۔ مغرب اور مشرق یعنی افغانستان اور بھارت کے ساتھ امن کی صورتیں رونما ہونے کی وجہ سے پاکستان ایک جاندار تجارتی مرکز میں تبدیل ہوجائے گا۔ چین کی بھاری سرمایہ کاری کے تحت چلایا CPEC اس ضمن میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔
وزیر اعظم عمران خان صاحب کے دورئہ امریکہ کے چند ہی دن بعد مگر مودی سرکار نے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کا اعلان کرنے کے علاوہ مقبوضہ کشمیر پر وحشیانہ لاک ڈائون مسلط کردیا۔ 5 اگست 2019 کے بعد سے آج تک 80 لاکھ کشمیری ایک وسیع وعریض جیل میں محصور ہوچکے ہیں۔ ہمیں کمیونی کیشن لاک ڈائون میں نرمی لانے کی خواہش کے ساتھ اب آزادکشمیر کو بچانے کی فکر بھی لاحق ہوچکی ہے۔ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کھڑے ہوکر پاکستان کے وزیر اعظم کوایٹمی ہتھیاروں کے استعمال کا ذکر کرنا پڑا ہے۔
بھارت کیساتھ سنگین تر ہوتی کشیدگی کے ہوتے ہوئے بُری خبر یہ بھی آئی کہ طالبان کا امریکہ سے معاہدہ ہو نہیں پایا۔ طالبان خود کو "امارت اسلامی" تسلیم کروانے پر بضدرہے۔ کیمپ ڈیوڈ جاکر معاہدہ امن پر دستخط سے انکار کردیا۔ افغان حکومت سے مذاکرات کے لئے ہرگز آمادہ نہیں ہوئے۔ ٹرمپ نے افغانستان کے ساتھ امن کے امکانات کی "موت" کا اعلان کرنے کے بعد افغانستان میں موجود امریکی افواج کو طالبان کے خلاف جنگی کارروائیوں میں شدت لانے کا ماحول فراہم کردیا۔ ساتھ ہی امریکہ کی سرپرستی میں نام نہاد "عالمی برادری"نے یہ فیصلہ بھی کیا کہ افغانستان میں ہر صورت 28ستمبر کے روز صدارتی انتخاب کا انعقاد ہوگا۔
گزشتہ ہفتے کے دن یہ انتخاب ہوگیا ہے۔ طالبان نے دھمکی دی تھی کہ وہ انتخابی عمل کو اپنے اقدامات سے ناممکن بنادیں گے۔ اس دھمکی پر خوف ناک انداز میں عملدرآمدنہیں ہوا۔ افغانستان کے شہری مگر خوف میں مبتلا رہے۔ ووٹ دینے کے لئے گھروں سے نکلنے سے گھبراتے رہے۔ انتہائی کم ٹرن آئوٹ کو بڑھانے کے لئے پولنگ کے اوقات میں اضافہ کرنا پڑا۔ شنید اب یہ ہے کہ عالمی ادارے یکسوہوکر دعویٰ کررہے ہیں کہ "اپنی جان کی پراہ کئے بغیر" 22 سے 25 فی صد افغان ووٹروں نے بالآخر ووٹ ڈال ہی دیا۔ یہ تعداد ہرگز متاثر کن نہیں مگر طالبان کی دھمکی کو ذہن میں رکھتے ہوئے اسے "قابلِ احترام کہا جارہا ہے۔ افغانستان میں موجود امریکی اور نیٹو افواج کے نمائندگان یہ دعویٰ بھی کررہے ہیں کہ ہفتہ کے روز ہواانتخابی عمل افغانستان کی حالیہ تاریخ کا "شفاف ترین" عمل رہا ہے۔ جدید ترین آلات کو بروئے کار لاتے ہوئے "جعلی ووٹ" کی گنجائش نکالنا ناممکن بنادیا گیا۔
انتخابی نتائج کااعلان ابھی ہوا نہیں ہے۔ اشرف غنی کے دونمایاں مخالفین ڈاکٹر عبداللہ اور گل بدین حکمت یار مگر انتخابی عمل پر سوالات اٹھانا شروع ہوگئے ہیں۔ ان کے رویے کی بدولت افغانستان میں "نئی خانہ جنگی" کی گفتگو شروع ہوگئی ہے۔ ہمارے میڈیا میں لیکن افغانستان میں ہوئے صدارتی انتخاب اور اس سے جڑے قضیوں کا کماحقہ ذکر تک نہیں ہوا۔ بھرپور تجزیہ تو بہت دور کی بات ہے۔
میری عاجزانہ رائے میں افغانستان کے صدارتی انتخاب کے بارے میں پاکستانی میڈیا پر چھائی بے اعتنائی انتہائی غیرذمہ دارانہ ہے۔ اس نے ہمیں ایک اہم ترین واقعہ سے غافل رکھا جس کے اثرات میرے منہ میں خاک اس خطے میں ایک نئی آگ بھڑکاسکتے ہیں جس کے مضمرات بہت خوفناک ہوسکتے ہیں۔