صبح اُٹھتے ہی اخبارات کا پلندہ دیکھا تو میری دانست میں نمایاں اور اہم ترین خبر یہ تھی کہ گزشتہ ہفتے کے دوران پاکستان میں کرونا کی زد میں آئے مریضوں کی تعداد میں دوگنا اضافہ ہوچکا ہے۔ فی کس تناسب کے حوالے سے مگر اس مرض کی وجہ سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد وطنِ عزیز میں دیگر ممالک کے مقابلے میں ابھی تک پریشان کن نہیں تھی۔ اس کی زد میں آئے افراد کی تعداد میں اضافہ ایک تناظر میں یہ حوصلہ افزا پیغام بھی دے رہا ہے کہ ہمارے ہاں اس مرض کی زد میں آئے افراد کی نشاندہی کے لئے اختیار کیا نظام بہتر انداز میں چلایا جارہا ہے۔ ربّ کریم سے لہذا خیر کی اُمید ہی رکھنا ہوگی۔
کرونا کے تناظر میں لیکن چند معاملات نے دیگر وجوہات کی بناء پر پریشان کررکھا ہے۔ رات سونے سے قبل ارادہ باندھا تھا کہ صبح اُٹھ کر ان کے بارے میں لکھا جائے۔ انٹرنیٹ کے فروغ نے مگر صحافیوں کو "مقبولیت" کی تلاش میں جھونک دیا ہے۔ قلم اُٹھاتے ہی لاشعوری طورپر ذہن میں یہ خواہش مچلنا شروع ہوجاتی ہے کہ اخبار میں شائع ہونے کے بعد جب آپ کا لکھا کالم سوشل میڈیا پر پوسٹ ہو تو اسے زیادہ سے زیادہ لوگ خود پڑھیں یا انہیں دوسروں سے شیئر ضرور کریں اور Like کا بٹن بھی دبادیں۔
Click/Bait کی ہوس نے یاد دلایا کہ پیر کے دن ریگولر اور سوشل میڈیا پر یہ کہانی چھائی رہی کہ "کپتان" نے آٹے اور چینی کے "بحران" کی بابت رپورٹ کے منظرِ عام پر آجانے کے بعد اس "بحران" کے ذمہ دار وزراء اور سرکاری افسروں کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے۔ کابینہ میں اسی باعث ردوبدل ہوا۔ جہانگیر ترین چند ٹویٹ لکھنے کے علاوہ ریٹنگوں والے ٹی وی ٹاک شوز میں شریک ہوکر اپنا دفاع کررہے ہیں۔ طویل عرصے تک عمران خان صاحب کے قریب ترین شمار ہوتے مصاحب مگر اب "راندئہ درگاہ" نظر آرہے ہیں۔
اسلام آباد میں ترین صاحب F-6/3 کی ایک گلی میں رہتے ہیں۔ وہاں ملاقاتیوں کا تانتا بندھا رہتا تھا۔ ترین صاحب کی شفقت اور توجہ کے طالب ہجوم میں سے مگر اب کوئی ایک شخص بھی کھل کر ان کے دفاع میں ایک لفظ ادا کرنے کو تیار نہیں ہورہا۔ شعیب بن عزیز کا "اس طرح تو ہوتا ہے?" یاد آگیا۔ نجانے کیوں ان کی موجودہ صورتحال دیکھتے ہوئے مجھے اپنی جوانی کے ملک غلام مصطفیٰ کھر بھی بہت یاد آئے۔ پیپلز پارٹی کے ابتدائی ایام میں وہ بھٹو صاحب کے قریب ترین تصور ہوتے تھے۔"شیرِ پنجاب" بھی پکارے گئے۔ دسمبر1971 میں سقوط ڈھاکہ کے بعد جب بھٹو صاحب کے "نیا پاکستان" کا دور شروع ہوا تو آبادی کے اعتبار سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے مختارِ کل بنادئیے گئے۔ دوہی برسوں میں لیکن "پیا" ناراض ہوگیا۔ کھر صاحب اس کے بعد سے آج تک تنہا ہیں۔ رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوگیا۔
