اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں وزیر اعظم پاکستان کا خطاب ہوچکا۔ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے معاشرے میں ان کی تقریر کا غیر جانب دارانہ تجزیہ کرنے کو بہت ہمت درکار ہے۔ میں اس سے قطعاََ محروم ہوں۔ یہ بات مگر کھلے دل سے تسلیم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ پاکستانیوں کی بے پناہ اکثریت نے ان کے خطاب کو جذباتی انداز میں سراہا ہے۔ حتیٰ کہ ان کے ناقدین کی مؤثر تعداد بھی اس خطاب کے دوران دادوتحسین بھرے ٹویٹ لکھتی رہی۔ یہ الگ بات ہے کہ داد کا اصل موضوع ان کی جانب سے یورپ اور امریکہ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف موجود اور تیزی سے پھیلتے تعصبات کا ذکر رہا۔ "اصل اسلام" کے ذکر اور حجاب کے دفاع نے پاکستانیوں ہی نہیں دُنیا بھر میں پھیلے مسلمانوں کے حقیقی جذبات کا ایک عالمی فورم میں بھرپور اظہار کردیا۔
عالمی امور کی پیچیدگیوں کو سمجھنے کے لئے ان دنوں میں جان اچکزئی صاحب کے لکھے انگریزی مضامین بہت غور سے پڑھتا ہوں۔ وہ آسان زبان میں دقیق معاملات سے نبردآزما ہونے کے لئے اپنائی ریاستی حکمت عملی کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجھے اور آپ کو ان کی رائے سے اختلاف کا پورا حق ہے۔ انہوں نے عمران خان صاحب کے خطاب کو "Speech of the Century" کہا ہے۔ گویا اس صدی کی سب سے اہم تقریر۔ اس رائے سے اتفاق کرتے ہوے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگرچہ یہ بات ذہن میں رکھنا بھی ضروری ہے کہ سوشل میڈیا پر ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف کے پرستاروں نے مختلف وڈیوز کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش بھی کی ہے کہ پاکستان اور مسلمانوں کا مؤقف "تاریخ میں پہلی بار" فقط عمران صاحب کی توسط ہی سے دُنیا کے سامنے پیش نہیں ہوا۔ ان دوحضرات نے بھی "تاریخ" بنانے کی کوشش کی تھی۔ ان کی "تاریخی" تقاریر کا نتیجہ کیا برآمد ہوا؟ اس کے بارے میں سنجیدہ بحث اگرچہ ہو نہیں پائی۔
تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ عمران خان صاحب کے تاریخی اور شاندار خطاب کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں کمیونی کیشن لاک ڈائون پوری وحشت سے اپنی جگہ برقرار ہے۔ مودی سرکار اس میں نرمی لانے کو آمادہ نظر نہیں آرہی۔ نظربظاہر یہ طے کرلیا گیا ہے کہ کرفیو اور موبائل فونز کی بندش کو برف باری کے آغاز تک برقرار کھا جائے گا۔ اگلے برس موسم بہار کی آمد کا انتظار ہوگا۔
اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی سے عمران خان کے خطاب سے بہت دن قبل اس کالم میں عاجزانہ رائے کا اظہار کیا تھا کہ مذکورہ خطاب کے بجائے دیکھنا یہ ہوگا کہ امریکی صدر سے ملاقات کی بدولت پاکستان کشمیریوں کی اذیت کے ازالے کے لئے ٹھوس اعتبار سے کیا حاصل کرے گا۔ اس تناظر میں فی الوقت کوئی قابل ذکر پیشرفت نہیں ہوئی۔ طویل المدتی تناظر میں اگرچہ یہ حقیقت خوش آئند ہے کہ مودی اور عمران خان صاحب سے اپنی ملاقاتوں کے دوران ڈونلڈٹرمپ کسی نہ کسی صورت ثالثی کا کردار ادا کرتا نظر آیا۔ اسے مگر ڈیموکریٹ پارٹی نے اب یوکرین کے صدر کے ساتھ ہوئی گفتگو کے سکینڈل میں الجھادیا ہے۔ وہ اس کی وجہ سے جنوبی ایشیاء کے معاملات پر کماحقہ توجہ نہیں دے پائے گا۔
امریکہ کے دائمی اداروں نے جنوبی ایشیاء کے حوالے سے البتہ اپنی ترجیحات بیان کردی ہیں۔ ان ترجیحات کو سمجھنا ہوتو امریکی وزارتِ خارجہ کی ایک اعلیٰ سطحی افسر-ایلس ویلز-کی صحافیوں سے گزشتہ ہفتے ہوئی گفتگو کے ٹرانسکرپٹ کو بغور پڑھاجائے۔ اس کے ذریعے ایلس ویلز نے واضح الفاظ میں بھارت کو بتادیا ہے کہ امریکہ مقبوضہ کشمیر میں کمیونی کیشن لاک ڈائون برقرار رکھنے کا حامی نہیں۔ اس کا خیال ہے کہ 5 اگست 2019 کے بعد امن وامان برقرار رکھنے کے بہانے جو اقدامات لئے گئے وہ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ بہتر یہی ہے کہ "جلد ازجلد" کمیونی کیشن لاک ڈائون ختم کرنے کے بعد گھروں میں نظر بند کئے اور جیلوں میں بھیجے سیاسی رہ نمائوں اور سول سوسائٹی کے سرکردہ رہ نمائوں کو رہا کرنے کے بعد ان سے مذاکرات کا آغاز ہو۔
