روایتی اور سوشل میڈیا پر چھائے ذہن سازوں نے گزشتہ کئی دنوں سے مجھ سادہ لوح کو اس گماں میں مبتلا رکھا کہ اپنے دو عزت مآب ججوں سمیت چیف جسٹس عمر عطا بندیال صاحب آئین کے تحفظ کو ڈٹ چکے ہیں۔ ان کا عزم ہے کہ ہمارے تحریری آئین میں شامل وہ آئینی شق ہر صورت بروئے کار لائی جائے جو کسی اسمبلی کی تحلیل کے بعد "نوے روز کے اندر" نئے انتخاب کا تقاضہ کرتی ہے۔ ذہن سازوں کی بدولت خدشہ یہ بھی لاحق ہوا کہ چیف جسٹس صاحب کو مبینہ طورپر "آئین کے تحفظ" سے روکنے کےلئے چند ساتھی جج بھی میدان میں اتر آئے ہیں۔ اسی باعث پیر کے دن وکلاءکا ایک پرجوش گروہ "چیف تیرے جانثار" کے نعرے بلند کرتے ہوئے سپریم کورٹ کی عمارت تک پہنچنے کی کوشش کرتا رہا۔
منگل کی دوپہر بالآخر فیصلہ ہوگیا۔ وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کو اس کے ذریعے حکم صادر کردیا گیا ہے کہ وہ ہر صورت 14مئی 2023ءکے روز پنجاب اسمبلی کے انتخابات کو یقینی بنائیں۔ الیکشن کمیشن کو اس ضمن میں وزارت خزانہ اور دیگر اداروں سے مطلوبہ رقوم اور تعاون میسر نہ ہو تو وہ سپریم کورٹ آگاہ کرے۔ پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت الیکشن کمیشن کی سہولت کاری یقینی بنائے گی۔
"نوے روز کے اندر" والی تاریخ مگر اس فیصلے کے باوجود رونما ہوئی نظر نہیں آئی۔ بہرحال دیرآید درست آید سے جی کو تسلی دے لیتے ہیں۔ پاکستان ہی کا مگر ایک اور صوبہ خیبر پختونخواہ بھی ہے۔ وہاں کی صوبائی اسمبلی بھی تحلیل ہوچکی ہے۔ وہاں نئی اسمبلی کی تشکیل کے لئے انتخاب کی تاریخ کا مگر تعین نہیں ہوا۔ قانون سے قطعاََنابلد مگر سیاسی عمل کا دیرینہ شاہد ہوتے ہوئے میں ہرگز سمجھ نہیں پارہا ہوں کہ خیبرپختونخواہ کے عوام کو "نوے دنوں کے اندر" نئی صوبائی اسمبلی کی تشکیل کے لئے رائے دہی استعمال کرنے کا حق اس عجلت اور لگن کے ساتھ یقینی کیوں نہیں بنایا گیا جو پنجاب کے حوالے استعمال ہوئی۔ "تخت لاہور" ہی کے معاملات پر توجہ کیوں مرکوز رہی۔
قانون سے نابلد اس طالب علم نے منگل کے روز آئے فیصلے کو تین مرتبہ بہت غور سے پڑھا ہے۔ اس کی بدولت تاثر یہ بھی ابھرا کہ الیکشن کمیشن کو لگام ڈال کر سپریم کورٹ اب راہ راست پر چلائے گی۔ مذکورہ کمیشن کی "خودمختاری" قابل اعتبار نہیں رہی۔ سپریم کورٹ کواس کے چال چلن پر کڑی نگاہ رکھنا ہوگی۔
جو فیصلہ آیا ہے اسے وفاقی حکومت نے "متنازعہ" ٹھہراکر ناقابل عمل بھی قرار دیا ہے۔ فیصلہ آجانے کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں دھواں دھار تقاریر بھی ہوئیں۔ ان کی بدولت "پارلیمان کی بالادستی" کی دہائی مچائی گئی۔ ماتم کنائی مگر منگل کے روز آئے فیصلے کے اطلاق کو روک نہیں پائے گی۔ سینہ کوبی ایسے معاملات میں اگر کام آسکتی تو ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کے پھندے سے بچ جاتے۔ یوسف رضا گیلانی کو گھریلو ملازموں کی طرح وزارت عظمیٰ سے فارغ نہ کیا جاتا۔ نواز شریف بھی وزارت عظمیٰ کے منصب سے ہٹادینے کے بعد انتخابی عمل میں حصہ لینے کے لئے تاحیات نااہل نہ ہوجاتے۔
