کئی نسلوں سے "خاندانی اشرافیہ" شمار ہوتے شاہ محمود قریشی صاحب جب قومی اسمبلی میں کھڑے ہوکر سوات سے اُبھرے تحریک انصاف کے جواں سال وزیر جناب مراد سعید کی دادوتحسین فرماتی تقریر کو مجبور ہوجائیں تو مجھ جیسے صحافیوں کو بہت کچھ سمجھ میں آجاتا ہے۔
اس تقریر کے ذریعے بنیادی پیغام یہ ملا ہے کہ عمران حکومت نے اپوزیشن جماعتوں کے بہت "نخرے اُٹھا" لئے۔ اپنے رہ نمائوں کی "منی لانڈرنگ" جیسے "کارناموں " پر شرمندہ ہونے کے بجائے ان جماعتوں سے وابستہ اراکین قومی اسمبلی عمران خان صاحب سے استعفیٰ طلب کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ اس مطالبے کے جواب میں مراد سعید صاحب پیر کے دن ایوان میں کھڑے ہوکر "پرچی سے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بنے" بلاول بھٹو زرداری کو "تم اور تو" پکارتے ہوئے جارحانہ تنقید کی زد میں لانے کو "مجبور " ہوئے۔
پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ (نون) کے سوسے زیادہ اراکین نے بقول شاہ محمود قریشی "اتنا حوصلہ" بھی نہ دکھایا کہ اپنی نشستوں پر بیٹھے ہوئے مراد سعید کی گفتگو کو سن لیتے۔ ایوان سے باہر چلے گئے۔ یوں کرتے ہوئے اپوزیشن اراکین یہ پیغام دینا چاہ رہے تھے کہ مراد سعید کی گفتگو سننے کے قابل نہیں۔ شاہ محمود قریشی صاحب کو مگر ان کے رویے نے یہ اعلان کرنے کو اُکسایا کہ وزیر اعظم کو ٹی وی سکرینوں پرLiveمناظرے کا چیلنج دیتے بلاول بھٹو زرداری اور خواجہ آصف میں اتنی ہمت بھی نہیں کہ "عمران خان کے سپاہی" کا سامنا کرپائیں۔ عمران خان کو مناظرہ کا چیلنج دیتے یہ رہ نماء مگر باز نہیں آئے۔ ابھی تک یہ حقیقت تسلیم نہیں کر پائے کہ عمران خان عوام کے منتخب کردہ وزیر اعظم ہیں۔ انہیں اپنے عہدے کی آئینی مدت مکمل کرنا ہے۔ اس مدت کے ختم ہونے سے قبل "کس منہ سے" ان کا استعفیٰ طلب کیا جارہا ہے؟
شاہ محمود قریشی صاحب بہت پرکاری سے ا پنے بارے میں "سنجیدہ اور باوقار" سیاست دان ہونے کا تاثر دیتے رہے ہیں۔ عمران حکومت اور اپوزیشن کے مابین جب معاملات تلخ ترین ہوتے نظر آئیں تو وہ اپنی خوش گفتاری سے اپوزیشن کے دلوں میں نرمی پیدا کرتے رہے۔ پیر کی دوپہر وہ مگر "صلح جوئی" کی کاوشوں سے لاتعلقی کا اظہار کرتے سنائی دئیے۔ اب مراد سعید صاحب کا غضب ہوگا اور اس کی تپش سے بے بس ہوئی اپوزیشن۔ حزب اختلاف کو اس تپش سے محفوظ رکھنے کو شاہ محمود قریشی صاحب کی جانب سے اب کوئی چادر فراہم نہیں ہوگی۔
عمران حکومت نے پیر کے روز کرونا کے موسم میں بھی 160اراکین کو ایوان میں بٹھا کر اپنا بجٹ منظور کروالیا۔ یہ افواہیں غلط ثابت ہوئیں کہ اختر مینگل کی جانب سے حکومتی اتحاد سے جدائی کے اعلان کے بعد عمران حکومت "صبح گیا یا شام گیا" والے مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ چودھری شجاعت حسین صاحب کا وہ عشائیہ بھی کام نہیں آیا جس کا اہتمام عین اسی وقت ہوا جب وزیر اعظم صاحب اپنے حامیوں سے کھانے کی دعوت کے دوران خطاب فرمارہے تھے۔ فواد چودھری صاحب کا وہ انٹرویو بھی "کویلے کی اذان" سنائی دیا جس کے ذریعے وہ عمران حکومت کو آئندہ چھ مہینوں کے دوران مشکلات کے بھنور میں گھرادیکھ رہے تھے۔ عمران حکومت نے بھاری بھر کم اکثریت سے اپنا بجٹ پیر کے روز منظور کروالیا۔ اپنی "قوت" کے بھرپور اظہار کے بعد اس حکومت کو اب گھبرانے کی ضرورت نہیں رہی۔ اپوزیشن بلکہ خود کو دیوار سے لگائے جانے کو تیار ہوجائے۔