ایلس ویلز کی وساطت سے بیان ہوا یہ مطالبہ ہمارے لئے باعثِ اطمینان ہونا چاہیے۔ ساقی مگر شراب میں ہمارے شاعروں کے مطابق "کچھ" ملا بھی دیا کرتا ہے۔ ایلس ویلز نے لاک ڈائون کے خاتمے اور سیاسی رہ نمائوں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کی رہائی کا ذکر کرتے ہوئے یہ مطالبہ بھی کیا کہ مقبوضہ جموں وکشمیر میں "انتخابات" کروانے کا بندوبست کیا جائے۔ انتخابات کے مطالبہ پرمیرا ماتھا ٹھنکا۔ یا درہے کہ 5 اگست 2019 کے روز مودی سرکار نے مقبوضہ جموں وکشمیر کو دوحصوں میں تقسیم کرتے ہوئے Union Territory ڈیکلئر کردیا ہے۔ جموں وکشمیر کی صوبائی اسمبلی کے انتخابات کا وعدہ ہے۔ لداخ کو مگر براہِ راست نئی دہلی سے جاری احکامات کے تحت چلایا جائے گا۔ ایلس ویلز مقبوضہ جموں وکشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے اور بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بار ے میں قطعاََ خاموش رہی۔ اس کی اس ضمن میں خاموشی عندیہ دے رہی ہے کہ مودی سرکار کے 5اگست والے فیصلے کو قبول کرلیا گیا ہے۔ جموں وکشمیر میں اب جو "ریاستی اسمبلی " انتخابات کی بدولت رونما ہوگی اس کی حیثیت بھارت کے دیگر صوبوں میں موجود "صوبائی" اسمبلیوں جیسی ہوگی۔ مقبوضہ کشمیر بھارت کا گویا"اٹوٹ انگ" ہوجائے گا۔ امریکہ اسے تسلیم کرتا نظر آرہا ہے۔ اس کی تشویش کا باعث فی الوقت فقط کمیونی کیشن لاک ڈائون ہے، بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہے، سیاسی اور سول سوسائٹی کے رہ نمائوں کی نظر بندی اور گرفتاری ہے۔ تمنا یہ بھی ہے کہ جموں وکشمیر کے "صوبائی معاملات" نئی دہلی کے بجاے وہاں کی "منتخب صوبائی حکومت" کے ذریعے چلائے جائیں۔
ایلس ویلز کی گفتگو میں کافی نمایاں ہوئی اس جہت پر پاکستانی میڈیا میں ہرگز توجہ نہیں دی گئی۔ محض اس بات پر اطمینان کا اظہار ہوتا رہا کہ بالآخر امریکی حکومت نے مقبوضہ کشمیر پر مسلط ہوئے کمیونی کیشن لاک ڈائون کے بارے میں اپنی تشویش کا کھل کر ا ظہار شروع کردیا ہے۔
مسئلہ کشمیر کے بارے میں پاکستان کا ایک تاریخی مؤقف رہا ہے۔ 5 اگست 2019 کے روز لئے فیصلوں کے تحت قائم ہوئی جموں وکشمیر کی "صوبائی اسمبلی" اس مؤقف کو تقویت دینے میں ہرگز مددگار نہیں ہوسکتی۔ فرض کیا اس صوبائی اسمبلی کے قیام کے لئے حلقہ بندیوں کے بعد نئے انتخابات کا اعلان ہو بھی گیا تو یہ سارا عمل ہمارے لئے قابل قبول نہیں ہوگا۔ ایلس ویلز جس Process کو شروع کرنے پر اصرار کررہی ہے اس پر عملدرآمد کشمیر پر قائم لائن آف کنٹرول کو بالآخر بین الاقوامی سرحد میں تبدیل کرنے کی طرف لے جائے گا۔
ایلس ویلز کے تجویز کردہ Process میں چھپے مضمرات کا ہمارے ہاں کماحقہ ادراک نظر نہیں آرہا۔ اسے روکنے کی حکمت عملی تیار کرنا تو دور کی بات ہے۔ لداخ کی جموں وکشمیر سے علیحدگی کو واشنگٹن کی جانب سے بغیر کچھ کہے تسلیم کرلینا بھی ہمارے لئے باعث تشویش ہونا چاہیے۔ میری تشویش کو سمجھنے کے لئے ضروری ہے کہ اس خطے کے نقشے کو غور سے دیکھیں۔ لداخ تبت کا ہمسایہ بھی ہے۔ وہاں بدھوں کی اکثریت ہے۔ لداخ کا ایک ضلع کارگل ہے۔ یہ اسے ہمارے گلگت بلتستان سے جوڑتا ہے اور گلگت کو گوادر سے ملانے کے لئے چین نے CPEC متعارف کروارکھا ہے۔ امریکہ اور چین کے مابین تجارتی جنگ سنگین ترہوتی جارہی ہے۔ لداخ کی جموں وکشمیر سے جدائی کو واشنگٹن کی جانب سے ہضم کرلینا اس جنگ کے تناظر میں دیکھنا ہوگا۔
اسی حوالے سے یاد یہ بھی رکھیں کہ کشمیری مسلمانوں کا ذکر کرتے ہوئے ایلس ویلز نے بہت جلے بھنے انداز چین کے صوبے سنکیانگ کا ذکر بھی کیا ہے جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں۔ اسی صوبے میں کاشغر بھی ہے جسے اقبالؔ نے نیل کے ساحل سے ملانے کا خواب دیکھا تھا۔ عمران خان صاحب کا اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب ہوگیا۔ اس کی دادوتحسین کے بعد اب کشمیرہی سے جڑے دیگر معاملات پر سنجیدہ غوروفکر کا آغاز ہوجانا چاہیے۔