جنوبی ایشیاء کا ایک ملک سری لنکا بھی ہے۔ کسی زمانے میں سیلون کہلاتا تھا۔ اپنے بچپن میں لیکن میری عمر کے لوگ اس ملک کو "ریڈیوسیلون" کے ایک پروگرام کی وجہ سے جانتے تھے۔ ذرائع ابلاغ کے تناظر میں بات کریں تو اس پروگرام نے ہمارے خطے میں پہلا RJ متعارف کروایا تھا۔ اس کی خوب صورت آواز جو مجھے بھاری بھر کم اور اندازِبیان کی وجہ سے "تھیڑانہ" سنائی دیتی۔ مذکورہ RJ نام جس کا امین سے شروع ہوتا تھا۔ مگر بہت مقبول تھا۔ اس کی مرتب کردہ ایک Hit Parade ہوتی جو یہ طے کرتی کہ مقبولیت کے اعتبار سے گزرے ہفتے کونسا فلمی گیت سرفہرست رہا۔
کالج پہنچنے کے بعد ناول وغیرہ پڑھنا شروع کئے تو لاہور کی نسبت روڈ پر مزدور رہ نما بشیر بختیار کے لیبرہال کے سامنے "دیال سنگھ" کے نام سے منسوب ہوئی لائبریری میری پناہ گاہ ہوئی۔ اس کے وسیع تر ہال میں اِکادُکا افراد ہی کتابیں پڑھنے آتے۔ شدید گرمی کے دنوں میں بھی طاقت ور ایئرکنڈیشنر کی وجہ سے لیکن وہاں کچھ دیر بیٹھنے کے بعد مجھ پر سردیوں والی کپکپی طاری ہوجاتی۔ بسااوقات میز پر سررکھ کر دوپہر کی نیند بھی ہوجاتی۔ اس شفیق لائبریری میں قرۃ العین حیدر کو "دریافت" کیا تھا۔ ان کے "سیتاہرن"کی بدولت یہ علم بھی ہوا کہ سری لنکا میں سنہالی اور تامل قوموں کے درمیان تنائو ہے۔ سنہالی بدھ مت کے ماننے والے ہیں اور تامل ہندو۔
صحافتی سفر کا آغاز ہونے کے کئی برس بعد جب خارجہ امور جیسے بارُعب موضوعات پررپورٹنگ کے قابل ٹھہرایا گیا تو 1990 کی دہائی میں کئی بار اس ملک جانے کے مواقع بھی نصیب ہوگئے۔ بین الاقوامی ادارے سربیا میں ہوئی خونریزی کے بعد ہم جیسے بے ہنروں کو Conflict Reporting کے "اصول" سمجھانا شروع ہوگئے۔ اس ضمن میں کئی ورکشاپس سری لنکا میں منعقد ہوئیں۔ سنہالی/تامل خانہ جنگی کی وجہ سے یہ ملک جنوبی ایشیاء میں نسلی تعصبات پر مبنی خلفشار کاماڈل شمار ہوتا تھا۔ مجھ جیسے بے ہنر رپورٹروں کو لہذا وہاں بٹھاکر Conflict Reporting کے اسرارورموز برسرِ زمین سکھائے جاتے۔
صحافت کو بہتر بنانے کے نام پر رچائی ورکشاپوں میں سکھائے "اصول" مگر اس وقت کسی کام نہیں آئے جب اس صدی کا آغاز ہوتے ہی سری لنکا میں سنہالی انتہا پسندوں نے بے پناہ سیاسی قوت حاصل کرنا شروع کردی۔ بالآخر ریاستی قوت کے وحشیانہ استعمال کے ذریعے تامل علیحدگی پسندوں کا قلع قمع کردیا گیا۔ ریاستی جبر سے تاملوں کو "فتح" کرنے والے صدرکی بالآخر ہمارے یار چین سے بھی گہری دوستی ہوگئی۔ بھارت اس دوستی سے بہت پریشان ہوا۔ امریکہ بھی دہائی مچانا شروع ہوگیا کہ سری لنکا کو اپنا "معاشی غلام" بنانے کے لئے چین اس ملک میں ایسے "میگاپراجیکٹس"پر سرمایہ کاری کررہا ہے جن کی وہاں کے غریب لوگوں کو ضرورت نہیں۔ بھاری بھر کم سرمایہ کاری سے وہاں ایک نئی "بندرگاہ بھی تعمیر ہوئی۔ اس کے گرد کرکٹ کا اتنا بڑا اسٹیڈیم بنایا گیا جہاں اتنی تعداد میں تماشائی بیٹھ سکتے تھے جو اس بندرگاہ والے شہر کی مجموعی آبادی سے دوگنی شمار ہوئی۔ چین کی سرمایہ کاری یا قرضوں کی مدد سے جوبندرگاہ تعمیر ہوئی سری لنکا اس کے لئے لگائے قرض کی قسطیں بروقت ادا نہیں کرپایا۔ بالآخر اسے چین کی ملکیت میں دینے کا اعلان کردیا۔ امریکہ کو ایک "ٹھوس مثال" مل گئی جس کے ذریعے پاکستان جیسے ممالک کو یہ سمجھایا جانے لگا کہ چین کی معاونت سے لگائے Mega Projects دور حاضر کے Debt Traps ہیں۔ ان کو دور سے سلام کی پالیسی اپنانا ہوگی۔
دو یا تین برس قبل سری لنکا میں تازہ انتخابات ہوئے تو چین کی مدد سے بندرگاہ تعمیر کرنے والی جماعت ہار گئی۔ اس کی جگہ جو صدر منتخب ہوا وہ "بھارت نواز" تصور ہوتا تھا۔ وہ مگر حکومت چلانہیں پایا۔ قبل از وقت ا نتخابات کروانے کو مجبور ہوا اور اس ماہ کے شروع ہوتے ہی سری لنکا میں اس صدر کا بھائی ایوان صدر واپس پہنچ گیا ہے جس نے تامل علیحدگی پسندوں کو وحشیانہ قوت سے کچلنے کے بعد چین کی مدد سے میگاپراجیکٹس بنانے شروع کئے تھے۔
گزشتہ جمعرات کے دن امریکی وزارتِ خارجہ کی ایک اہم ترین افسر ایلس ویلز نے پاکستان میں چین کی معاونت سے چلائے منصوبوں کے خلاف ایک تندوتیز تقریر فرمائی ہے۔ اس نے دعویٰ کیا کہ یہ منصوبے عمران حکومت کے "اصلاحاتی ایجنڈے"کو کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ پاکستان چین سے ملا "قرض" بالآخر ادا کرنے کے قابل ہی نہیں رہے گا۔ اس کا گویا "معاشی غلام" بن جائے گا۔
"حساس" ریاستی معاملات تک مجھ دو ٹکے کے رپورٹر کو رسائی میسر نہیں۔ اپنے گھر تک محدود ہوا ماضی کے تجربات اور Digital ذرائع سے میسر معلومات کو ذہن میں رکھتے ہوئے "تجزیاتی جگاڑ" لگانے کی کوشش کرتا ہوں۔ مجھے شبہ ہے کہ ایلس ویلز گزشتہ جمعرات کے روز ایک تندوتیز بیان دینے کو اس لئے مجبور ہوئی کیونکہ امریکی حکومت اب یہ محسوس کرنا شرو ع ہوگئی ہے کہ پاکستان تھوڑے تعطل کے بعد CPEC کو ایک بار پھر "گیم چینجر" کی صورت دیکھنا شروع ہوگیا ہے۔ اسی باعث عمران خان صاحب نے اپنے پرانے وفادار اسد عمر کو وزارتِ منصوبہ بندی سونپی ہے۔ حال ہی میں ریٹائر ہوئے جنرل عاصم باجوہ صاحب کو سی پیک منصوبوں کو تیزی سے مکمل کرنے والی اتھارٹی کا سربراہ لگانے کی خبر بھی آئی ہے۔ ایلس ویلز لہذا "ہوشیار باش" کی دہائی مچانے کو مجبور ہوئی۔
