خدا کرے کہ میں غلط ثابت ہوں۔ اس ہفتے کا آخری کالم لکھتے ہوئے لیکن مجھے خدشہ لاحق ہے کہ حکومت شاید 14 اپریل گزرجانے کے بعد بھی ہمارے شہروں میں کرونا کے خوف کی وجہ سے لاگو کئے لاک ڈائون کو مکمل طورپر ختم کرنے کو تیار نہیں ہوگی۔ بدھ کی شام اپنے مشیروں سمیت ایک ٹیلی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم صاحب نے اس ماہ کے آخر میں اس مرض کی زد میں آئے افراد کی تعداد میں اضافے کے خدشے کا اظہار کیا۔ ساتھ ہی یہ حقیقت بھی تسلیم کی کہ ہمارے ہسپتالوں میں ایک خاص حد سے زائد مریضوں کو ہنگامی بنیادوں پر طبی سہولیات پہنچانے کی گنجائش موجود نہیں۔ ان کی گفتگو سے تاثر مجھے یہ ملا کہ وفاقی حکومت لاک ڈائون کو فوراََ ختم کرنے کو آمادہ نہیں ہوگی۔ اسے کسی نہ کسی صورت جاری رکھا جائے گا۔
پاکستان کی طرح بھارت کے تمام بڑے شہر بھی ان دنوں کامل لاک ڈائون کی زد میں ہیں۔ وہاں بھی آبادی کے تناسب کے تناظر میں مریضوں کی وہ تعداد دیکھنے کو نہیں ملی جس نے اٹلی اور امریکہ کے کئی شہروں میں تباہی مچادی۔ مودی سرکار نے 21 دن تک لاک ڈائون کا اعلان کیا تھا۔ اطلاعات وہاں سے بھی یہ مل رہی ہیں کہ لاک ڈائون برقراررکھنے کو ترجیح دی جائے گی۔ کرونا وباء کے پھیلائو کے ابتدائی ایام میں اس کالم کے ذریعے میں نے خوش گوار حیرت کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میں اس مرض کی وہ شدت دیکھنے کو نہیں مل رہی جو یورپ اور امریکہ کا مقدر ہوئی۔ اس سے قبل وبائی امراض کے ایک بین الاقوامی سطح پر مستند تصور ہوئے ماہر سے گفتگو کے بعد میں نے اپنے لوگوں کی "ڈھیٹ ہڈی" کا ذکر بھی کیا تھا۔ ذات کا محض رپورٹر ہوتے ہوئے اطمینان محسوس کررہا ہوں کہ وبائی امراض کے کئی عالمی ماہرین اب جنوبی ایشیاء میں کرونا وائرس کے تقریباََ "غیر مؤثر" ہونے کی تصدیق کررہے ہیں۔ یہ فرض کیا جارہا کہ شاید اس خطے میں ملیریا کے خلاف مسلسل اٹھائے اقدام کرونا وائرس کو بھی کمزور بنارہے ہیں۔ ملیریا کے علاج کے لئے تیار ہوئی کونین کی گولیاں بھی کئی ڈاکٹروں کو اس مرض سے شفا دیتی نظر آئیں۔ ان گولیوں کے اثر کا ادراک کرتے ہوئے امریکی صدر نے بھارتی وزیر اعظم کو فون کیا۔ اس سے درخواست کی کہ امریکہ کو کونین والی گولیوں کی ایک بڑی کھیپ فی الفور مہیا کی جائے۔
