1985 کے آغاز میں غیر جماعتی انتخابات کی بدولت قائم ہوئی قومی اسمبلی کی کارروائی کے بارے میں رپورٹنگ کرتے ہوئے اقتدار کے کھیل سے آشنا ہونا شروع ہوا۔ عمر عزیز کی تین دہائیاں اس کی نذر ہوگئیں۔ جی اب اس کھیل سے اُکتا چکا ہے۔ کالم نگاری مگر "وہی انداز پرانے" کا تقاضہ کرتی ہے۔ گروہوں میں بٹے سیاست دانوں اور طاقت ور اشرافیہ کی چالوں کا تذکرہ۔ ان کی ذاتی زندگیوں سے جڑے سکینڈل۔ مردہ بھائی کا گوشت کھانے والی غیبت۔ تقریباََ ساری عمرگنوادینے کے بعد مگر اب سمجھ یہ آرہی ہے کہ اصل مسئلہ اس ملک کے محدود وسائل اور بے تحاشہ آبادی ہے۔ 22 کروڑ آبادی کا ملک ہے پاکستان جسے جغرافیائی اور تاریخی اعتبارسے دنیا کے نقشے میں اس مقام پر رکھ دیا گیا ہے جہاں بین الاقوامی ریشہ دوانیوں سے فرار ممکن ہی نہیں۔ مشرق میں ہمارا ازلی دشمن ہے اور مغرب میں افغانستان جہاں سے جنوبی ایشیاء کو خیر کی خبر کبھی آئی ہی نہیں۔ حملہ آوروں کے غول آتے رہے۔ ان میں سے کئی ایک کو ہم اپنا "ہیرو" شمار کرتے ہیں۔
عمر کے آخری حصے کی طرف لڑھکتے ہوئے نہایت دیانت داری اور خلوص سے کوشش ان دنوں یہ کررہاہوں کہ ریگولر اور سوشل میڈیا پر چھائے شوروغوغا کو نظرانداز کرتے ہوئے چند بنیادی سوالات اٹھالئے جائیں۔ ان سوالات کا جواب فراہم کرنا تو ممکن نہیں ہے۔ غور کا تقاضہ مگر صاحب علم حضرات کو ہماری رہ نمائی کو مائل کرسکتا ہے۔ دانستہ طورپر اپنا یا یہ رویہ مگر نام نہاد Mass Media کے لئے لکھ کر رزق کمانے والے شخص کے لئے خودکشی کے مترادف ہے۔ آ ج کا دور Click Bait صحافت کا دور ہے۔ آپ کا لکھا ہوا کالم شیئر اور ری ٹویٹ نہ ہو۔ اس پر اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم پر مبنی Comments کی بوچھاڑ نہ ہو تو آپ بتدریج صحافت کے "سٹار" تسلیم کئے جانے کے بجائے Also Ran والے "ریلوکٹے"، ہوجاتے ہیں۔ انسانی جبلت میں موجود خودپرستی کو اس سے خوف آتا ہے۔
منگل کی صبح اٹھا ہوں تو اخبارات کے پلندے کے ساتھ ایک لفافہ بھی تھا۔ اسے "نوائے وقت" کے اسلام آباد دفتر "انکل نصرت جاوید"کے نام بھیجا گیا تھا۔ خط درگئی کے ایک مقام سے آیا تھا۔ مردان سے سوات جاتے ہوئے درگئی سے گزرنا ہوتا ہے۔ وہاں کی"گڑھی عمرخیل" سے لکھا ہوا خط تھا۔ اسے لکھنے والی بچی نے تحریر کے ساتھ اپنی پاسپورٹ سائز تصویر بھی لگارکھی تھی۔ اس نے یہ لکھ کر میرا دل دہلا دیا کہ مجھے بھیجے "خط کے لفافے کے لئے " اس نے "میٹرک کی کاپیاں فروخت کرکے لفافہ خریدا"۔ بقول اس کے پہلے ایسا خط لکھنے کے لئے 8روپے خرچ کرنا ہوتے تھے۔ اسے اب 20 روپے خرچ کرنا پڑے۔
اس بچی نے لکھا کہ "آپ کالم نگار حضرات کسی گریڈ 22 کے افسر سے کم نہیں ہو"۔ سیاسی لیڈرو ں کے "کچن، باتھ روم۔ یہاں تک کہ ان کے جوتوں کے بارے میں بھی لکھتے ہو لیکن جو غریب عوام دربدر ٹھوکریں کھارہے ہیں وہ کہاں جائیں "۔
"سیاسی لوگ" اس بچی کی سوچ کے مطابق "جب (اسمبلیوں کے) ایوان میں بیٹھے ہوں تو ان کو نہ شوگر، نہ بلڈپریشراور نہ کوئی اور بیماری ہوتی ہے۔ لیکن جب کرپشن یا کسی دوسرے الزام میں گرفتار ہوں جائیں تو ان کو دل کی بیماری وغیرہ وغیرہ."