جہانگیر ترین کے مقابلے میں مخدوم خسروبختیار اگرچہ خوش بخت ثابت ہوئے ہیں۔ آٹے اور چینی کے "بحران" سے متعلق تیار ہوئی رپورٹ میں ان کا نام بھی نمایاں تھا۔ پیرکی صبح ان کی جانب سے وزیر اعظم کو بھیجا "استعفیٰ" سوشل میڈیا پر وائرل ہوا۔ میری انگریزی کافی کمزور ہے۔ غور سے "استعفیٰ" کا متن پڑھنے کو مگر مجبور ہوا۔ میری کمزور انگریزی کو اگرچہ یہ گماں ہوا کہ خسرو بختیار صاحب نے "استعفیٰ" نہیں لکھا۔ وزیر اعظم صاحب سے محض درخواست کی کہ "فوڈسکیورٹی" والی وزارت سے انہیں فارغ کردیا جائے۔ یہ استدعا فی الفور منظور کرلی گئی۔ ان کی جگہ سید فخرامام کو یہ وزارت سونپ دی گئی۔ خسروصاحب کی میری ناقص رائے میں اس کے بعد Upward Mobility ہوگئی۔ وہ اب "معاشی امور" کے وزیر بنادئیے گئے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ وزارت جو کبھی وزارتِ خزانہ کی ضمنی "ڈویژن" ہوا کرتی تھی اور اسے ایک "چھوٹے" یعنی وزیر مملکت کے ذریعے چلایا جاتا تھا اب ایک طاقت ور محکمہ بن چکا ہے۔ ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور FATF سے ریاستِ پاکستان کے معاملات اسی وزارت کے ذریعے طے ہوتے ہیں۔ مشرف صاحب کے دور میں خسروبختیار وزارتِ خارجہ کے "چھوٹے" وزیر رہے ہیں۔ غالباََ ان دنوں حاصل ہوئی سفارت کارانہ مہارت کو اب وہ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف سے مذاکرات کے لئے بروئے کار لائیں گے۔
کرونا نے پاکستان کے لئے جو طویل المدتی اقتصادی مشکلات پیدا کی ہیں ان سے کماحقہ اندازمیں نبردآزما ہونے کے لئے ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف کی بھرپور معاونت درکار ہوگی۔ اس معاونت کو یقینی بنانے کے لئے خسروبختیار صاحب کلیدی کردار ادا کریں گے۔ آٹے اورچینی کے "بحران" کے حوالے سے تیار ہوئی رپورٹ میں نظر بظاہر "نامزد" ہونے کے باوجود خسروبختیار یقینا کپتان کے "غضب" سے محفوظ رہے۔ ان کی Upward Mobility بلکہ یہ عندیہ دے رہی ہے کہ عمران صاحب کوان کی دیانت پر اعتبار واعتماد ہے۔ مونس الٰہی کا نام بھی ان سے منسوب ہوئے کارخانے کے ضمن میں نمایاں ہوا تھا۔ خسروبختیار صاحب کو مگر اب "کلین چٹ" مل گئی۔ ان کے بھائی ہاشم بخت بھی پنجاب کی وزارتِ خزانہ کا منصب بدستور سنبھالے ہوئے ہیں۔ ان دو بھائیوں کی خوش بختی چودھری مونس الٰہی کے لئے بھی خیر کی خبر ہے۔
انگشت نمائی اب فقط جہانگیر ترین پر ہورہی ہے۔ وہ اقتدار کے سفاک کھیل میں تنہا کردئیے گئے ہیں۔ خسروبختیار اور چودھری مونس الٰہی کا معاملہ ان سے جدا کردیا گیا ہے۔ ترین صاحب کو سپریم کورٹ عوامی عہدے کے لئے کئی برس قبل ویسے بھی تاحیات نااہل کرچکی ہے۔ عمران خان صاحب کی تھپکی سے محروم ہوکر اب وہ حکومتی فیصلہ سازی میں کوئی کردار ادا نہیں کر پائیں گے۔