برازیل کے صدر نے بھی بھارت سے ایسی ہی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ ملیریا کے سدباب کے لئے ہوئے اقدامات کے علاوہ اس امکان پر بھی سنجیدگی سے غور کیا جارہا ہے کہ جنوبی ایشیاء کے ممالک میں بچوں کو پیدائش کے بعد وبائی امراض سے محفوظ رکھنے کے لئے جو ٹیکے لگائے جاتے ہیں وہ کرونا کی مدافعت میں بھی مددگارثابت ہورہے ہیں۔ حتمی رائے اس ضمن میں لیکن میسر نہیں۔ فقط "ممکن" کا ذکر ہورہا ہے۔ فی الوقت عالمی طبی ماہرین کی اکثریت اصرار کئے چلے جارہی ہے کہ کرونا کا قطعی علاج موجود نہیں۔ اس کے وسیع پیمانے پر پھیلائو کو روکنے کے لئے ضروری ہے کہ شہروں کو لاک ڈائون کردیا جائے۔ لوگوں کو سماجی دوری اختیار کرنے کی ترغیب دی جائے۔ لاک ڈائون مگر پاکستان جیسے ممالک میں معیشت کے لئے تباہ کن اثرات پیدا کررہے ہیں۔ پاکستان کے مقابلے میں برطانیہ آبادی کے اعتبار سے نسبتاََ چھوٹا مگر معاشی اعتبار سے بہت خوش حال ملک ہے۔ وہاں کا وزیر اعظم بورس جانسن اس وباء کی وجہ سے پھیلے خوف کا تمسخر اُڑاتا رہا۔ اس کے حامیوں کی کثیر تعداد نے Herd Immunity کا ذکر شروع کردیا۔ یہ اصطلاح کئی حوالوں سے کافی سفاکانہ ہے۔ سادہ الفاظ میں اس کا مطلب یہ ہے کہ زندگی کو رواں رکھا جائے۔ کرونا کا مرض بنیادی طورپر"نزلہ زکام" جیسا ہے۔ یہ بات درست کہ یہ شدت اختیار کرجائے تو جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ اس کے خوف سے مگر روزمرہّ زندگی کو محدود تر کرنے کی ضرورت نہیں۔ جن بدنصیبوں میں فطری طورپر موجود مدافعت ختم ہوجاتی ہے وہ اس کی زد میں آکر اگر ہلاک ہوجائیں تو اسے وباء کا "قدرتی نتیجہ" سمجھا جائے۔ زیادہ توجہ اس حقیقت پر دی جائے کہ کرونا کی زد میں آئے لوگوں کی کثیر تعداد بالآخر شفایاب ہوجاتی ہے۔ برطانیہ میں لیکن Herd Immunity کام نہیں آئی۔ بورس جانسن کو بلکہ کرونا کی وجہ سے ICU میں جانا پڑا۔ گھبراہٹ میں پورا برطانیہ اب کرفیو نما لاک ڈائون کی جکڑ میں آچکا ہے۔
برازیل کے صدر کا رویہ بھی بورس جانسن جیسا تھا۔ وہ بھی وباء کے موسم میں زندگی کو رواں رکھنے پر اصرار کرتا رہا۔ ٹی وی پر رعونت سے دعویٰ کرتا رہا کہ برازیل کے لوگ بہت ڈھیٹ ہیں۔ وہ کسی گٹر میں بھی چھلانگ لگادیں تو وبائی امراض پھیلاتے جراثیم سے عموماََ محفوظ رہتے ہیں۔ اسے بھی لیکن اب بھارتی حکومت سے کونین کی گولیاں طلب کرنا پڑی ہیں۔ اپنے ملک کے بڑے شہروں میں لاک ڈائون کے فیصلے کو تسلیم کرنا پڑا۔ کرونا وائرس کے ابتدائی ایام میں عمران خان صاحب بھی اپنے انداز میں Herd Immunity والے تصور پر عمل پیرا نظر آئے۔ لاک ڈائون کے فیصلے کو انہوں نے یقینا بددلی سے قبول کیا ہے۔ لاک ڈائون کے ہماری معیشت پر ہولناک اثرات کاادراک کرتے ہوئے وہ مگر بتدریج اس میں نرمی لانا چاہ رہے ہیں۔ ان کے لئے مگر یہ ممکن نہیں کہ لاک ڈائون کو مکمل طورپر ختم کرنے کو ڈٹ جائیں۔ وہ اس فیصلے پر ڈٹ جائیں اور خدانخواستہ ہمارے ہاں اٹلی کے کئی شہروں جیسی صورت حال پیدا ہوگئی تو اس کا حتمی ذمہ دار عمران خان صاحب کو ٹھہرایا جائے گا۔ لاک ڈائون کولہذا کسی نہ کسی طرح اپریل کے آخر تک جاری رکھنا لازمی نظر آنا شروع ہوگیا ہے۔ لاک ڈائون کو جاری رکھنا ہے تو غریب دیہاڑی داروں کی داد رسی لازمی ہے۔ ہمارے ساڑھے تین کروڑ افراد نے حکومت سے امدادی رقوم طلب کی ہیں۔ یہ ساڑھے تین کروڑ محض افراد نہیں گھرانے ہیں۔ ان کی توقعات پوری نہ ہوئیں تو لاک ڈائون کی جارحانہ خلاف ورزی شروع ہوجائے گی۔
ہمارے کئی شہروں میں قانون نافذ کرنے والے ادارے ریاستی قوت کو ہجوم کے خلاف بروئے کار لانے کو مجبور ہوجائیں گے۔ عمران حکومت کے لئے لہذا لازمی ہے کہ وہ امدادی رقوم طلب کرنے والوں تک جلد از جلد پہنچے۔ اپنی تمام تر توجہ انہیں Cash Deliver کرنے تک مرکوز کردے۔ امدادی رقوم کے علاوہ راشن کی رسد اور فراہمی بھی اہم ترین مسئلہ ہے۔ ان سب اہداف کا حصول ایک گنجلک اور جاں گسل Process کا متقاضی ہے۔ سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہمیں اس عمل کی مؤثر تکمیل کی راہیں دریافت کرنا ہوں گی۔ ربّ کریم سے فریاد کرنا ہوگی کہ وہ اس ضمن میں حکومت کو درپیش مسائل سے نبردآزما ہونے میں آسانیاں پیدا کرے۔ وزیر اعظم صاحب کے چند مصاحبین مگر اس خواہش میں مبتلا ہوچکے ہیں کہ کرونا کی وجہ سے معاشی مشکلات کا شکار ہوئی خلقِ خدا کو ٹھوس اعداد وشمار کی بدولت قطعی طورپر سمجھادیا جائے کہ وطنِ عزیز میں کرونا کی وجہ سے جو معاشی عذاب نازل ہوا ہے اسے سنگین تر بنانے میں گزشتہ دس برس کی حکومتوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ آٹے اور چینی کے بحران کے ذمہ دار مافیا کی نشاندہی کے بعد اب اس رپورٹ کو منظرعام پر لانے کی تیاری ہورہی ہے جو گزشتہ دس برسوں میں بیرونی ممالک سے لئے قرضوں کی بابت تیار ہوئی ہے۔
متوقع رپورٹ کے ذریعے ہمیں یہ بتایا جائے گا کہ "چوروں اور لٹیروں" کی حکومتوں نے صحت عامہ جیسے مسائل پر توجہ دینے کے بجائے ایسے "میگا پراجیکٹ" بنائے جن کی عوام کی اکثریت کو ضرورت ہی نہیں تھی۔ اس منصوبوں کی تکمیل کے لئے بیرون ممالک سے بھاری بھر کم قرضے لئے گئے۔ بسااوقات یہ قرضے مجوزہ منصوبوں کی تکمیل پر خرچ ہی نہیں ہوئے۔"چوروں اور لٹیروں" نے قرضوں کی مد میں آئی رقوم میں سے بھاری بھر کم Cut لئے۔ انہیں منی لانڈرنگ کے ذریعے ملک سے باہر بھجوایا اور لندن جیسے شہروں میں قیمتی جائیدادیں خریدیں۔ بیرون ملک بھیجی رقوم کو TTsکے ذریعے پاکستان منگوا کر یہاں موجود ذاتی کاروبار کو فروغ دینے کے لئے استعمال کیا۔ میڈیا کو اس رپورٹ کی بدولت یقینا بے تحاشہ چسکے دار کہانیاں مہیا ہوجائیں گی۔ ٹی وی سکرینوں پر رونق لگ جائے گی اور ہم لاک ڈائون کی وجہ سے مسلط ہوئی اداسی بھول جائیں گے۔