عمران خان صاحب نے بھی اپنا اقتدار بچانے کے لئے تحریک عدم اعتماد والی آئینی شق کو غچہ دینے کے لئے کئی حربے استعمال کئے تھے۔ سپریم کورٹ نے مگر گزشتہ برس کے اپریل ہی میں ازخود نوٹس لے کر قومی اسمبلی میں ان کے خلاف پیش ہوئی تحریک عدم اعتماد پر گنتی کا حکم جاری کیا تھا۔ گنتی ہوئی تو وہ وزیر اعظم نہ رہے۔ عاشقان عمران کو وہ فیصلہ پسند نہیں آیا تھا۔ عزت مآب ججوں کو اپنے قائد کی فراغت کا ذمہ دار ٹھہراتے رہے۔ منگل کے روز آئے فیصلے نے مگر انہیں اب شادمانی کا احساس دلادیا ہے۔ سینہ کوبی ان کے مخالفین کا مقدر ہوئی ہے۔
منگل کے دن آئے فیصلے پر قانونی نوعیت کے اعتراض اٹھانے کی مجھے تربیت نصیب نہیں ہوئی۔ صحافتی کیئریئر کا تمام تر وقت سیاسی اور خارجہ امور کی رپورٹنگ کے نذر کیا ہے۔ سیاسی امور کے مشاہدے نے بنیادی سبق یہ سکھایا ہے کہ سیاستدان انتخابی عمل سے اگر "بھاگتا" نظر آئے تو عوام کو "بکری" ہوا محسوس ہوتاہے۔ مسلم لیگ (نون) اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے منگل کے روز آئے فیصلے کی بابت سینہ کوبی اس تناظر میں شکست سے دو چار ہوئے فریق کا واویلا محسوس ہورہی ہے۔ ایسے ماحول میں موجودہ حکومت اگر سپریم کورٹ کی جانب سے نئی پنجاب اسمبلی کی تشکیل کے لئے طے ہوئے دن کو حیلوں بہانوں سے ٹالنے کی کوشش کرے گی تو مزید شکست خوردہ نظر آئے گی۔
سیاسی مبادیات کا تقاضہ ہے کہ سینہ کوبی اور گلہ زاریوں میں مزید وقت ضائع کئے بغیر شہباز شریف انتخابی میدان میں اترنے کی تیاری کریں۔ وہ اپنے بھائی کے نام سے منسوب مسلم لیگ کے صدر بھی ہیں۔ 2008ءسے 2018ءتک مسلسل دس برس آبادی کے اعتبار سے ہمارے سب سے بڑے صوبے کے بااختیار وزیر اعلیٰ رہے ہیں۔ ان کی بدولت پنجاب گزشتہ کئی برسوں سے مسلم لیگ (نون) کا ناقابل تسخیرقلعہ محسوس ہوتا رہا۔ ان کی بنیادی ذمہ داری اب مذکورہ "قلعہ" کی حفاظت ہے۔ اپنے "قلعے" کو عمران خان کے نامزد کردہ وزیر اعلیٰ سے بچانے کے لئے انہیں وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہونا پڑے گا۔ اپنے اتحادیوں کا اجلاس بلائیں۔
صاف لفظوں میں انہیں بتادیں کہ ان کے بھائی نے 1985ءسے پنجاب میں مسلم لیگ (نون) کو تقریباََ ناقابل شکست بنادیا تھا۔ وہ اس پہچان کو بحال کرنے کے لئے انتخابی مہم کی براہ راست قیادت کو مجبور ہیں۔ اسی باعث انہیں وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہوکرلاہور بیٹھنا پڑے گا تاکہ عمران خان کی قیادت میں توانائی سے بڑھتی لہر کا جی داری سے مقابلہ کیا جاسکے۔ ان کی جماعت اور اتحادی کسی اور شخص کو وزیر اعظم منتخب کرتے ہوئے وفاق میں اقتدار سنبھالے رہ سکتے ہیں۔ شہباز شریف کی ذات کے لئے مگر یہ اب نہیں تو کبھی نہیں والا معاملہ بن چکا ہے۔ پنجاب کو عمران خان کی برپا کردہ لہر سے اس کے علاوہ بچانے کا کوئی اور طریقہ مجھ کو تاہ بین کو نظر نہیں آرہا۔
وزارت عظمیٰ شہباز شریف کو اگر بہت پسند آگئی ہے۔ وہ اس سے مزید کچھ مہینوں تک لطف اندوز ہونا چاہ رہے ہیں تو مجھ جیسے دو ٹکے کے رپورٹر کو انہیں اس سے باز رکھنے کا حق حاصل نہیں۔ صحافی کا بنیادی فریضہ ویسے بھی حکمرانوں کو "مشاورت" فراہم کرنا نہیں ہوتا۔ جو نظرآرہا ہوتا ہے اسے بیان کرنا ہی میرے پیشے کا بنیادی تقاضہ ہے۔ موجودہ حالات کو سنجیدگی سے دیکھتے ہوئے جو محسوس ہوادیانت داری سے لکھ دیا ہے۔ اگے تیرے بھاگ لچھیے۔