سردار تنویر الیاس سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ ان کی شخصیت کے جو پہلو سوشل میڈیا پر لگائی وڈیوز کی بدولت دیکھنے کو ملے موصوف کو مسخرہ دکھاتے ہیں۔ اس ٹھنڈ اور بردباری سے قطعاََ محروم جو آزادکشمیر جیسے "حساس" خطے کے وزیر اعظم سے متوقع ہوتی ہے۔ سردار صاحب کی بے پناہ دولت مگر انہیں ہم عامیوں کی توقعات سے بے نیاز رکھتی ہے۔ نودولتیوں سے وابستہ رعونت سے نفرت کی وجہ سے میں ان کا مداح نہیں بن پایا۔ اس کے باوجود مجھے دکھ ہوا جب خبر آئی کہ موصوف کو "توہین عدالت" کا مرتکب ٹھہراتے ہوئے آزادکشمیر کی وزارت عظمیٰ کے لئے نااہل ٹھہرادیا گیا ہے۔
وزرائے اعظموں کو "نااہل" ٹھہرانے کی روایت پاکستان کے چیف جسٹس افتخار چودھری نے متعارف کروائی تھی۔ پنجابی راجپوت ہونے کے باوجود وہ بلوچستان سے مختص "کوٹے" کی بدولت ہماری اعلیٰ ترین عدالت کے جج ہوئے۔ جنرل مشرف کی کئی برسوں تک جی حضوری فدویانہ انداز میں نبھائی۔ بالآخر ہمارے چیف جسٹس بن گئے۔ اس مقام پر ان کے پہنچنے کے چند ہی روز بعد میں وزارت داخلہ گیا۔ ایک خاتون کی مدد درکار تھی جو میری دانست میں انصاف کی مستحق تھیں۔ آفتاب شیر پائو صاحب ان دنوں ہمارے وزیر داخلہ تھے۔ برسوں کی شناسائی کی بدولت وہ میرے بزرگ ہیں۔ انہیں مطلع کئے بغیر وزارت میں گھس گیا تھا۔ ان کے سٹاف کو شیر پائو صاحب سے میری قربت کا بخوبی علم تھا۔ مجھے ان کا دفتر کھول کر وہاں بٹھادیا اور تھوڑی دیر بعد اطلاع دی کہ شیر پائو صاحب اپنے گھر سے دفتر روانہ ہوچکے ہیں۔ میرے لئے چائے پانی کا حکم بھی ملا ہے۔
وزیر داخلہ سے ملاقات کے لئے اس وزارت کے ایک بڑے افسر بھی بہت بے تاب تھے۔ میں صحافیانہ تجسس کے ساتھ ان سے گپ شپ میں مصروف ہوگیا۔ گفتگو کی روانی میں علم ہوا کہ ارسلان نامی کوئی صاحب ہیں۔ چیف جسٹس کے فرزند ہیں۔ "ڈاکٹر" ہونے کے باوجود وہ ایف آئی اے میں"انڈکٹ" ہوچکے تھے۔ انہیں"اچھی جگہ "لگانے کے طریقے ڈھونڈے جارہے تھے۔ شیر پائو صاحب جب دفتر پہنچے تو اپنی استدعا ان تک پہنچانے کے بعد میں نے ارسلان کا ذکر کیا۔ شیر پائو صاحب میرے سوال سے چوکنا ہوگئے۔ "اپنے کام سے کام رکھو" کا مشورہ دیتے ہوئے جو معاملہ میرے علم میں آیا تھا اس کی گویا تصدیق فراہم کردی۔ ارسلان کی ایف آئی اے میں اپنے والد کے اثر کی وجہ سے "انڈکشن" والی خبر مستند تھی۔
"توہین عدالت" کے خوف سے تاہم میں انگریزی اخبار میں لکھے ایک کالم میں استعاروں کے ذریعے ہی بیان کرپایا۔ وہ کالم چھپ گیا تو سپریم کورٹ کی رپورٹنگ کرنے والے چند دوستوں کی بدولت خبر یہ بھی ملی کہ چودھری صاحب اس میں دی اطلاع سے مضطرب ہوئے ہیں۔ مجھے طلب کرنے کی مگر ہمت نہیں ہورہی کیونکہ میری دی خبر بہرحال مستندتھی۔ ارسلان ایف آئی اے میں بتدریج ایسے عہدوں پر فائز ہونا شروع ہوگئے جو رعب دار تصورہوتے ہیں۔ ان کے رعب داب کی تفصیلات بیان کرنے کی لیکن مجھے ہمت نہ ہوئی۔ بعدازاں وہ سرکاری نوکری سے مستعفی ہوکر کاروبار کی جانب راغب ہوگئے۔ اس ضمن میں ان کے جو ابتدائی سرپرست اور شراکت دار تھے ان میں سے دو میرے گہرے دوست تھے۔ ان کی بدولت ا رسلان صاحب کی دن دگنی اور رات چوگنی کی داستانیں سنتا رہا۔