وباء کے موسم میں اس سے زیادہ چسکہ فروشی کی مجھ میں ہمت نہیں۔ اجازت دیجئے کہ کم از کم ایک معاملے کے بارے میں چند کلمات لکھ دوں جس کے بارے میں دو دنوں سے فکر مند ہوں۔
اسلام آباد میں ان دنوں لاک ڈائون ہے۔ اس پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے لئے اس شہر میں جابجا ناکے لگائے گئے ہیں۔ ان ناکوں پر پہرہ دینے والے آٹھ سے بارہ گھنٹے ڈیوٹی پر تعینات رہتے ہیں۔ اتوار اور پیر کے روز میں روزمرہّ ضرورت کی چند اشیاء ڈھونڈنے گھر سے نکلا تو شہریوں کی نقل وحرکت پر نگاہ رکھنے والے پولیس اہلکاروں کو بھی صحافیانہ تجسس سے غور سے دیکھا۔ ان میں سے کسی ایک نے بھی دستانے نہیں پہنے ہوئے تھے۔ محض چند نے اپنے چہروں پر ماسک چڑھائے ہوئے تھے۔ یہ ماسک بھی نظر بظاہر انہیں باقاعدہ طورپر تیار ہوئی کسی سرکاری Kitکا حصہ نظر نہیں آئے۔ جس اہلکارکوجو ماسک بھی میسر ہوا اس نے ازخود بازار سے خرید کر اپنے منہ پر لگالیا۔ اپنے خدشے کی تصدیق کے لئے میں نے تین ناکوں پر رک کر پولیس والوں سے جاننا چاہا کہ انہیں سرکاری طورپر ماسک یا دستانے فراہم کئے جارہے ہیں یا نہیں۔ وہ سب طنزیہ مسکراہٹ سے میرے سوال کا جواب دینے سے کتراتے رہے۔
نسبتاََ ایک چھوٹی مارکیٹ کے قریب جو اہل کار کھڑا تھا اس نے ہمارے اجتماعی رویے کے عین مطابق "بہادری" سے اصرار کیا کہ موت برحق ہے مگر اس کا دن معین ہے۔ ماسک یادستانے شاید موت سے بچانہ پائیں۔ اصل فکر اسے یہ لاحق تھی کہ لاک ڈائون کی وجہ سے ریستوران بھی بند ہیں۔ ڈیوٹی کے دوران اسے چائے یا کھانے کی طلب ہو تو اسے پورا کرنے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ پانی کی بوتل بھی بہت مہنگی ہے۔ عموماََ کسی گھر کے باہر جاکر پانی کا گلاس مانگنا پڑتا ہے۔
لاک ڈائون کو یقینی بنانے کے لئے پولیس اہلکار کا کردار ہر اوّل دستے والا ہے۔ انتظامیہ کو یقینی بنانا چاہیے کہ ناکوں پر موجود اہلکاروں کو روزانہ کی بنیاد پر ماسک اور دستانے فراہم کئے جائیں۔ وہ اکثر سڑکوں پرچلتی گاڑیوں کے دروازے اور ڈگی وغیرہ کھول کر "ممنوعہ اشیاء" تلاش کرتے ہیں۔ موٹرسائیکل سواروں سے بھی ان کا واسطہ Distance والا نہیں ہے۔ ان کے لئے موبائل کینٹین لازمی ہے جو وقتاََ فوقتاََ انہیں چائے، پانی یا کھانا فراہم کرتی رہے۔ فرض کریں کہ انتظامیہ کے پاس وسائل موجود نہیں تو مختلف محلوں میں آباد خوشحال شہری ازخود ان اہلکارں کی دیکھ بھال کرسکتے ہیں۔ کمیونٹی پولیس کا خیال نہیں رکھے گی تو ان کے گھروں کی حفاظت کو یقینی بنانے والے بددل ہوجائیں گے۔ اس بددلی کا فی الفور تدارک ضروری ہے۔ وگرنہ ملک بھر کے کئی بڑے شہروں سے ایسی خبریں آرہی ہیں جنہیں سن کر گھر میں بیٹھے ہوئے خود کو محفوظ تصور کرنا محال محسوس ہونا شروع ہوگیا ہے۔