بہرحال یہ سب لکھنے کے بعد بچی نے بتایا کہ اس کا بھائی چھ ماہ سے بیمار ہے۔ علاج کی خاطر رقم نہیں ہے۔ لوگوں سے مدد کی درخواست کرو تو وہ بیت المال سے رجوع کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔ "صحت انصاف کارڈ" کی جانب توجہ دلاتے ہیں۔ "صحت انصاف کارڈ" مگر اس کے بھائی کے علاج کے لئے کام نہیں کررہا۔ مشورہ دیا جارہا ہے کہ لاہور کے "اتفاق ٹرسٹ ہسپتال" سے رابطہ کیا جائے اور مذکورہ ہسپتال کو کوئی نیک دل شخص علاج کے لئے مطلوبہ رقم فراہم کردے جو ساڑھے سات لاکھ روپے کے قریب بتائی گئی۔ رابطہ کے لئے بچی نے اپنے والد کا نام لکھا۔ نواب خان۔ اس نے "عارضی طور" پراپنے لئے 0305-1060605 نمبر حاصل کررکھا ہے۔
کالم نگاری کے ابتدائی ایام میں مجھے روزانہ کی بنیاد پر ایسے خط آیا کرتے تھے۔ ہمارے ملک میں بدقسمتی سے دونمبری اتنی ہے کہ ایسے خطوط کو نظر انداز کرتا رہا۔ کسی فرد کی مشکل میں ذاتی خرچے سے مدد کرنا ممکن ہو تو خاموشی سے اپنا حصہ ڈال دیا۔ فلاحی تنظیموں کے ذکر سے بھی گریز کرتا ہوں۔ ان میں سے کئی ایک کے شاندار کام کا ذاتی تجربات کے حوالے سے کافی علم ہے۔ ان کی پروموشن سے مگر خوف آتا ہے۔ اعتبار کھودینے کا خدشہ۔
اس بچی کے خط نے مگر یہ سوچنے کو ضرور مجبور کیا کہ خیبرپختونخواہ میں تو 2013 سے صحت کا شاندارنظام تحریک انصاف کے دعوئوں کے مطابق قائم ہوچکا ہے۔ شاید اس وجہ سے 2018 میں عمران خان صاحب کی جماعت کو بالآخر وفاق اور پنجاب میں بھی حکومتیں بنانے میں آسانی ہوئی۔ سوال اٹھتاہے کہ عام آدمی کو اس صوبے میں صحت کے حوالے سے تمامترسہولتیں فراہم کردی گئی ہیں تو وہاں کی ایک بچی کو بقول اس کے اپنی میٹرک کی کاپیاں بیچ کر ایک لفافہ خرید کر اسلام آباد میں مقیم ایک کالم نگار کو اپنے بھائی کے علاج کے لئے مدد فراہم کرنے کی درخواست کیوں بھیجنا پڑی۔ اس بچی کو بتایا یہ بھی گیا ہے کہ علاج اس کے بھائی کا لاہور کے "اتفاق ٹرسٹ ہسپتال" ہی میں ممکن ہے۔ عجب اتفاق ہے کہ یہ ہسپتال لاہور کا شریف خاندان چلاتا ہے۔ نواز شریف صاحب کا تعلق اس خاندان سے ہے اور سابق وزیر اعظم کو پیر کی رات ہنگامی بنیادوں پر نیب کی حراست سے لاہور کے سروسز ہسپتال میں لایا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر نواز شریف سے اندھی نفرت میں مبتلا افراد کا ہجوم ان کی بیماری کا تذکرہ سفاکی کے اسی انداز کے ساتھ کررہا ہے جو ان کی مرحومہ کی اہلیہ بیماری کی بابت اپنایا گیا تھا۔ چند روز قبل میں نے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں تعینات افسروں کی پریشانی کا ذکر بھی اس کالم میں کیا تھا۔ انتہائی باوثوق ذرائع سے جن کا کسی سیاسی جماعت سے کوئی لینا دینا نہیں مجھے یہ خبر آئی تھی کہ چند روز قبل اس جیل میں مقید آصف علی زرداری کی شوگر خطرناک حد تک کم ہوگئی تھی۔ جیل حکام کے ہاتھ پائوں پھول گئے۔ ان کی خواہش ہے کہ آصف صاحب کسی نہ کسی طرح ہسپتال منتقل ہوجائیں۔
میرے ساتھی رئوف کلاسرا نے بھی اتفاق سے چند روز قبل اپنے ذرائع کی بدولت ایسی ہی کہانی اپنے Vlog میں بتائی تھی۔ زاہد گشکوری ایک جواں سال رپورٹر ہے۔ اپنے اخبار میں کئی مہینوں سے فیک اکائونٹس والی داستان کی تفصیلات بیان کررہا ہے۔ موصوف نے بھی چند روز قبل Alert کے عنوان کے تحت ایک ٹویٹ لکھا جو آصف علی زرداری کی مخدوش صحت کے بارے میں تھا۔ پیر کی رات نواز شریف صاحب کے حوالے سے ہنگامی صورت حال پیدا ہوگئی۔
صحافی ان دوسیاستدانوں کی صحت کا تذکرہ کریں تو "لفافہ" کے طعنے ملتے ہیں۔ "قانون سب کے لئے برابر" کی دہائی مچائی جاتی ہے۔ عام قیدیوں کے ساتھ جیل میں جو برتائو ہوتا ہے اس کے بارے میں ہم کالم نگاروں کی بے اعتنائی کی مذمت ہوتی ہے۔ مجھے خط لکھنے والی بچی نے بھی ایسا ہی رویہ اپنایا۔ "قانون سب کے لئے برابر"کا ذکر کرتے ہوئے کالم نگاروں اور "لفافہ صحافیوں " کی مذمت کرنے والے افراد کو کئی ٹھوس مثالوں کے ذریعے اگرچہ یاد دلاسکتا ہوں کہ وطنِ عزیز میں "قانون" سب کے لئے ہرگز برابر نہیں ہے۔ کرپشن کے خلاف "جہاد" برپا کرتے ہوئے میرے ہی کئی جید، معتبراور ٹی وی پروگرام کے ذریعے Ratings کے شیر گردانے ساتھیوں نے لیکن ایسا ماحول بنادیا ہے جہاں فقط سیاست دان ہی بدی کی علامت بنادئیے گئے ہیں۔ انہیں جیل جانے کے بعد ان سہولتوں سے بھی محروم کرنے کی فضا بنادی گئی ہے جو جنیوا کنونشن کے تحت جنگوں کے دوران گرفتار ہوئے دشمن کے قیدیوں کا بھی حق تصور ہوتی ہیں۔ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوکر ہم اجتماعی طورپر انتہائی بے حس اور سفاک ہوچکے ہیں۔ انتقام کو "انصاف" بنادیا گیا ہے۔ ایسے ماحول میں معقولیت کی گنجائش ہی نہیں۔ سیاسی دشمنوں کے درمیان صف آرائی ہے۔ بطور صحافی آپ کو اس میں سے کسی ایک صف میں کھڑے ہوکر اپنا دھندا چلانا ہے۔ Big Picture دیکھنے کی فرصت کسی کے پاس نہیں۔ نفرت وہیجان کے اس ماحول میں خاموش رہنے ہی میں عافیت محسوس ہوتی ہے۔