ایلس ویلز کی مچائی دہائی نے پنجابی محاورے والا جو "نیا کٹا" کھولا ہے اسے ذہن میں رکھتے ہوئے خیال آیا کہ سری لنکا میں حال ہی میں جو سیاسی تبدیلیاں رونماہوئی ہیں انہیں بھی امریکہ-چین تجارتی جنگ کے تناظر میں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ یہ اندازہ لگانے کی کاوش کہ کہیں ہمارے ہاں بھی اس "جنگ" ہی کی وجہ سے حکومتی ڈھانچے میں تبدیلیاں ہونا تو نہیں شروع ہوگئیں۔
سری لنکا کے بارے میں حال ہی میں چھپے چند مضامین ڈھونڈ کر انہیں غور سے پڑھتے ہوئے چند نوٹس لئے۔ وہ نوٹس لینے کے بعد یہ سوچ کر مطمئن ہوگیا کہ پیر کی صبح اُٹھ کر ان سے رجوع کیاجائے گا۔ یہ کالم لکھنے سے قبل۔ اتوار کے دن ذہنی اعتبار سے پیر کی صبح چھپا کالم لکھ کر خود کو "فارغ" تصور کرتا رہا۔ شام ڈھلی تو منٹو کے "گنجے فرشتے" جس کے کئی فقرے مجھے برسوں سے حفظ ہوچکے ہیں پڑھنا شروع کردی۔ مولانا چراغ حسن حسرت جیسی دبنگ شخصیت پر منٹو کا لکھا خاکہ پڑھتے ہوئے اپنی بے ہنری کے علاوہ بزدلی کابھی شدت سے احساس ہوناشروع ہوگیا۔ کئی چہرے ذہن میں گھومنا شروع ہوگئے جن کی "اصلیت" کو برسوں کے ذاتی تجربات کی بدولت دیکھا اور چند صورتوں میں بھگتا بھی ہے۔ ٹھوس حقائق جو میرے علم میں ہیں لکھ ڈالنے کا حوصلہ مگر مجھ میں نہیں ہے۔ لکھ ڈالوں تو مجھے سو فی صد یقین ہے کہ "نوائے وقت" کو بھی بھیجنے کا حوصلہ نہیں ہوگا۔ میرا "سچ" پورے ادارے کو مصیبت میں کیوں ڈالے والے سوال کو ذہن میں رکھتے ہوئے۔
اپنی بے بسی کو شدت سے محسوس کرنے کی وجہ سے نازل ہوئی خفت کو مٹانے کے لئے سوشل میڈیا سے رجوع کرنے کو مجبور ہوا۔ وہاں ابھی تک یہ طے نہیں ہوا تھا کہ نواز شریف صاحب مبینہ طورپر "شدید بیماری کا ڈرامہ رچاتے ہوئے" عمران خان صاحب کے دل میں "رحم" کے جذبات جگانے میں کیسے کامیاب ہوئے۔ اس موضوع پر کم از کم دو کالموں میں لیکن "دانشوری" بگھارچکا ہوں۔ نئے موضوع کی تلاش تھی۔ سوشل میڈیا پر مقبول موضوعات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اگرچہ یہ سمجھ آگئی کہ امریکہ اور چین کے مابین جاری "تجارتی جنگ" کے تناظر میں پاکستان اور سری لنکا کے سیاسی منظر نامے میں مماثلت ڈھونڈتا کالم قارئین کو کافی "بورنگ" محسوس ہوگا۔ فیس بک اور ٹویٹر پر اسے Likes نصیب نہیں ہوں گے۔ اسے Share کرنے کا بھی تردد نہیں ہوگا۔
پیرکی صبح اُٹھ کر لکھوں تو کیا لکھوں والے سوال کے ساتھ سوشل میڈیا پر دوبارہ غور کیا تو ایک تصویر پر نگاہ پڑی۔ دائروں کی مدد سے یہ تصویر ہمیں قائل کرنے کی کوشش کرتی نظر آئی کہ میرے ایک مقبول ترین اور بلندبانگ ساتھی جناب ارشاد بھٹی صاحب کو وزیر اعظم صاحب نے حالیہ ملاقات کے دوران چائے کی پیالی بھی پیش نہیں کی۔ اگرچہ خان صاحب کے سامنے ایک پیالی بسکٹوں سمیت موجود تھی۔ اس تصویر کی وجہ سے چھڑی بحث بہت جاندار تھی۔ کاش میں اس کے بارے میں کالم لکھنے کے قابل ہوتا۔