قومی اسمبلی میں "تخت یا تختہ" اور "ہم نہیں تو تم بھی نہیں " والا ماحول اس دن دیکھنے کو ملا جب کراچی میں دہشت گردوں نے وہاں کئی برسوں سے موجود سٹاک ایکس چینج کی عمارت میں گھس کر ایسی فضا بنانے کی کوشش کی جو پاکستان کو دہشت گردی کے ہاتھوں بے بس ہوا دکھائے۔ کراچی پولیس کے بہادر جوانوں نے جان پر کھیل کر اس کوشش کو ناکام بنادیا۔ اس کی جرأت اور بہادری کو سلام۔
مذکورہ حملے کے چند ہی گھنٹوں بعد ایک کالعدم تنظیم نے انتہائی ڈھٹائی سے اس کی ذمہ داری قبول کرلی۔"اعترافی بیان" میں سادہ ترین الفاظ میں چند ایسے کلمات بھی لکھے گئے جن کے ذریعے واضح طورپر پیغام یہ دیا گیا کہ ہمارے یارچین کے ہاتھوں لداخ کی چوٹیوں پر بھارت کو کئی مقامات پر جس ذلت کا سامنا کرنا پڑا اس کا بدلہ کراچی میں لینے کی کوشش ہوئی ہے۔ آج سے چند ماہ قبل اسی شہر میں موجود چینی قونصل خانہ بھی دہشت گردی کی زد میں آیا تھا۔ ہماری سرزمین پر گویا ایک اور Proxyوار شروع ہوگئی ہے۔ اس کے ذریعے درحقیقت چین کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
پیر کے روز کراچی میں ہوئے واقعہ کے بعد شاہ محمود قریشی صاحب کی بنیادی ذمہ داری یہ تھی کہ وہ بطور وزیر خارجہ ہم سادہ دل پاکستانیوں کو اس نئی جنگ کے خدوخال سمجھانے کی کوشش کرتے۔ اس کوشش کے بعد عوام کو ایک نئے چیلنج کا متحد ہوکر سامنا کرنے کے لئے تیار کرنا بھی ضروری تھا۔ ہمارے وزیر خارجہ مگر مراد سعید صاحب کی شعلہ بیانی سے متاثر ہوکر بذاتِ خود جذبات سے مغلوب ہوگئے۔ کراچی میں ہوا واقعہ "ہمارے نمائندگان" کی ایسی توجہ حاصل نہ کرپایا جس کا وہ مستحق تھا۔
5اگست 2019کے بعد سے تقریباََ ہر دوسرے دن اس کالم کے ذریعے اس حقیقت پر توجہ دلانے کی کوشش کرتا رہا ہوں کہ مودی سرکار نے لداخ کو ماضی کی ریاست جموں وکشمیر سے جدا کرنے والا جو قدم اٹھایاہے چین اسے نظرانداز نہیں کر پائے گا۔ بھارت کو لداخ کا "ماما" ہرگز تسلیم نہیں کر یگا۔ لداخ کی تاریخی شناخت کو مٹاتے فیصلے کے خلاف چین نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کیا۔ فرانس جیسے "دوستوں " کے باعث سلامتی کونسل اس موضوع پر باقاعدہ اور میڈیا کے لئے کھلا اجلاس منعقد کرنے کی جرأت نہ دکھاپائی۔ سفارت کاری ناکام ہوجائے تو فوجی قوت کو متحرک کرنا پڑتا ہے۔ چین نے اس ضمن میں مناسب وقت کا انتظار کیا۔ مئی کے موسم نے اسے وہ فضا فراہم کردی جب لداخ کی چوٹیوں میں سرحدوں کی تقسیم کو گج وج کر دکھایا جاسکتا ہے۔
مودی سرکار اس ضمن میں قطعاََ بکری نظر آئی۔"دُنیا کی سب سے بڑی جمہوریت" کے دعوے دار ملک میں میڈیا کو حقائق بیان کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ کبوتر کی طرح آنکھ بند کرتے ہوئے بلی کی موجودگی کو نظرانداز کرنے کی کاوش ہوئی۔ ہم اپنے ازلی دشمن کی اپنے سمندروں سے گہرے دوست کے ہاتھوں تذلیل سے جائز بنیادوں پر شاداں محسوس کرتے رہے۔ ہم میں سے کوئی ایک "دانشور" بھی مگر اس امکان کو دیکھ نہ پایا کہ لداخ کی پہاڑیوں میں ہوئی خفت کو کراچی میں دہشت گردی کے ذریعے بھلانے کی کوشش ہوگی۔ پیر کے روز ہماری آنکھوں کے سامنے ہوئے واقعہ کے بعد بھی "دفاعی امور" کے "ایک ڈھونڈنے نکلوتو ہزاروں " مل جاتے ہیں نوعیت کے ماہرین بھی ہماری سرزمین پر ایک اور پراکسی جنگ مسلط کرنے کی خواہش پر بھرپور توجہ دینے سے اجتناب برت رہے ہیں۔
میڈیا پر فقط یہ کہانی حاوی ہے کہ عمران حکومت نے ایک اور بجٹ بآسانی منظور کروالیا ہے۔ اس کے چل چلائو کی کہانیاں بے سروپاثابت ہوئیں۔ عمران خان صاحب کے علاوہ اب اور کئی "چوائس" ہی باقی نہیں رہی۔ اپنے سروں کو اس حقیقت کے روبرو جھکادیا جائے۔"اسی تنخواہ" پر گزارہ کرنے کی عادت اپنائیں۔ ملکی سیاست کے بارے میں "ہورہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا" والا رویہ اختیار کریں اور لسی پی کر سوجائیں۔