2007کے اپریل میں لیکن افتخار چودھری صاحب خلقت معصوم کو فوجی آمر کو للکارتے نظر آئے۔ میرے محترم چودھری اعتزاز احسن "انکار" کی علامت ہوئے افتخار چودھری کے "ڈرائیور" بن گئے۔ "ملک بچانے نکلے ہیں" کے نعرے کے ساتھ عدلیہ بحالی کی تحریک شروع ہوگئی۔ ارسلان صاحب کو بھلاکر میں بھی "آئین اور جمہوریت" کی بحالی کی دعوے دار مذکورہ تحریک کا ثناخواں بن گیا۔ اس کی وجہ سے جنرل مشرف کی نومبر2007میں مسلط کردہ "ایمرجنسی پلس" کی وجہ سے بے روزگار بھی ہوگیا۔
مارشل لاء کا ایک اور ورژن متعارف کروانے کے باوجود جنرل مشرف عام انتخاب کروانے کو ڈٹے رہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کا قتل بھی انہیں روک نہ پایا۔ سیاستدانوں کی اکثریت انتخابی مہم میں مصروف ہوگئی۔ "ایمرجنسی پلس" کی وجہ سے "اوقات" میں آئے ٹی وی چینل بھی عدلیہ تحریک کو انتخابی گہماگہمی کی وجہ سے بھول گئے۔ ہمیں یاد ہی نہ رہا کہ افتخار چودھری سمیت کئی عزت مآب جج اپنے گھروں میں نظر بند ہیں۔ ان تک رسائی ممکن نہیں۔ خاردارتاروں نے ان کے گھروں تک رسائی کو تقریباََ ناممکن بنادیا ہے۔
انتخابات ہوگئے تو آصف علی زرداری نے یوسف رضا گیلانی کو وزیر اعظم کے عہدے کے لئے نامزد کردیا۔ نامزدگی کے فوری بعد گیلانی صاحب نے قومی اسمبلی میں جو خطاب فرمایا اس کے ذریعے گھروں میں نظر بند ہوئے ججوں کے گھروں کے باہر لگائی خاردار تاروں کو ہٹانے کا حکم بھی صادر کیا۔ اس حکم کی تعمیل ہوئی تو خلقت معصوم کو یاد آیا کہ "ملک بچانے کی" تحریک بھی چلی تھی۔ ہدف اس کا افتخار چودھری کی چیف جسٹس کے منصب پر واپسی ہے۔ کائیاں سیاستدان ہوتے ہوئے آصف علی زرداری جبلی طورپر محسوس کرتے تھے کہ اپنے منصب پر لوٹنے کے بعد افتخار چودھری دورِ حاضر کے عمران خان کی طرح مزید "خطرے ناک"ہوجائیں گے۔
ان کی بحالی کی مزاحمت کو ڈٹ گئے۔ نواز شریف مگر افتخار چودھری کی بحالی کے عزم کے ساتھ لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کو روانہ ہوگئے۔ وہ گوجرانوالہ پہنچے تو ان دنوں کے آرمی چیف جنرل کیانی نے اعتزاز احسن کو مطلع کیا کہ چودھری صاحب کو ان کے منصب پر بحال کیا جارہا ہے۔ جنرل کیانی کے ٹیلی فون کے چند ہی لمحوں بعد وزیر اعظم گیلانی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے افتخار چودھری کی بحالی والی "نوید" عطا کردی۔
یہ نوید سنانے کے باوجود موصوف ا فتخار چودھری کے ہاتھوں ہی وزارت عظمیٰ سے ایک چٹھی نہ لکھنے کے "جرم" میں فارغ ہوئے۔ نواز شریف یہ دریافت کرنے میں ناکام رہے کہ وزرائے اعظموں کو سپریم کورٹ کے ذریعے فارغ کرنے کی جو روایت بنی ہے ایک دن "سیلاب وبا" کی صورت ان کے روبرو بھی آجائے گی۔ 2017میں گیلانی صاحب کی طرح نہ صرف فارغ ہوئے بلکہ انتخابی عمل میں تاحیات حصہ لینے کے "نااہل" بھی ٹھہرائے گئے۔
سردار تنویر الیاس کے ساتھ جو ہوا ہے میری دانست میں ایک اور سیلاب وبا کی مانند پاکستان کے موجودہ وزیر اعظم کو بھی اپنی لپیٹ میں لے سکتا ہے۔ "توہین عدالت" ان کے خلاف بھی رعد کی صورت استعمال ہوسکتی ہے۔ یہ کالم لکھتے ہوئے اطلاع یہ بھی آئی ہے کہ عمران خان صاحب کے خلاف "عدت میں نکاح" کی تصدیق کے لئے مفتی سعید صاحب اپنا بیان ریکارڈ کروارہے ہیں۔ خیر کی امید رکھنا میرے لئے ممکن نہیں رہا۔